"RBC" (space) message & send to 7575

آخری انقلابی بابا

ہم انقلابیوں کے ہمیشہ حامی‘ کچھ کے ساتھی اور سب کے معترف رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نظریات میں زندہ رہتے ہیں‘ بہتر انسانی زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے رکھتے ہیں اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمہ تن‘ ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کی دنیا موجودہ سرمایہ داری نظام کی مادیت پرستی کی سرحدوں سے آگے شروع ہوتی ہے۔ جس کا پہلا اور آخری نکتہ برابری‘ سماجی انصاف‘ معاشی مساوات اور استحصالی قوتوں کا خاتمہ ہے۔ اب تو دنیا کے ہر کونے میں نئے معاشرے وجود میں آ چکے ہیں جہاں عالمی کمپنیوں‘ سرمایہ داروں اور ان کے گماشتہ حکومتی نمائندوں اور سیاسی جماعتوں کا غلبہ ہے۔ عام آدمی بھی سرمایہ داری کے رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے‘ اور اس فریب کا شکار ہے کہ شاید وہ بھی ایک دن خوشحالی کے خوابوں کو تعبیر کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ داری نظام نے ہر میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جہاں صنعتی ترقی نے عروج پایا ہے وہاں عام آدمی کی زندگی میں بھی مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سرمایہ داری نظام اپنی جائزیت‘ حاکمیت اور نظریاتی کشش کھو بیٹھتا۔ صنعتی خوشحالی کا دائرہ جہاں جہاں وسیع ہوا وہاں کچھ نہ کچھ مادی فوائد اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتے دکھائی دیے۔ اس کا پھل غریبوں کی جھولی میں بھی گرا۔ اس سے جو سلسلہ چل نکلا تو ابھرتی ہوئی مڈل کلاس اس کی لڑی پروتی گئی بلکہ صنعتی جمہوریت کے استحکام کی ضمانت یہ نئی کلاس قومیت پرستی کی علمبردار بھی ٹھہری۔ انقلابوں کا راستہ روکنے کا یہی طریقہ تھا جو مغرب نے اختیار کیا اور اسی کی ترغیب اشتراکی نظریاتی کے پھیلائو کے پیش نظر ہمارے طالب علمی کے زمانے میں نئی آزاد ترقی پسند قوموں کو دی۔
یہ باتیں سوچتے ہوئے دھیان 1960ء کی دہائی کی طرف چلا جاتا ہے جب ہماری نسل کے انقلابی مائو کیپ اور چی گویرا کی ایک سٹار والی کالی ٹوپی پہن کر بغاوت کا سرعام اعلان کرتے تھے۔ ہمارے ہاں انقلابی باتیں نظریات کی سمجھ بوجھ‘ تاریخی تنقید ‘ سرمایہ داری نظام کا مطالعہ اور اس کے ثقافتی تسلط تک محدود تھیں۔ بہت کم میدان میں اترے‘ مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ جُڑے اور ان کی شعوری بالیدگی بڑھانے کی جدوجہد کی۔ بہت سوں کو قریب سے دیکھا اور اس سفر میں چند میل چلے بھی سہی‘ مگر ہم پیشہ ور انقلابی نہ بن سکے۔ پیٹ کی آگ گھسیٹ کر شعبہ تدریس کی طرف لے گئی۔ اس باغی دہائی کی نظریاتی کشمکش اور سیاسی فلسفوں کو ہم نے یادداشتوں سے کہیں زیادہ اپنے محدود علمی میدان میں جاری رکھا۔ دنیا کا کوئی خطہ اُس وقت ایسا نہ تھا جہاں اشتراکیت کا سرخ پرچم نوجوانوں نے نہ لہرایا ہو۔ انہیں خطرناک سمجھا جاتا۔ جنوبی امریکہ جسے لاطینی امریکہ بھی کہا جاتا ہے‘ میں اشتراکی انقلابیوں کو قید وبند اور تشدد کا نشانہ سب سے زیادہ بنایا گیا۔ اگرچہ ہر ملک میں مسلح جدوجہد کا پرچار کیا گیامگر لاطینی امریکہ میں یہ نظریہ اپنی انتہا کو پہنچا۔1950ء کے کیوبا کے انقلاب کے بعد تو ہر ملک میں عسکریت پسندی کو تقویت ملی۔ فیڈل کاسترو اور چی گویرا‘ جس کا تعلق تو کیوبا سے تھا مگر جنوبی امریکہ کے ہر ملک میں اشتراکی انقلاب کے حامی تھے اور سب تحریکوں کو جمع کرکے مشترکہ جدوجہد کرتے رہے۔ یورا گوئے میں بھی انقلابی تحریک زوروں پر تھی اور اس کے سرخیلوں میں ایک نام ہوزے البرٹو پیپے موہیکا (José Alberto Pepe Mujica Cordano) تھا جو چند دن قبل اناسی سال کی عمر میں فوت ہو گئے۔
ہوزے البرٹو موہیکا کے بارے میں زیادہ جانکاری ایک دہائی پہلے ہوئی جب وہ یورا گوئے کے صدر منتخب ہوئے اور دو مدتیں پوری کیں۔ وہ فیڈل کاسترو اور چی گویرا کے ساتھیوں میں سے تھے اور انہیں پوری دنیا میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ میری دلچسپی اُن کے نظریات‘ طرزِ زندگی اور طویل جدوجہد میں رہی ہے۔ اپنے انقلابی نظریات سے انہوں نے وفا کی مگر انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ عملیت پسند بھی تھے اور انسانی حقوق کی پامالی اور طاقت کے ارتکاز کی مخالفت وہ کیوبا اور نکاراگوا جیسے ممالک میں بھی اپنی نجی محفلوں میں کرتے تھے۔ جب وہاں کے حکمرانوں سے ملاقات کرتے تو اس کا گلہ بھی کرتے۔ چودہ برس زمین دوز قید خانے کی تاریک تنہائیوں میں گزارنے کے بعد انہوں نے کسی سے انتقام لیا اور نہ اس کا سوچا۔ سب کو معاف کر دیا۔ اس لیے ان کا موازنہ نیلسن منڈیلا سے کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ سوال یہ ہے کہ ماضی میں رہیں یا مستقبل کی طرف سفر کریں؟ ماضی کو بھلایا نہیں جا سکتا مگر اس پر توجہ مرکوز کرکے مستقبل کو برباد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
وہ موجودہ تہذیب کا رونا اخلاقیات کے حوالے سے نہیں اس میں منڈی کی مرکزیت کے حوالے سے روتے تھے‘ جس کی متحرک طاقت سماجی شعور نہیں بلکہ سرمایہ داری ہے۔ دنیا بھر سے انقلابی رہنما‘ دانشور‘ صحافی اور حکمران اُن سے ملنے آتے‘ ان کی باتیں سنتے اور حکمت کی باتیں سمیٹ کر رخصت ہوتے۔ اپنے بیگانے اُن سے والہانہ محبت کرتے اور اس فلاسفر اور انقلابی بابے کے ساتھ کچھ وقت گزارنا باعثِ فخر سمجھتے۔ کامریڈ ہوزے موہیکا کی زندگی کے بارے میں ہمیشہ تجسس رہا ہے۔ وہ صدر ہونے کے باوجود ایک خستہ حال دیہاتی گھر میں رہتے تھے جس کی چھت ٹین کی چادروں سے بنی ہوئی تھی۔ اُن کے گھر تک کبھی پکی سڑک نہ بنی اور نہ ہی جدید سہولتیں میسر آئیں۔ سردیوں میں گھر کو گرم رکھنے کے لیے لکڑیاں جلاتے تھے‘ آخر تک کھانا وہ خود اور ان کی انقلابی بیگم لوسیا بناتے رہے۔ صرف ایک گارڈ تھا‘ پرانا وفادار جس کے پاس بیٹھ کر‘ بیوی سے چھپ کر وہ سگریٹ پیتے تھے۔ سپین کا بادشاہ ہو یا برازیل کا صدر‘ یا کسی اور ملک کا حکمران‘ سب باہر درخت کے سائے یا کھلے میدان میں پڑے بنچوں اور لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھتے تھے۔ دنیا نے آج تک ایسا درویش صدر نہ پہلے کبھی دیکھا ہے نہ شاید بعد میں کبھی دیکھے۔ جب تنخواہ دار تھے تو تین چوتھائی تنخواہ خیرات کر دیتے اور ایک چوتھائی پر گزارا کرتے تھے۔ زندگی بھر ایک کسان رہے۔ اپنی اکثر سبزیاں خود اگاتے اور سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ بڑے سے بڑے مہمانوں کے لیے بھی خصوصی کھانے کا انتظام نہ کرتے‘ بلکہ اپنی جڑی بوٹیوں سے بنی چائے جو خود پیتے‘ وہی انہیں عام سے کپوں میں ڈال کر پیش کرتے۔ اُن کے گھر اور اس کے سامان کی طرح خود بھی بوسیدہ‘ پرانے بغیر استری کے کپڑے پہنچتے۔ بال کٹوانے کا خیال بھی شاید ہی کبھی آتا۔ سادگی کا درس دیتے اور اس بات پر ان کا زور ہوتا کہ حقیقی خوشی وہ ہے جو مشترک ہو اور ایک دوسرے کے ساتھ بانٹی جائے۔ انہیں افسوس ہوتا تھا کہ آج کے دور میں ہم سب انسان اپنے آپ سے بے حد محبت کرتے ہیں اور ہمارے اوپر نرگسیت سوار رہتی ہے۔ اس سے نکلنا صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اکثر کہتے تھے کہ مخالفوں سے نفرت کر کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ نہ غرور اور خود پرستی سے اور نہ ہی مصنوعی نعرہ بازی سے۔ آج کی دنیا کے تضادات کو سمجھ کر اپنا راستہ ہر انسان سماجی شعور کی طاقت سے بنا سکتا ہے‘ جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نرگسیت اور مادہ پرستی ہے۔ ان کی بہت سے باتیں ہیں‘ لیکن پھر کبھی سہی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں