ویسے تضادات کسی معاشرے میں نہ ہوں تو وہ انسانی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ جنگلوں‘ دریائوں اور صحرائوں میں بھی تضادات بقا کی جنگ کی صورت فطری رویوں میں نظر آتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر تضاد کو اس کی سرشت میں رکھ دیا گیا ہے۔ دوسروں کا تو معلوم نہیں‘ یہ درویش خود اپنے اندر ہمہ وقت دوطرح کی لڑائیوں کو سمندر کی موجوں کی طرح اٹھتے اور دھڑام سے گرتے محسوس کرتا ہے۔ اندر کی دنیا کے راز کچھ اور ہیں‘ اور ان کا عملی میدان بھی بہت مختلف ہے‘ ہم جیسے جس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ ہم تو باہر کی دنیا‘ سیاست اور معاشرت سے واجبی سی آگاہی کا بھی دعویٰ نہیں کر سکتے‘ مگر کچھ چیزیں تو ہر ایک کو دکھائی دیتی ہیں۔ صرف وطنِ عزیز میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں۔ ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جب تک انسان ہیں اور ان کی معاشرت ہے تو مفادات کا ٹکرائو‘ نظریات کا اختلاف‘ نسلی اور مذہبی تقسیم کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہر ملک اور ہر خطے میں ہر نئے آنے والے دور میں صرف تضادات کی نوعیت اور باہمی طور پر متحارب گروہ اور شخصیات ہی بدلی ہیں‘ مگر کشمکش کا بازار ہمیشہ گرم رہا ہے۔ آج کل امریکہ میں ایک پرانا تضاد نئے رنگ میں ابھر آیا ہے اور وہ ہے لبرلز اور قدامت یا روایت پسندوں کے مابین ٹکرائو‘ جس میں مذہبی رنگ موجودہ دور میں نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی تضاد سے ایک طرف مذہبی قومیت پرستی نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف ان کے مخالف وہ قوتیں ہیں جو رواداری‘ مساوات اور انسانی ہم آہنگی کی بات کرتی نظر آ رہی ہیں۔ سیاسی نظام ہمیشہ کے لیے ان تضادات یا مفادات کے ٹکرائو کو ختم کرنے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے دردکی شدت کو مدھم رکھنے اور وقتی طور پر اس میں افاقہ کرنے میں ایک کردار ادا کرتا ہے۔ نظام ایک بڑی چھت کا تصور ہے جس کے نیچے سب اپنی سیاست اور نظریات کی دکانیں سجا کر اپنا سودا پُرامن ماحول میں بیچ سکتے ہیں۔ اور سب برابر کی بنیاد پر اور ایک ہی قانون اور آئین کے تابع ہیں۔
تکرار کے لیے معذرت خواہ ہوں کہ کوئی بھی ریاست آج تک اپنے تضادات ختم نہیں کر پائی۔ ریاستوں کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ مفادات کے ٹکرائو اور تضادات کو اپنی اپنی حد میں رکھ کر پُرامن حل کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ آج کے دور میں اس لحاظ سے دو اقسام کی ریاستیں ہیں۔ کوئی فرد یا گروہ پُرتشدد انداز میں دخل انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے‘ ریاست اسے ذمہ دار ٹھہرا کر سزا دیتی ہے۔ لیکن جدید ریاستیں صرف قانونی یا ریاستی طاقت کا استعمال نہیں کرتیں‘ وہ صرف اس وقت ایسا کرتی ہیں جب ایسا کرنا ناگزیر ہو جائے۔ وہ تعلیم‘ سماجی ترقی‘ انصاف کی بروقت فراہمی‘ نئی ایجادات اور خوشحالی لاتی ہیں تاکہ فرد اور معاشرے مطمئن رہیں اور ترقی کی برکات سے مستفید ہوکر وفادار اور پُرامن شہری بنے رہیں۔ دوسری طرف وہ ریاستیں ہیں‘ جو جبر اور طاقت کا استعمال کرتی ہیں اور ایسا کرتے کرتے اس کی افادیت سے بھی ایک دن ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک عرصہ سے تضادات بڑھتے ہوئے مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ قوموں کی قسمت کے ستارے آسمان نہیں‘ زمین پر ہوتے ہیں‘ اسی لیے ذمہ دار بھی زمینی مخلوق کا وہ بالا طبقہ ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ کون سے سیاسی خاندان اور ان کی کون سی نسل ایوانوں میں دندناتی پھرتی ہے۔ اکثر آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ الزام دوسروں پر ہی دھرا ہے اور وہ کیمروں کے سامنے کبھی نفیس اور کبھی کھردرے انداز میں اپنی معصومیت کی کہانیاں سناتے‘ پاکیزگی کی پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ اب یہاں کون کون سی بات آپ کے سامنے رکھوں کہ تیسری دنیا کے ہم جیسے ممالک میں قانون‘ آئین اور انتخابی ادارے‘ سب کچھ طاقتور سیاسی خاندان اپنے تصرف میں لانے کا فن خوب جانتے ہیں اور اس فعالیت میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ایسے میں ریاستوں کی حکمرانی کی صلاحیت‘ خاص طور پر وہ اخلاقی اور قانونی حیثیت‘ جسے وہ استعمال میں لا کر معاشرے کے تضادات کو ایک حد سے آگے جانے نہیں دیتے‘ کمزور ہو جاتی ہے۔ سیاسی کشمکش قانونِ قدرت کے مطابق آتش فشاں پھوڑنے اور ہر طرف آگ پھیلانے کی سکت رکھتی ہے‘ جسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ چلیں چھوڑیں‘ یہ تو خطے کے دیگر کچھ ممالک میں گزشتہ ایک دو سال میں ہو چکا ہے‘ اور اگر ہمارے سیاسی حکمران سب اچھا ہے کا پرانا راگ الاپتے رہتے ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہم تو ہیں ہی تماش بین‘ اور تماشا دیکھنے کے لیے اب بھی بہت کچھ نظر آتا رہتا ہے۔
مگر دکھ تو ہوتا ہے کہ ہمارا اتنا بڑا ملک ہے‘ کم از کم آبادی کے لحاظ سے‘ ہمارے ہاں قدرتی وسائل کی کمی نہیں‘ اور نہ ہی انسانی صلاحیتوں کی‘ مگر ہم خود اپنے لیے اور دنیا کے سامنے تماشا بنے رہیں۔ اصل میں مسئلہ انسانی نقطہ نظر کا ہے کہ ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں اور کیا نہیں‘ اس لیے ایک ہی معاشرتی حقیقت مختلف عینکوں سے مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے۔ سب ٹھیک ہے‘ کہنے اور سوچنے والوں کی یہاں کمی ہے اور نہ ہی ان کی جو طوفانوں کو دور سے آتا دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کل پرسوں جو بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں ہماری افواج کے جوانوں کی شہادتیں ہوئی ہیں‘ دل بہت رنجیدہ ہے۔ ایسی قربانیاں نہ جانے ہم کب سے دے رہے ہیں اور فخر ہے کہ جوش اور ولولے میں کبھی کمی نہیں آئے گی۔
ہمیں دہشت گرد گروہوں کا سامنا ایک عرصے سے ہے اور یہ گروہ مذہبی اور لسانی انتہا پسندی کے نظریات اور بیرونی طاقتوں کی شہ اور وسائل کے سہارے قومی امن اور یکجہتی اور ہم سب کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہیں۔ ایسے تضادات کو ختم کرنے کے لیے جہاں ریاست کی طاقت ناگزیر ہے وہاں سیاسی ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بوجوہ ہماری اجتماعی سیاسی صلاحیتیں کمزور ہوئی ہیں۔ معیشت ساختی نوعیت کے مسائل کا شکار ہے اور سماجی رویوں میں اخلاقیات تو کب کی رخصت ہو چکیں۔ اب انارکی سرائیت کر چکی ہے۔ ہر نوع کے پیشہ ور منظم گروہ بازار سے لے کر کئی دیگر شعبوں تک‘ لاقانونیت کے ہتھیار کو کسی زمانے کی پنجابی فلموں کے ولنوں کی طرح جتھے بنا کر استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی تقسیم اور اس سے پیدا ہونے والی سیاسی کشمکش نے حکومتی اداروں کو بہت کمزور اور قانون کی طاقت کو زوال پذیر کیا ہے۔ ہم آج قومی مسائل کے انبار پر کھڑے ہیں اور ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ان کے حل کے لیے کون سے بندے کو پکڑیں‘ کہاں سے شروع کریں۔ یہ بھی تو سوچنا مشکل نہیں کہ دیگر قوموں نے مشکل ترین حالات میں اپنے لیے کیا چارہ جوئی کی۔ کیسے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئیں اور آخر کھلے دل سے اپنا تجزیہ کرنے میں کیا حرج ہے کہ ہم کیوں اس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ڈر تو یہ ہے کہ ہم اکٹھے بیٹھنے‘ ایک دوسرے کی بات سننے‘ برداشت کرنے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اپنا حال اور مستقبل بہتر کرنے کی صلاحیت کہیں اس قدر تحلیل نہ کر لیں کہ جنوبی پنجاب کی سیلابی کیفیت کی طرح سیاسی دریاؤں کا ایسا سنگم نہ بن جائے کہ پانی سب کے سر سے گزر جائے۔ تضادات فطری ہیں۔ ہماری سیاسی آزادیوں کا عکس۔ مگر یہ ہنر بھی تو سیکھنا ہوگا کہ انہیں پُرامن طور پر حل کرنے کی صلاحیت کیسے پیدا ہو۔ ہم زمینی لوگ اپنے مقتدر طبقات‘ موروثی خاندانوں اور نئی نسل کے نمائندوں سے درخواست ہی کر سکتے ہیں کہ سیاسی لڑائیوں میں سب کو ہار اور بقائے باہمی میں سب کو فلاح نصیب ہوتی ہے۔