"RBC" (space) message & send to 7575

ممدی کے کمبل

نام تو اس کا محمد بخش تھا مگر ہمارے سرائیکی وسیب میں ناموں کو مختصر کرنے کی روایت کے مطابق لوگ اسے محمدی کہتے تھے‘ جو بولنے میں ممدی بن گیا تھا۔ بچپن میں ہی اپنے چند گھروں پر مشتمل گاؤں میں اسے ہر روز‘ صبح سے لے کر شام تک اونی کمبل اپنی دستی کھڈی پر بُنتے دیکھا کرتا تھا۔ گاؤں کے دیگر لوگوں کا پیشہ زراعت اور گلہ بانی تھا۔ زرد‘ سفید اور دیگر رنگوں میں بُنے کمبلوں کے شوقین دور دور سے اسے آرڈر دیتے تھے اور اس کا کام پورا سال جاری رہتا تھا۔ اس علاقے میں بھیڑیں پالنے کا رواج آج بھی ہے‘ مگر جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت تعداد کئی گنا زیادہ تھی کیونکہ ہر طرف جنگلات تھے اور دریا پر بھی کوئی بند نہیں تھا۔ سیلابی پانی دور دور تک پھیل جاتا تو بارشیں ختم ہوتے ہی قدرتی چراگاہیں ہری بھری ہو جاتیں۔ ہزاروں کی تعداد میں دیگر جانوروں کے ساتھ بھیڑیں چرنے کا نقشہ آج بھی ذہن میں ایک نمایاں تصویر کی صورت عکس پذیر ہے‘ اور کسی افریقی قدرتی جنگل کا خیال دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔ اس علاقے میں ہماری بستی سے کچھ دور ایک اور آدمی (جس کا نام یاد نہیں) کمبل بناتا تھا اور محمدی اس کے شاگردوں میں سے تھا۔ جب تک اس کے ہاتھوں میں سکت تھی‘ وہ یہ کام کرتا رہا۔ اب وہ بوڑھا ہو گیا اور اس کی کھڈی نجانے کیڑوں کی خوراک بنی یا اس کی لکڑیاں غالباً گاؤں والوں نے کسی دن کھانا پکانے کے لیے آگ میں جلا ڈالیں۔ اس سے پہلے اس کا استاد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا۔ اس کے بعد محمدی‘ اور پھر کسی نے کوئی کمبل بُنتی ہوئی کھڈی نہ دیکھی۔ دو کاریگر چلے گئے تو ان کا ہنر بھی ان کے ساتھ دفن ہو گیا۔
ہمارے دیہات کی معیشت آج سے نصف صدی پہلے تک باہمی انحصار‘ خود کفالت اور ہر ضرورت کی چیز کی مقامی سطح پر تیاری کی بنیاد پر تھی۔ ہماری چھوٹی چھوٹی بستیوں کا سلسلہ خاندانی آبادیوں پر تھا‘ مگر نزدیک ہی کچھ فاصلے پر ایک قصبہ نما گاؤں تھا‘ جس میں سنار‘ موچی‘ ترکھان‘ تیلی‘ لوہار‘ جولاہے‘ بڑھئی اور مٹی کے برتن بنانے والے کمہار ہوا کرتے تھے۔ ان کے پیشے نسل در نسل چلتے۔ جو بھی بچہ کوئی اوزار پکڑ کر کام کرنے کے لائق ہوتا‘ والد‘ چچا یا ماموں اسے اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔ پنجاب کے تمام علاقوں میں ہنرمند کاریگر سماج کا لازمی جزو تھے۔ یہ نظام اجرت اور ادائیگی کے لیے فصل برداری پر مبنی تھا۔ یہ کاریگر جن میں کشتیوں کے ملاح اور دیگیں پکانے والے بھی شامل تھے‘ چاول اور گندم یا کسی اور اجناس کے لیے آتے۔ محمدی جیسے کاریگر ہر کمبل کی اجرت البتہ نقد صورت میں وصول کیا کرتے تھے۔ اگر نقد نہ ہوتا تو اس کے برابر کوئی جنس لے لیتے۔ اجناس کی قدر ہوا کرتی تھی اور نقد کے متبادل بازار میں لائی جاتی۔ ہمارے علاقوں میں آج بھی دیہاتی جن کے پاس نقد نہیں ہوتا‘ کوئی جنس ساتھ لاتے ہیں اور اس کے بدلے سودا سلف خرید لیتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ تقریباً تمام نوع کے کاریگر‘ کچھ استثنا کے ساتھ‘ اپنا علم اور ہنر زیرِ زمین کیوں لے گئے؟ محمدی کا ایک بیٹا اور اس کی حادثاتی موت کے بعد ایک پوتا بھی تھا‘ مگر وہ اپنا فن ان میں سے کسی ایک کو بھی منتقل نہ کر سکا۔ اس کا پوتا تو دربدر ٹھوکریں کھاتا رہا اور کسمپرسی کی زندگی گزارتے کسی مہلک بیماری سے دوچار رہا۔
اپنے زمانے کے کئی دستکاروں کو جانتا ہوں جو نہ تو اپنے کام میں کوئی جدت پیدا کر سکے‘ نہ اسے پھیلایا اور نہ ہی کوئی ہنر قدآور بنایا‘ جہاں کاریگروں کی اگلی نسل پیدا ہو سکتی۔ اس کی بنیادی وجہ میرے خیال میں سماج ہے۔ ہمارا جاگیرداری کا معاشرہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے والوں کو کچھ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ اگر ایسا تھا تو اس حد تک کہ وہ بہت اچھا جوتا بناتا ہے‘ اچھی حجامت کرتا ہے‘ لکڑی یا برتنوں کا اچھا کام کرتا ہے۔ معاشرتی درجہ بندی میں یہ سب کمی کسبی ذاتوں یا برادریوں میں شمار ہوتے‘ جو بالکل نچلی سطح کی خیال کی جاتی تھیں۔ ان کی اگلی نسلیں اس کمتر سماجی حیثیت اور گزارے کی حالت سے نکلنے کے لیے تعلیم حاصل کرنے لگیں اور سرکاری شعبوں اور تجارت سے وابستہ ہو گئیں۔ ان میں سے کسی کو اپنے آبائی پیشوں کو جدید خطوط پر استوار کر کے چھوٹے کارخانے یا دستکاریوں کے مراکز قائم کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اصل مسئلہ نچلے درجے کی سماجی حیثیت کا تھا‘ جو ان پیشوں سے وابستہ ہو چکی۔ آج تک ہمارا سماج اس مصنوعیت‘ عدم مساوات اور احساسِ کمتری یا برتری سے نہیں نکل پایا۔ جاگیرداری اور قبائلی معاشروں کی خاص بات جو انہیں جدید صنعتی معاشروں سے الگ رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا باپ کیا کام کرتا تھا‘ نہ کہ آپ اپنی محنت سے کس مقام پر پہنچے ہیں۔ ایک اور بات بھی وہ پیشہ قائم نہ رہنے کی وجوہات میں شامل کر لیں: وہ یہ کہ کاریگر خاندان بے زمین تھے اور زرعی معاشروں میں کسی کی سماجی حیثیت اور مقام کا تعین زمین کی ملکیت سے ہوتا ہے۔ انگریزوں نے بھی نہری نظام کا جال بچھاتے ہوئے زمینیں صرف کاشتکار برادریوں اور قبائلی سرداروں میں تقسیم کیں کہ وہ بھی اس علاقے کے پرانے سماجی درجہ بندی کے نظام میں براہِ راست مداخلت نہیں کرنا چاہتے تھے۔
البتہ انگریزوں نے تعلیم کے دروازے سب پر کھولے تو پھر ہر سطح اور برادری کے لوگ اپنی محنت سے جدید ریاست اور اس سے جڑی معیشت سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ ایک اور تبدیلی صنعتوں کے قیام کے ساتھ شہروں اور دیہات کے ایک نئے لین دین کے نظام کی صورت میں سامنے آئی۔ بدقسمتی سے ہمارے دیہات جو بڑی حد تک خودکفیل تھے‘ اب مصنوعات اور ضرورت کی چیزوں کے لیے شہروں کے محتاج ہو گئے۔ دیہاتی ترقی میں تعلیم‘ صحت‘ مواصلات اور امن وسلامتی کے ساتھ دستکاریوں اور چھوٹی صنعتوں پر توجہ مرکوز ہوتی تو آج کروڑوں کی تعداد میں نوجوان بے روزگار نہ ہوتے۔ پرانی سماجی درجہ بندی کا اب تک کتنا گہرا اثر ہے کہ کوئی پڑھا لکھا نوجوان اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ کوئی ہنر سیکھنے کے لیے۔ تعلیم حاصل کرنے کا وہ ایک ہی مقصد جانتے ہیں کہ وہ کہیں سرکاری دفتر میں اگر افسر نہیں تو کلرک بن کر کرسی پر بیٹھے رہیں اور مہینے کے آخر میں معقول تنخواہ وصول کریں۔
اکثر نوجوان دیہات میں نوکریوں کے لیے سفارش کی درخواست اس درویش کو اس مغالطے میں کرتے ہیں کہ کہیں کسی کو کہنے سے ان کا کام ہو جائے گا۔ انہیں کیا خبر‘ ہم تو طاقت کے سرچشموں سے بہت دور سماجی صحرا میں زندگی گزارتے ہیں۔ میرا مشورہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے اور بالکل نیک نیتی پر‘ کہ کوئی ہنر سیکھ لیں۔ اگر تعلیم کم ہے اور کسی کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں تو مقامی وسائل کے اعتبار سے کوئی پیداوار بازار میں لے آئیں۔ جدیدیت اور صنعتی معیشت کا جبر یہ ہے کہ ہمارا نوجوان اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اگر نہیں تو عاجزی‘ بے کاری‘ بے روزگاری اور کاسہ لیسی ہی مقدر ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں