"RBC" (space) message & send to 7575

دریائوں کی واپسی

اسی صفحہ پر ایک مضمون تین جون 2022ء کو بعنوان ''ہمارا دریا واپس کرو‘‘ آپ کی نذر کیا تھا۔ اسے دریائے ستلج کو بشمول راوی اور بیاس بھارت کے حوالے کرنے کی 'دانش مندی‘ کی نوحہ خوانی ہی سمجھ لیں۔ اس سے زیادہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ آج کل ستلج اور راوی بھارت سے بے قابو ہوکر اپنی ہزاروں سالوں کی گزرگاہوں پر دہائیوں بعد‘ موجیں مارتے‘ تمام رکاوٹوں کو چیرتے واپس آ چکے ہیں۔ ہمارے ہر نوع کے قبضہ گیروں نے سوچ رکھا تھا کہ یہ دریا ہمیشہ کے لیے جلا وطن کر دیے گئے ہیں‘ اب وہ صرف اپنے بالائی حصوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں‘ کیوں نہ ان کے تاریخی راستوں پر کالونیاں اور پکی بستیاں آباد کر لی جائیں؟ کئی برسوں سے ہم دریائوں کے کناروں پر پرورش پانے والے اور ان کی لہروں اور بہائو اور ہر موسم کے ساتھ اپنا رنگ بدلنے والے نظاروں سے لطف اندوز ہونے والے بڑی بے بسی سے انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کارروائیوں کو دیکھتے رہے۔ کئی بااثر افراد نے دریائی زمینوں کے اپنے نام ملکیتی پروانے حاصل کر لیے‘ اور اکثر نے اس کی ضرورت بھی محسوس نہ کی اور طاقت کے زور پر مالک بن بیٹھے۔ جہاں جہاں سے یہ دریا کسی شہر یا بڑے قصبے کے قریب سے گزرے‘ ان کی چوڑائی ہر آنے والے دور کے ساتھ سکڑتی چلی گئی۔ بچائو بند بھی ڈھکوسلا تھے‘ کہ ان کا مقصد دریائی حد کو کم کرنا تھا۔ دریائوں کے قدرتی بہائو کے راستے کئی جگہوں پر کچے سے پکے کی طرف کر دیے گئے۔ آپ لاہور کے قریب بہتے راوی کو دیکھ لیں۔ ہم نے اس دریا کو چھپن سال پہلے دیکھا تھا۔ داتا دربار سے آگے کوئی زیادہ آبادی نہ تھی‘ اور اس وقت بند روڈ بھی موجود نہ تھی۔
چلو مان لیتے ہیں کہ اب یہ دریا بھارت کے حصے میں آ چکے ہیں مگر کبھی یہ بھی سوچ لیا ہوتا کہ اپنے ملک میں بارشوں‘ سیلابوں اور بھارت میں معمول سے زیادہ پانی‘ ذخیروں سے نکل آنے کی صورت میں کیا ہو گا؟ دریا کی قدرتی گزرگاہ کھلی رکھی جائے۔ اگر باصلاحیت حکمران کچھ ہمارے حصے میں بھی آتے جنہیں دریائوں کی تاریخ اور ان سے جڑی انسانی تہذیبوں اور قومی شناخت سے کچھ آگاہی ہوتی تو دریائوں کے بہائو کو مقدس امانت سمجھ کر ان کی حفا ظت کی جاتی۔ ظلم اور جہالت کی انتہا دیکھیں کہ ہماری سرزمین کی تہذیبی شناخت وادیٔ سندھ سے ہے‘ جس میں ہمارے تمام صوبے‘ گلگت بلتستان اور کشمیر بھی شامل ہیں‘ مگر ہم نے شہروں‘ کارخانوں اور ہر قریبی آبادی کی گندگی کو ان میں ڈالنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ میرے نزدیک ہر چشمہ‘ ہر نالہ‘ ہر ندی‘ ہر دریا قدرت کی طرف سے تمام مخلوق کے لیے ایک تحفہ اور ایک امانت ہے جس کا احترام ہم سب پر واجب ہے۔ ویسے تو زندگی کے ہر شعبے میں لاقانونیت اور انارکی کا ماحول ہے مگر دریائوں اور ندی نالوں کے ساتھ ہم نے جو سلوک کیا ہے اور جو ان کی بے قدری کی ہے‘ اب ایسا لگتا ہے کہ قدرت اور قدرت کی یہ عظیم نشانیاں ہمیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یاد ہے مظفر آباد میں دریا کے عین کنارے پر ایک عالیشان ہوٹل تھا جہاں دہائیوں پہلے ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے قیام کیا تھا۔ جب 2005ء کا زلزلہ آیا تو وہ ہوٹل ٹکرے ٹکرے ہو کر دریا برد ہو گیا اور لاتعداد افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ سوات اورمالاکنڈ اور دیگر پہاڑی علاقوں میں دریائوں کے کناروں پر ہوٹلوں کے ساتھ اس مرتبہ پانیوں نے ہمیشہ کی طرح مہربانی نہیں کی کہ وہ اپنا راستہ کہیں اور بنا کر کسی دوسری جگہ سے گزر جائیں۔ وہاں ندی نالوں نے میرے خیال میں آخری وارننگ طاقتور سیاسی مالکان کو‘ جو ہر حکومت میں وزیر مشیر ہوتے ہیں‘ دے دی ہے کہ ہمارے راستوں کا کچھ خیال کرو ورنہ پھر کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دریائوں نے حکومتوں کا بہت انتظار کر لیا کہ ہماری زمینوں پر حرص وہوس کے مارے اپنے گماشتوں کا قبضہ چھڑوائیں‘ مگر تنگ آ کر انہوں نے یہ کام اب اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
مجھے ان سب لوگوں سے بہت ہمدردی ہے اور بہت دکھ ہوا ہے‘ جن کے عزیز دریائوں کی بپھری لہروں کی نذر ہو گئے‘ اور ان سے بھی جن کی فصلیں‘ گھر اور مال مویشی بہہ گئے۔ اس پر میں آپ لوگوں سے معذرت کے ساتھ گزارش کروں گا کہ ہم ان در یائوں کو موردِ الزام ٹھہرائیں اور نہ انہیں جنہوں نے ڈیم بنا کر انہیں قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی مگر ان کے بگڑے مزاج کے سامنے وہ بے بس ہو گئے۔ ویسے بھارتی ہمسایوں سے‘ خصوصاً انتہا پسندوں کی موجودہ حکومت سے کسی اچھائی کی امید رکھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم نے دریائوں اور نالوں کے ساتھ رکاوٹیں کھڑی کرکے ان کی فطری روانی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور پانیوں کو کبھی عزت نہ بخش سکے۔ ہمارے تمام فلسفی حسبِ معمول یونانیوں سے لے کر دورِ جدید تک یہ کہتے کہتے تھک چکے ہیں کہ پانیوں کو عزت صرف ان ملکوں میں ملتی ہے جہاں ووٹ کو عزت حاصل ہو‘ اور جہاں ووٹ ردی کی ٹوکری کی نذر ہو وہاں پانیوں کا بھی وہی حشر ہوتا ہے جو ہم ابھی تک کرتے آئے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ تو ہے کہ جب ووٹروں اور دریاؤں کا پانی سر سے گزر جائے تو تباہی ایک فطری عمل ہے۔ اس بارے میں ہم کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتے‘ لیکن بین السطور کو تو آپ سمجھتے ہی ہیں۔
ہماری سرزمین سات دریاؤں کی تہذیب کی وارث ہے۔ آج کل تہذیبوں‘ ریاستوں اور شہروں کی ساخت اور شناخت کے جو تاریخی اور اقتصادی مطالبے ہو رہے ہیں وہ دریاؤں اور ان کے پانیوں کے حوالے سے ہیں‘ کہ ان کا انسانی آبادیوں کو زندگی دینے اور خوشحالی وفراوانی پھیلانے میں کتنا بڑا کردار تھا۔ دریاؤں اور پانیوں کی یہ قدرتی دولت اور ان کے تاریخی بہاؤ سے ہزاروں سالوں سے بنی زرخیز مٹی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اگر کسی اور ملک کے پاس ہوتی تو وہاں بڑی بڑی فصلیں ہوتیں‘ ان سے نہریں نکلتیں جو چولستان‘ تھر پارکر‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع کو سیراب کرتیں۔ دریا اور ان کے پانی زحمت کے بجائے رحمت بنا دیے جاتے۔ کون سا ہمارا قومی مسئلہ ہے جس پر مختلف گروہ اور دھڑے اپنی سیاسی‘ کاروباری اور غیر سیاسی تنظیمیں بنا کر سیاست نہیں کرتے؟ کہتے ہیں قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے‘ اچھی بات ہے کہ ایسا ہی ہو‘ مگر پھر نصف صدی گزرنے کے بعد ایسا کیوں نہ ہوا؟ قومی اتفاقِ رائے بھی ایک سیاسی مفروضے کی غرض سے استعمال کرتے ہیں۔ دراصل یہ حکمران طبقات میں سیاسی لین دین اور ان کے درمیان معاہدے ہوتے ہیں۔ قوم کو تو اس وقت پتا چلتا ہے جب کوئی آئینی ترمیم آ چکی ہوتی ہے۔ کتنا اچھا لگتا ہے وہ تصویر دیکھ کر جس میں ستلج کے کنارے صدیوں سے آباد قبائل نے اسے اصل رنگ میں واپس آنے پرسواگت کے طور پر گلاب کی پتیاں اس کی لہروں پر نچھاور کیں۔ کاش یہ ہمیشہ اس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے بہتے رہتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں