"RBC" (space) message & send to 7575

آنکھیں کھلی نہ رہیں

سنا ہے‘ پڑھا ہے اور دنیا میں گھوم پھر کر بہت کچھ دیکھا ہے کہ جب کسی معاشرے میں بااختیار‘ طاقتور اور حکمران طبقات کے دل مردہ ہو جائیں تو آنکھوں کے سامنے سے صداقت اور سچائی غائب ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ جو غریب طبقے کی لوٹ مار کو روا رکھتے ہوں اور اپنی آسائش اور اپنی نسلوں کے معاشی تحفظ اور اقتدار میں ہمیشہ رہنے کو ہی اپنا مقصدِ حیات بنا لیں‘ انہیں سوائے طاقت اور زر ودولت کے کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ تو دنیا ہی اپنی الگ کر لیتے ہیں۔ ان کے رہنے کی جگہیں‘ شفا خانے‘ تعلیمی ادارے‘ ممتاز اور مخصوص کلب اور طرزِ زندگی کے ساتھ خواب بھی اپنے معاشرے اور عوام سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ اکثر تیسری دنیا کے ممالک سے‘ جہاں عدم مساوات‘ حکمرانوں کی کھلی کرپشن اور دیگر دھاندلیوں نے غریب اور امیر کے درمیان ایک وسیع حدِ فاصل قائم کر رکھی ہے‘ وہاں صرف طاقت کے زور ہی پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ ایک عرصہ بلکہ اب تو پوری زندگی ہی کچھ سماجی اور سیاسی امور کو سمجھنے میں کھپا دی ہے‘ مگر ابھی تک ہم انسانی ذہن میں ہر دم پیدا ہونے والی حرص اور ہوس کی کیفیت کا ادراک نہیں کر سکے۔ ایک بات تو ضرور دیکھی ہے کہ ایک مخصوص مدت کے بعد عالیشان محلات‘ تاج شاہی‘ بڑے بڑے درباروں اور سب ظاہری کروفر کو خاک میں ملتے دیکھا ہے۔ اب گزشتہ صدی کی تاریخ سے کتنی مثالیں آپ کے سامنے رکھوں؟ بات تو جو گزشتہ دو دنوں میں نیپال میں ہوا ہے اس کی کرنا چاہتا ہوں‘ مگر ایران کے آخری پہلوی بادشاہ رضا شاہ کے عبرتناک انجام کی طرف اشارہ کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ ''آریا مہر‘‘ کا لقب اپنے آپ کو دیا اور ایران کی تاریخ کا سب سے بڑا جشنِ تاج پوشی منایا‘ جس پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوئے اور دنیا بھر سے سربراہانِ مملکت نے شرکت کی۔ جو اپنے عروج کی علامت خیال کی‘ وہی اس کے زوال کی ابتدا بھی تھی۔ صرف دس سال کے بعد اس کا تختہ عوامی انقلاب نے الٹ ڈالا۔
نیپال‘ ہمالیہ کے بلند ترین پہاڑوں کی سرزمین‘ جہاں غریب کسان‘ مزدور اور نوجوان کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں‘ وہاں کی اشرافیہ اور سیاسی خاندان‘ جو گزشتہ کئی صدیوں سے نسل در نسل گدی نشینی سے فیضیاب ہو رہے تھے‘ صرف دو دن کے اندر نوجوانوں کی اس نسل نے‘ جو جدید میڈیا کے دور میں گزشتہ صدی کے آخر اور نئی صدی کے پہلے سالوں سے اب تک پیدا ہو کر جوان ہو رہی ہے‘ دیکھتے ہی دیکھتے حکومتی اداروں کو تباہ اور مفلوج کر کے رکھ دیا۔ احتجاج اس بات پر شروع کیا کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی تھی۔ آپس کی بات ہے‘ جہاں بھی ایسی کوئی پابندی لگائی جاتی ہے‘ اس کا مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے اٹھنے والی ہر تنقیدی سوچ کے دریچے بند کر دیے جائیں۔ جب حکمرانوں کی کرپشن‘ اقربا پروری‘ بدعنوانی‘ عدم احتساب‘ بے روزگاری اور غربت جیسے مسائل عوام سوشل میڈیا پر اٹھاتے ہیں تو ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ احتجاجوں کو قابو میں رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال حکمران بھرپور انداز میں کرنا روا سمجھتے ہیں۔ سینکڑوں جانیں چلی جائیں تو حالات کو معمول پر لا کر چین کی بانسری کا اگلا راگ آرام سے الاپا جا سکتا ہے۔ ایسا ہر جگہ ہوتا ہے‘ لیکن جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو نیپال کے حکومتی مرکز اور سب سے بڑے شہر کٹھمنڈو میں ہوا۔ نوجوانوں کے بپھرے ٹولوں نے پارلیمان اور سپریم کورٹ کی عمارتوں کو آگ لگا دی‘ یعنی طاقت کے دو ستونوں کو! اور پھر ان عمارات کو جہاں وزیراعظم‘ وزرا اور اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کے دفاتر تھے۔
عوامی غیظ وغضب کی آگ کے شعلے‘ جو نچلی سطح سے بے روزگار نوجوانوں کی قیادت اور یلغار میں اٹھے ہیں‘ ان کے پھیلنے میں کوئی دیر ہم نے نہیں دیکھی۔ نیپال میں ان شعلوں نے سابق وزرائے اعظم‘ موجودہ اور سابق وزرا اور سیاسی رہنماؤں کے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہاں دو دن کے اندر وہی منظر تھا جیسے افغانستان کے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی ہیلی کاپٹر یا کسی چھوٹے جہاز میں جان اور سرمایہ بچا کر بھاگ گئے تھے‘ اور جس طرح بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد بھارت کوچ کر گئی تھیں۔ کٹھمنڈو میں فوجی ہیلی کاپٹروں نے وزیروں اور سرکاری افسروں کو محفوظ جگہوں پر پہنچایا اور وزیراعظم کے پی شرما‘ وہی جو پانچویں دفعہ اس عہدے پر براجمان ہوئے تھے‘ سنا ہے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ نیپالی فوج نے کرفیو لگا کر حالات کو قابو کرنے کی کوشش کی ہے اور ابھی تک وہ سیاستدانوں کو بلا رہے ہیں کہ مل کر کوئی حل نکالیں۔ اس سے قبل اس ملک نے ایک خوفناک ماؤ نواز تشدد پسند تحریک تقریباً ایک دہائی تک دیکھی تھی‘ اور یہ اس کی کامیابی تھی کہ 2008ء میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور یہ پہلی بار ریپبلک بنا۔ کمیونسٹ پارٹی اور نیپالی کانگریس کی یہ اتحادی حکومت تھی‘ جو لگتا نہیں کہ دوبارہ اقتدار میں آ سکے گی۔
تین سال قبل سری لنکا میں بھی کئی سالوں سے نفرت اور غصے کے آتش فشاں کا سیاسی لاوا ابلنے لگا اور صدر گوتابایا راجاپکسا کی حکومت کو اپنی آگ کے شعلوں میں بھسم کر گیا۔ یہ بھی حسینہ واجد اور نیپال کے اولی کی طرح موروثی سیاستدان تھے اور اُس تحریک کے سرخیل بھی نوجوان تھے۔
ایک عرصے سے بلکہ پوری پیشہ ورانہ زندگی میں یہ درویش جاگیرداروں‘ گدی نشینوں‘ قبائلیوں اور دیگر حکمرانوں اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کے بارے میں کچھ کہتا اور لکھتا رہا ہے۔ زیادہ تر تو ان مکانوں‘ کتابوں اور کاغذوں کے ابواب میں دفن ہے جو ہم بھی لکھ کر بھول گئے۔ جس طرح فطرت کے کچھ اٹل اصول ہیں اسی طرح سماجی اور سیاسی علوم کے ماہرین نے بھی تاریخ کی گہرائیوں اور بدلتے معاشروں کے رویوں کی چھان بین کر کے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔ جہاں کہیں عوام کی مرضی کے خلاف جبر کی حکومت قائم ہو گی‘ کرپشن زوروں پر ہو گی‘ دھڑے بنیں گے‘ اقربا پروری‘ موروثیت اور دولت کا ناجائز ارتکاز سیاسی حکمرانوں کے تسلط میں ہو گا‘ وہاں سیاست بازوں‘ حکومتوں اور اداروں کے خلاف عوامی جذبات ایک نہ ایک دن ضرور بھڑکیں گے۔ نئی نسل اور اس کے ہاتھوں میں جدید ذرائع ابلاغ کی ٹیکنالوجی اور عالمگیریت کے سماجی و نفسیاتی ماحول نے مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ نوجوانوں کا بظاہر سیاسی نظام اور موروثی سیاسی خاندانوں پر اعتماد کمزور ترین سطح پر آ چکا ہے‘ جس کو لیپ ٹاپوں کی لیپا پوتی سے کبھی بحال نہیں کیا جا سکتا۔
نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا میں جو باتیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں وہ تھیں حکمران طبقات اور ان کے خاندانوں‘ خصوصاً بچوں کے رہن سہن کا معیار اور دوسری طرف عام نوجوانوں کی جدوجہد بھری زندگی کے دکھ۔ نیپال میں ایک تصویر نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ ایک وزیر کا برخوردار دستی بیگوں کی اس مشہور کمپنی اور قیمتی گھڑی کے ڈبوں کے ساتھ دکھائی دیتا ہے‘ جو ہماری ایک سابق وزیر خارجہ ہاتھ میں لے کر دوسرے ملکوں کے دوروں پر لہراتی نظر آئی تھیں۔ وہاں کے صحافی افسانے لکھتے رہے‘ اپنے حالات کے بارے میں بہت کچھ کہہ اور لکھ چکے۔ اب ہمارے پاؤں‘ ہاتھ اور قلم تھک چکے ہیں۔ سب کی سلامتی کی دعا ہے‘ مگر سیاسی سیلاب کا کوئی موسم نہیں ہوتا۔ خدا خیر کرے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں