"RBC" (space) message & send to 7575

سرمایہ کاری جو ہم نہ کر سکے

نظریاتی طور پر تو ہم سرمایہ داری نظام کے خلاف ہیں اور کبھی اس کے عالمگیر غلبے کے قصیدے نہیں لکھے مگر اس میں رہتے ہوئے جینے کے کچھ سلیقے جنہوں نے نہ سیکھے‘ وہ بہت پیچھے رہ گئے۔ آج کے زمانے میں ماضی کے اشتراکی ممالک ہوں یا افریقہ کی پسماندہ ریاستیں‘ ہر کوئی سرمایہ کاری اور پیداوار بڑھانے اور عالمی منڈی تک رسائی اور سہولتوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جہاں کہیں آج ترقی اور خوشحالی کو پھلتے پھولتے دیکھتے ہیں‘ وہاں کچھ بالغ نظر سیاسی دیدہ وروں نے ایک اور نوع کی سرمایہ کاری کی ہے جو اس نظام کی بنیاد ہے۔ یہ وہ معیاری تعلیمی ادارے ہیں جن میں ہر طرح کے جدید سائنسی میدانوں کے ماہرین تیار کیے جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ سماجی‘ انتظامی‘ تاریخی اور معاشی امور کے بارے میں تعلیم اور تحقیق بھی لازمی حصہ رہی ہے کہ انسان‘ اس کے ماضی اور معاشرے کو سمجھے بغیر سائنسی ترقی کی راہیں نہ ہموار ہو سکتی ہیں اور نہ انہیں وقت کے ساتھ کشادہ کرنے کی استعداد پیدا ہو سکتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ایک مربوط حکمت عملی‘ وژن‘ مسلسل جدوجہد اور بھرپور سیاسی منشا کے تابع ہے۔ اس وقت دنیا میں آگے وہ ممالک ہیں جہاں کی جامعات اور تدریسی نظام تعلیم نے پیچیدہ سرمایہ داری اور صنعتی نظام چلانے کے لیے باصلاحیت افرادی قوت پیدا کی ہے۔ کہاں کہاں کی آپ کو مثال دوں اور کس کس ملک کے بارے میں بات کروں۔ آپ کی آنکھیں کھلی ہیں اور کچھ دنیا جہان کو دیکھا ہے ‘اور اگر مغربی دنیا کی جامعات میں قدم رکھا ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کئی نسلوں اور صدیوں سے تواتر کے ساتھ ریاست اور معاشرہ ان میں سرمایہ کاری کرتے چلے آئے ہیں۔ امریکہ میں تو بہترین جامعات وہ ہیں جن کی تعمیر و ترقی مختلف سماجی حلقوں نے عوامی خدمت‘ انسانی جذبوں اور مذہبی تقاضوں کے زیر اثر کی ہے۔ وہاں کے معیار اور سائنسی شعبوں کی اعلیٰ کارکردگی کو دیکھ کر مقامی اور ریاستی حکومتوں نے بھی تحقیق اور ایجاد کی غرض سے مختلف منصوبوں کے لیے فنڈز مہیا کرنے کی روایت ڈالی ہے۔
دورِ حاضر میں بڑی طاقتوں میں مسابقت صرف صنعتی پیداوار اور عسکری قوت میں نہیں تعلیم کے میدان میں بھی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی ممالک کی تو بہت پرانی تاریخ ہے مگر جس انقلابی جذبے سے چین نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں گزشتہ نصف صدی میں خیرہ کن پیش رفت کی ہے شاید ہی تاریخ میں کسی ملک نے کی ہو۔ ایک تاریخی روایت اور عالمگیر اصول قدیم زمانے سے آج تک چلا آیا ہے کہ دانش گاہیں بلا لحاظ رنگ ونسل‘ قومیت اور مذہب سب اہل نوجوانوں کے لیے دروازے‘ ہر ملک میں کھولتی رہی ہیں‘ مگر ریاستوں کے درمیان تنائو ‘ کشیدگی اور عناد کی وجہ سے سے دروازے بند بھی رہے ہیں۔ وہ بھی ایک وقت تھا جب ہمارے خطے کے بزرگ جو اَب ہم میں نہیں رہے‘ ایک ساتھ مختلف شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ آزادی کے بعد وہ سب کچھ ختم ہو گیا اور ایسا سوچنا بھی امکانات کی حدود میں نہیں۔ مغربی ممالک نے ہمارے لیے دل سے کشادگی کا مظاہرہ کیا۔ انگریزی حکومت نے ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بنیاد ڈیرھ سو سال پہلے رکھی اور اپنی ہی جامعات کو ایک ماڈل بنا کر یہاں کا نصاب اور نظام ترتیب دیا۔ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ زراعت اور میڈیکل کے شعبوں کی بنیاد اُسی زمانے میں رکھی گئی۔ کاش ہم وقت کے ساتھ ان میں جدت لاتے اور نئے زمانوں اور سائنسی تقاضوں کے ساتھ ان میں مسلسل ہم آہنگی پیدا کرتے رہتے۔ نصف صدی پہلے تک ہمارے طالب علمی کے زمانے میں ہمسایہ ممالک اور کئی ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مسابقت میں آگے نہیں تو کم از کم برابر ضرور تھے۔ ترکی‘ ایران‘ مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے علاوہ نیپال اور جنوب مشرقی ایشیا سے معقول تعداد میں طالب علم ہم نے دیکھے ہیں۔ اب کن کن افلاطون حکمرانوں کا ذکر کریں کہ ان کی ترجیحات ہی بدل گئیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ جنگیں اغیار کی ہوں یا اپنی‘ جن کا اب ہمیں وسیع تجربہ ہو چکا ہے‘ کسی اور راستے پر ڈال دیتی ہیں۔ نہ پھر درست سمت نظر آتی ہے اور نہ آگے بڑھنے کی ہمت باقی رہتی ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کر لیں۔ سوچیں کہ اب تک ہزاروں ارب روپے جو ہم سستے تندوروں‘ مفت کے لیپ ٹاپوں‘ رمضان پیکیجوں اور دیگر فضولیات پر ضائع کر چکے ہیں‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں لگائے ہوتے تو نسلیں تیار ہوتیں۔ آج ہماری جامعات کی حالت یہ ہے کہ کہیں ہمارے جیسے سابق اساتذہ کو پنشن نہیں مل رہی اور کہیں تنخواہوں کے لیے کچھ نہیں‘ لیکن ساتھ ہی کلرکوں کی بھرتیاں سیاست چمکانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ڈر تو یہ ہے کہ مغرب کے ممالک کہیں ہمارے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند نہ کر دیں۔ شاید آپ کو معلوم نہیں ہوگا‘ گوش گزار کئے دیتا ہوں کہ ایک عرصہ سے ہمارے طلبہ امریکہ اور یورپ کی جامعات میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور دیگر حساس شعبوں میں داخلہ نہیں لے سکے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کچھ تلخ حقائق ہیں جو آپ سننے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ خیر چھوڑیں ان باتوں کو۔ ایک وقت تھا کہ امریکہ نے ہمارے سائنسدانوں کو ہر شعبے میں مفت تعلیم کے مواقع فراہم کیے اور ہم نے خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک میگاواٹ کا جوہری ری ایکٹر بھی تحفے میں دیا جو آج تک ہم ٹریننگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ہر شعبے میں سکالرشپ دیے جو اَب ٹرمپ کے آنے پر پوری دنیا کے لیے بند ہو گئے۔ بجائے اس کے کہ ہماری حکومتیں یورپ اور امریکہ کی جامعات سے فارغ التحصیل اعلیٰ دماغوں کو ترغیبات دے کر اپنے ادارے مضبوط کرتیں‘ ان کے لیے یہاں رہنا دشوار بنا دیا گیا۔ یہ بھی ایک طویل داستان ہے کہ کس کے ساتھ کیا گزری۔ کم از کم عزت واحترام اور حقوق ہی دے دیتے تو کچھ نے ضرور ٹِک جانا تھا۔
چین کی ایک بار پھر مثال دیتا ہوں کہ انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ کو پہلے سرکاری خرچے پراور پھر خوشحالی آئی تو متوسط اور اعلیٰ طبقات نے اپنے بچوں کو امریکی جامعات میں بھیجنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنی بیٹی کو ہارورڈ یونیوسٹی میں تعلیم دلوائی۔ دنیا بھر کے حکمران طبقات کی اولین ترجیح یہی دانش گاہ رہی ہے‘ اگرچہ اور بھی بہت سی ہیں۔ اس وقت بھی چین کے ایک لاکھ پچھتر ہزار طلبہ امریکہ میں زیر تعلیم ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ایک ہمسایہ ملک نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے‘ اس کے تین لاکھ سے زیادہ طلبہ وہاں ہیں۔ تقریباً دو سال پہلے ہمارے ملک سے صرف دس ہزار طلبہ تھے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہماری تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا پس منظر حالیہ دنوں ٹرمپ انتظامیہ کا چین کے طلبہ اور کچھ جامعات کی گردن میں صدارتی آمریت کا پھندہ تنگ کرنے کی غرض سے ایسی پالیسیاں بنانا ہے جن کا ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ایک دن اعلان ہوا کہ ہارورڈ غیر ملکی طلبہ کو داخلہ نہیں دے گی‘ کہ ویزے تو وفاقی حکومت کو ہی جاری کرنے ہوتے ہیں۔ پچیس فیصد طلبہ وہاں غیر ملکی ہیں۔ مجموعی طور پر گیارہ لاکھ طلبہ امریکی جامعات میں زیر تعلیم ہیں‘ اور ملک کو انتالیس ارب ڈالر کی ہر سال آمدنی ہوتی ہے۔ خوف انہیں یہ کھا رہا ہے کہ چین کے طلبہ واپس جا کر ماضی کی طرح اپنے ملک کی عسکری اور صنعتی استعداد کو آگے لے جائیں گے اور مسابقت کے اس دور میں امریکہ کو نقصان ہو گا۔ تعلیم کا ہتھیار تو پھر دیگر ممالک کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ کس کس کو ہم خوابِ غفلت سے جھنجھوڑ کر جگائیں کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے‘ اور جہاں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘ وہاں نمائشی سیاست پر وسائل ضائع نہ کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں