"RBC" (space) message & send to 7575

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر…

اُدھر کبھی جانے کا سوچا تھا نہ لاہور کی اس آبادی کا کوئی نقشہ ذہن میں تھا۔ مدتوں اس کے قریب سے گزرتے رہے۔ اس کے قریب سے ہزاروں لوگ بڑی سڑکوں پر گاڑیاں دوڑاتے‘ سامنے اُبھرتی ہوئی کئی منزلہ عمارتوں کے جھرمٹ میں اپنی راہ لیتے ہیں۔ بہت کم لوگ نظر اٹھا کر اس طرف دیکھنے کی پروا کرتے ہیں۔ چند روز قبل اس شہر کی ایک قدیم ترین درس گاہ کے اندر مہمان خانے میں رات گزارنے کا پہلی بار تجربہ ہوا۔ نہر کے کنارے بڑے بڑے درختوں میں چھپی یہ درس گاہ مسیحی مشنریوں نے اُسی برس قائم کی جب گورنمنٹ کالج لاہور کی 1864ء میں بنیاد رکھی گئی۔ کئی بار یہاں آئے‘ وقت گزارا اور سمیناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے‘ اور ہر مرتبہ اس کے بلندو بالا درختوں اور سلیقے سے تعمیر شدہ عمارتوں سے متاثر ہوا ہوں۔ اسے قومیانے سے جو تباہی ہوئی‘ اس کی بات نہ کریں تو بہتر ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ جب سے یہ ادارہ اپنے حقیقی مالکوں کو تقریباً دو دہائیاں پہلے واپس کیا گیا تو اب تک انہوں نے اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کرکے اسے بڑی حد تک بحال کر دیا ہے۔ جدید اور بہت بڑی عمارتیں لاہور کے روایتی طرزِ تعمیر کی ترجمانی کرتی ہیں۔ مقصد اس دانش گاہ کے بارے میں لکھنا نہیں بلکہ اس کے عقب میں نسلوں سے بسی ایک آبادی کے بارے میں بات کرنا ہے جسے یہاں لوگ کچی آبادی کہتے ہیں۔ ایک ناگہانی ضرورت وہاں صبح سویرے لے گئی۔ عمر کے اس حصے میں پوری کوشش کے باوجود سفر کی تیاری میں کوئی نہ کوئی ضروری چیز ساتھ رکھنا بھول جاتے ہیں۔ میرا اپنا تجربہ اور خیال یہ بھی ہے کہ اس میں عمر کا کوئی عمل دخل نہیں‘ ہم سب بے شمار کاموں میں مصروف ہوں تو ذہن میں کئی تصویریں چل رہی ہوتی ہیں‘ اور کسی کا اچانک غائب ہو جانا فطری بات ہے۔ کیا کریں‘ وجہ کچھ بھی ہو‘ ارد گرد لوگوں کی بات ہمارے سفید بالوں پر جا ٹھہرتی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ صبح اٹھتے ہی سیر و تفریح کے بعد شیو نہ کریں‘ خاص طور پر جب کسی سیمینار میں آپ کو کچھ جملے کہنے کا حکم دیا گیا ہو۔ ہم پرانی طرز کے لوگ ٹائی اور کوٹ کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ انگریزی مو تراش اپنے بیگ میں نہ دیکھ کر ہنگامی صورت حال اپنے اوپر طاری کر لی اور سوچا کہ باہر نکل کر سیر بھی ہو جائے گی اور کہیں سے ریزر بھی مل جائے گا۔ جامعہ کے اندر باوردی محافظوں سے قریب ہی کسی دکان یا مارکیٹ کا صبح سویرے کھلنے کے بارے میں معلوم کیا تو جواب وہی تھا جو آپ کو معلوم ہے۔ دکانیں دیر سے کھلتی ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کے پسماندہ ممالک میں واحد ہے جہاں دکانیں گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتیں۔ ایک سمجھدار دکھائی دینے والے محافظ نے ایک عقبی دروازے کی طرف تقریباً ایک کلو میٹر دور کا اشارہ کیا۔ اگر آپ کو لاہوریوں سے راستہ معلوم کرنے کا تجربہ ہے تو آپ گوگل والوں کو تہہ دل سے دعائیں دیتے ہوں گے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دائیں طرف دودھ دہی والوں کی دکان‘ آگے ناک کی سیدھ اور بائیں جانب مڑ کر آپ حلوائی سے معلوم کر لیں کہ کسی دکان سے ریزر دستیاب ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ریزر کی تلاش میں ہر صورت نکلنا ہی تھا‘ کوتاہی کی گنجائش نہ تھی۔ اگر گاڑی نکال کر صبح سویرے کہیں بھی جاتا تو سب کچھ بند ملتا۔ باہر نکل کر بائیں طرف جانے کا اسی دروازے کی طرف محافظوں نے اشارہ کیا اور کچھ فاصلے پر وہ دودھ دہی والی دکان واقعی موجود تھی۔ لاہور شاید دنیا کا واحد شہر ہے جہاں آپ پرانی آبادیوں میں جائیں تو سورج نکلتے ہی آپ کو دہی اور لسی کی دکانیں کھلی نظر آئیں گی اور ساتھ مشہور لاہوری ناشتہ ہماری توجہ کا مرکز تھا۔ خیر حلوہ پوری اور چنے کی طرف کوئی رغبت نہ ہوئی۔
کچی آبادی کا وہی منظر تھا جو ان آبادیوں میں ہوتا ہے۔ کوڑا کرکٹ وہاں کچھ سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ خیال ہے کہ روزانہ اٹھایا جاتا تھا۔ آوارہ کتوں کی تعداد مناسب تھی‘ اور بھونکنے میں وہ بخیلی کے قائل نہ تھے۔ ایک آدمی دو بھیڑوں کو تازہ پانی سے غسل دیتا بھی نظر آیا۔ کریانے کی ایک دکان کھلی تھی اور وہاں ریزروں کی سب اقسام موجود تھیں۔ یہ دیکھتے ہی جان میں جان آئی۔ مگر اب یہ گوہر مقصود پانے کے بعد سوچا کہ اس ''پیرس کالونی‘‘ میں کچھ وقت چل پھر کر گزارہ جائے۔ غریبوں کی ایسی بستیوں کو یہ لوگ ایسے ہی مضحکہ خیز ناموں سے مشہور کرتے ہیں۔ ایک اس نام کی بستی اسلام آباد میں بھی موجود ہے۔ اس کچی آبادی کا محل وقوع اور لوگوں کا رہن سہن ایسا تضاد پیش کرتا ہے جو شاید ہی کہیں دیکھا ہو۔ ایک طرف وسیع و عریض جامعہ مگر اس کی اونچی دیواریں اور دوسری طرف امیروں کا گلبرگ۔ کئی کنالوں پر محیط‘ گھنے درختوں میں چھپے ہوئے اعلیٰ مکانات جہاں شاید چند ہزار افراد رہتے ہوں‘ اور دوسری طرف یہ کالونی جس کی تنگ و تاریک گلیوں نے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ کچھ دیر تک دودھ دہی کی دکان پر کھڑا آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا اور اسی اثنا میں تازہ دودھ کے دو ٹینکر دیکھے۔ دودھ بڑے بڑے ڈرموں میں اس طرح انڈیلا جا رہا تھا جیسے اس ملک میں دودھ کی نہریں بہتی ہوں۔ نو دس سال کے لڑکے سے‘ جو مہارت سے دودھ اور دہی باریک پولی تھن بیگوں میں ڈال کر گاہکوں کو دے رہا تھا‘ وہ سوال پوچھا جو ہر ایک کے دل میں ہوتا ہے۔ یہ دودھ خالص ہے اور کوئی کیمیائی مادے تو نہیں ملائے گئے؟ وہ جواب میں مسکرا دیا‘ مگر ایک خریدار جو دو پیکٹ لے چکا تھا‘ بلند آواز میں بولا: کہاں جی‘ پتا نہیں کیا کچھ اس میں ملاتے ہیں۔ تو آپ خریدتے کیوں ہیں؟ ہم ڈبے والا دودھ نہیں خرید سکتے‘ مجبوری ہے‘ کیا کریں؟ اس نے غربت کا رونا رونا شروع کر دیا۔
بات آگے بڑھانے کے لیے بہت ہی تنگ گلیوں کے بارے میں مَیں نے کچھ کہا تو اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور کافی دیر تک باہر چکر لگاتا رہا۔ گلیاں زیادہ سے زیادہ تین یا چار فٹ چوڑی تھیں‘ اور اندر داخل ہوتے ہی گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔ ہر طرف مکڑی کے جالوں کی طرح بجلی کے تاروں کے گچھے لٹکے ہوئے تھے۔ گھر اتنے تنگ اور چھوٹے کہ جیلوں کی کال کوٹھریوں کا گمان ہوتا تھا۔ اجنبی نے عجیب سا سوال داغ دیا ''آپ مسیحی ہیں یا مسلمان؟‘‘ مذہبی شناخت اس کے ذہن پر غالب تھی کہ وہ مسیحی اقلیت کی آبادی میں اپنے آپ کو اقلیت شمار کرتا تھا اور بات چیت کرنے میں احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ ہم مذہب پا کر کچھ کھل گیا۔ راستے میں ایک دکان سے دو انڈے خریدے اور دو رس لیے اور ساتھ مجھے اپنے گھر تک لے گیا۔ میں نے اس کی مہمان نوازی کے جذبے کو سراہا مگر معذرت کر لی۔ میں نے اس کے دولت خانے کی بھی تعریف کی۔ گھر کی تعریف پر فوراً کہنے لگا کہ بیچنا چاہتا ہوں‘ مگر یہ لوگ اچھی قیمت نہیں دیتے اور ہمارے جیسے یہاں آنا نہیں چاہتے ہیں۔ بات رشتوں تک پہنچ گئی کہ اپنے بھی رشتے نہیں کرتے کہ آپ لوگ اس کالونی میں رہتے ہو۔ بڑے بڑے گھروں کے مکین پڑوسیوں کے بارے میں اس مزدور کے تاثرات میں تلخی‘ طبقاتی شعور اور استحصال اور سماجی تفریق نمایاں تھی۔ آدھے گھنٹے سے بھی کچھ کم وقت کا گزارنا مزدوروں کی اس بستی کی کچھ تلخ حقیقتوں کو آشکار کر گیا۔ ان کے گرد دیواریں کھڑی کرکے اشرافیہ نے انہیں تنگ گلیوں اور تاریک مکانوں میں بدنما داغ کی طرح چھپا تو لیا ہے مگر کہیں ان کی شعور کی آگ کے شعلے بلند ہو کر ان کے عالی شان بنگلوں کو بھسم نہ کر دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں