"RBC" (space) message & send to 7575

بابوں کی حالتِ زار

بابے وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو زندگی کی بہاریں دیکھتے دیکھتے ابھی تک نہیں تھکے اور بہاروں کے رنگوں میں مزید کئی سال گزارنے کی امید کے ساتھ زندہ ہیں۔ اس درویش کو لاہور کی ایک تاریخی جامعہ نے بابوں کی زندگی کے بارے میں ایک کانفرنس میں گزشتہ ہفتے مدعو کیا تو ایسا لگا کہ بچپن کے ایک میلے میں کھنچا جا رہا ہوں۔ ویسے تو پوری دنیا میں عمر رسیدہ لوگوں کی اہمیت متروک گھریلو اشیا سے کچھ زیادہ نہیں مگر وطنِ عزیز میں جو مشاہدے میں ایک طویل عرصہ سے رہا ہے‘ ہر جگہ شہروں اور دیہات میں یہ سب کچھ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کے بارے میں جب یہاں ہمارے سماجی حلقوں میں گفتگو ہوتی ہے تو اکثر لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہاں بابوں کو بچے اولڈ ہومز میں پھینک کر اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسی باتیں اکثر مغربی سماج کے بارے میں لاعلمی اور اپنے بارے میں بہت خوش فہمی کی بنیاد پر کہی جاتی ہیں۔ پہلے ہم وہاں کی بات کر لیتے ہیں تاکہ آپ کو کچھ اندازہ ہو جائے کہ ہمارا عمر رسیدہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ کیسا سلوک ہے۔ وہاں کا ریاستی نظام قانون‘ احترامِ آدمیت‘ کم از کم اپنے شہریوں کے لیے‘ اور سماجی انصاف کے اصولوں سے مرتب ہے۔ اکثر یورپی ممالک میں ذاتی وسائل کم ہوں تو پیدائش سے لے کر قبر تک معاشی وسائل ضرورت مندوں کو فراہم ہوتے ہیں۔ بوڑھوں کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ اولین اس میں معاشرتی زندگی میں شمولیت‘ معاشی ضروریات کا بندوبست اور لمبی عمر جینے کے ساتھ جو بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ان کے لیے صحت کی سہولتیں اور دوائیوں کا معقول انتظام ہے۔
مغرب میں صنعتی انقلاب شہروں کی آبادیوں میں رہنے کی ضرورت اور روزگار کی تلاش میں اپنے گھر‘ قصبے اور گائوں سے نکل کر دور کہیں بسنے کی مجبوریوں نے پرانے خاندانی نظام کو تہ وبالا کر دیا ہے۔ یہ فرد کو اور کسی حد تک ریاست کو شہریوں کی آخری عمر کی دہائیوں کے بارے میں بے فکر رکھنا دانش مندی ہے۔ وہاں لوگوں کو دیکھا ہے کہ اپنے سنہری سالوں یا ملازمت کے بعد کے دور کے لیے پس انداز کرتے ہیں تاکہ بچوں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس کے ساتھ وہاں سوشل سکیورٹی کا مضبوط پروگرام ہے جو صحت‘ معاشی کفالت اور رہائش کے لیے بوقتِ ضرورت کام آتا ہے۔ وہاں بچوں کی اپنی زندگی کے بھی تقاضے ہوتے ہیں کہ جب وہ ایک علیحدہ خاندان آباد کرتے ہیں تو بچوں کی تعلیم‘ گھر اور پھر اپنے بڑھاپے کے لیے منصوبہ بندی بھی کرنا پڑتی ہے۔ ایسا نہیں کہ اگر والدین کو ضرورت پڑے اور اولاد اس قابل ہوکہ کفالت اور آرام کا بندوبست کر سکے تو وہ نہ کرے۔ وہاں پر نجی شعبے میں اولڈ ہومز اور اس سے بڑھ کر اگر بوڑھے لوگ اپنا خیال خود نہ رکھ سکیں تو ان کے لیے معاون رہائشی سہولتوں کا پورا نظام قائم ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ ان کے اخراجات ہر شخص یا خاندان کے بس کی بات نہیں۔ زیریں طبقے کے لوگ اکثر کسمپرسی میں مقامی حکومت یا شہر کی طرف سے مہیا کردہ پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر کسی نے وہاں اپنی ملازمت کے دوران کمائی سے بچت کرکے مناسب سرمایہ کاری نہیں کی‘ برے دنوں کے بارے میں نہیں سوچا اور سب کچھ فضولیات میں اُڑا دیا تو بڑھاپے کے ماہ وسال زندگی کا مشکل ترین دور ہو سکتے ہیں۔ وہاں پر ایک اور بات کہ قوانین ایسے بنائے گئے ہیں اور بوڑھوں کی انجمنیں اتنی مضبوط اور منظم ہیں کہ جمہوری ریاستیں ووٹوں کی طاقت کے پیش نظر آسانیاں پیدا کرتی رہتی ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اپنی خوش فہمیوں کی طرف کہ چونکہ ہم ایک روایتی مضبوط خاندان اور مذہبی نوعیت کا معاشرہ ہیں اس لیے بزرگوں کا یہاں خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا تجربہ کچھ زیادہ خوش کن ہو مگر میں تو اپنے سماج کو تیزی سے بدلتا دیکھ رہا ہوں۔ شہر کاری‘ معاشی نقل مکانی اور نئے کنبوں کی بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات نے بزرگ شہریوں کے لیے معاشی اور سماجی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ان کی اکثریت بے آواز ہے‘ دیہات میں مجبوری کی زندگی گزارتی ہے۔ نہ ان کی کوئی پنشن ہے‘ نہ بچت اور نہ ہی کوئی وسائل۔ پوری زندگی محنت مزدوری کی‘ کوئی کاروبار کیا یا پھر نچلے درجے کی کوئی سرکاری ملازمت۔ ان میں سب سے بہتر حالت ان کی ہے جن کی کوئی سرکاری پنشن لگی ہوئی ہے کہ معاشی انحصار انسان سے آخری عمر میں عزتِ نفس بھی چھین لیتا ہے۔ اکثریت بے وسائل دیہاتی بابے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ اولاد کی طرف دیکھتے رہتے ہیں لیکن وہ معاشی اور سماجی مسائل کی وجہ سے توجہ نہیں دے سکتے۔ کچھ کم بخت تو آنکھیں پھیر لیتے ہیں‘ ایسے کہ وہ گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلاتے۔ گھروں سے باہر نکل کر بازار‘ چوک اور چائے خانے‘ جو دیہات میں سماجی رابطے کے ذرائع ہیں‘ میں جائیں تو جیب خالی ہوتی ہے۔ کچھ تو بیچارے گھروں ہی میں پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وسائل اور آمدنی کسی طاقتور بابے کے ہاتھ میں رہے تو صرف وہی باعزت اور باسہولت زندگی گزار سکتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اولاد آخری عمر میں ان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتی ہے کہ اپنی زندگی میں زمین ہمارے درمیان بانٹ دو۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ بہنوں کو کچھ نہ ملے اور سب کچھ بیٹے ہتھیا لیں۔ ایسا ظلم اکثر ہوتے دیکھا ہے۔ بوڑھوں کی آبادی میں عورتوں کی حالت مرد بزرگ شہریوں کی نسبت کہیں زیادہ ابتر دکھائی دیتی ہے۔ کئی واقعات ایسے ذہن میں ہیں کہ سوچ کر آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ ایک قریبی دوست تھے‘ کسی زمانے میں ایک سرکاری محکمے میں افسر‘ نوکری چلی گئی‘ آخری زندگی کے کئی سال گزارہ ہی کرتے رہے۔ بہت افسردگی اور شکستہ دلی سے اکیلے میں کہا کہ میرے بیٹے نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی‘ گلا دبا رہا تھا‘ بڑی مشکل سے جان بچائی۔ اور خاتون تو ابھی زندہ ہے۔ پڑھی لکھی‘ کسی زمانے میں ملازمت پیشہ۔ فون کیا کہ آج تو بیٹے نے حد کر دی ہے‘ بہت پیٹا ہے۔ ایسے بزرگوں کی کہانیاں‘ بدتہذیبی اور جبر کی کئی تہوں میں چھپی ہوئی ہیں جو ان کے ساتھ ہی زیر زمین چلی جاتی ہیں۔
کانفرنس میں میری بات بوڑھوں کی اجتماعی بہتری کے لیے تھی کہ جہاں کہیں وہ منظم اور متحرک ہیں‘ ان کے معاشی‘ قانونی اور سماجی حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔ یہاں پر بیچارے مجبوریوں‘ معاشرتی ناانصافیوں اور گھریلو تشدد‘ جو اکثر زبانی صورت میں انہیں درپیش ہوتا ہے‘ کے پیش نظر کیا کر پائیں گے۔ حکومت نے ایک پالیسی اور کئی قوانین بوڑھی آبادی کے تحفظ کے لیے بنائے ہیں مگر ان کا نفاذ تو دور کی بات کسی کو آگاہی ہی نہیں۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی اداروں کے عمل دخل کا نتیجہ ہے‘ اپنے طور پر جو حالت ہم نے حکومتی کارکردگی اور اشرافیہ کی کارستانیوں کی دیکھی اور دیکھ رہے ہیں‘ بوڑھے اور بوڑھیاں کمزور سہاروں‘ معاشی کسمپرسی اور معاشرتی تنہائی کی حالت میں ہی زندگی گزار کر گزر جائیں گے۔ آپ خوش قسمت ہوں گے کہ آپ بزرگ ہیں‘ خودکفیل اور صحت مند ہیں‘ دوست احباب ہیں اور تنہائی میں نہیں رہتے۔ اصل معاملہ معاشرے‘ خاندان اور زیادہ قریبی رشتے داروں کی بے اعتنائی‘ بزرگوں کی جائیداد پر نظر اور ان کا سب کچھ ہتھیانے کی ہوس ہے۔ میرا بزرگوں کو ہمیشہ یہ مشورہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں‘ اپنے وسائل دوسروں کے تصرف میں نہ دیں اور اپنی عزتِ نفس کی ہر صورت نگہداری کریں۔ آپ سے بھی التماس ہے کہ کہیں بزرگ شہری ملیں تو سلام کریں‘ کوئی بات کریں‘ ان سے ملتے رہیں اوران کی دلجوئی کریں۔ انہیں دھکے دینے کا ظلم نہ کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں