"RBC" (space) message & send to 7575

جدید شعوری بیداری

ایک مرتبہ بھارت کے دورے پر جا رہا تھا کہ اس سے قبل سید بابر علی صاحب سے ملاقات ہوئی تو اس کا ضمنی ذکر بھی کر بیٹھا۔ پوچھا کہ دہلی تو جاؤ گے؟ ہمارا جواب اثبات میں تھا۔ ان سے برسہا برس کی ملاقاتوں میں پاکستان کے سیاسی مسائل‘ ملک کے مستقبل اور تعلیم جیسے موضوعات سرفہرست ہوتے۔ فرمایا: دہلی میں مشکند دوبے کو تلاش کرکے ان سے ملاقات ضرور کرنا۔ ہماری چھوٹی چھوٹی آرزؤں میں اہلِ فکر اور اہلِ علم کی صحبت میں کچھ لمحے گزارنے کی خواہش ہمیشہ دل میں موجزن رہتی ہے۔ دہلی میں محترم دوبے کو تلاش کرنا کوئی مشکل نہ تھا۔ بھارت کے سیکرٹری خارجہ رہ چکے تھے اور حکومت میں انہوں نے کئی اہم عہدوں پر فرائض سرانجام دیے تھے۔ اب وہ ریٹائر ہو چکے تھے اور بچوں کی تعلیم اور تعلیمی نظام اور سماجی تبدیلیوں کے سلسلے میں اپنے ملک کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست بہار میں غیر حکومتی شعبے سے وابستہ تھے۔ ہماری پہلی کال پر ہی انہوں نے اگلے روز اپنے دفتر میں وقت دیا اور کافی دیر تک وہ اپنے کام کے بارے میں بتاتے رہے۔ میں ایک طالب علم کی طرح خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ کبھی کبھار پاکستان کے بارے میں بھی اس درویش سے استفسار کر لیتے۔ ان کی باتوں کا موضوع غریب افراد کے بچوں کی تعلیم تھا۔ اپنی ایک الماری سے ایک ضخیم رپورٹ نکالی جو انہوں نے بہار میں تعلیم کے سوال پر تیار کی تھی‘ اور میرے حوالے کی۔ شاید یہ میں نے بعد میں کسی لائبریری کو دے دی تھی۔ تعلیم کے حوالے سے انہوں نے فخریہ اور پُرجوش انداز میں بھارت کے حوالے سے کہا کہ یہاں غریب سے غریب والدین کی بھی خواہش ہے کہ ان کے بچے سکولوں میں پڑھیں اور اچھی سے اچھی تعلیم حاصل کریں۔ اگر کہیں ایسے سماجی رویے بن جائیں تو آپ یقین کر لیں کہ سماجی تبدیلی آ چکی ہے‘ اور غربت کا خاتمہ کوئی مشکل بات نہیں رہی۔
جب اپنی مسحور کن کیفیت میں سماجی ترقی کی باتیں کرتے جا رہے تھے تو ساتھ پوچھتے بھی کہ وہاں پاکستان میں کیا صورتحال ہے؟ اپنی ناکامیوں اور بحران در بحران کا دفتر کسی باہر کے ملک میں کھولنا مناسب خیال نہ کیا۔ تاہم ان کی باتوں کو ٹالنا یا غلط بیانی سے کام لینے کا بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔ اس لیے توازن سے کچھ ایسے شعبوں کا ذکر کرتا رہا تاکہ یہ تاثر جائے کہ اگر ہم بہت آگے نہیں بڑھ سکے تو بھی اس سمت ضرور چل رہے ہیں۔ یہ خیال کرنا کہ ان جیسے علمی حیثیت اور جہاندیدہ لوگوں کو ہمارے ملک اور سماج کے بارے میں کچھ پتا نہ ہو گا‘ خود فریبی کے مترادف ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹیں ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں اب تو انگلی کے اشارے پر آپ کی سکرین پر آجاتی ہیں۔
مشکند دوبے اب گزشتہ سال سے آنجہانی ہو چکے ہیں‘ اور ان سے ملاقات تقریباً پندرہ بیس سال پہلے ہوئی تھی۔ مگر ان کی یہ بات دل پر کندہ ہے کہ جب غریب آدمی کے دل میں بیٹھ جائے کہ تعلیم اس کے بچوں کے لیے کتنی ضروری ہے تو سمجھیں کہ سماجی انقلاب کی راہیں ہموار ہو چکی ہیں۔ ہماری اپنی زندگی درس و تدریس میں گزری ہے۔ اپنی آنکھوں سے ناقابلِ یقین واقعات دیکھے ہیں۔ جامعات میں جہاں جہاں ہمیں موقع نصیب ہوا‘ ایسے پسماندہ علاقوں اور غریب گھرانوں سے بچے آئے جن کے بارے میں کسی اور زمانے اور دنیا کا گمان ہوتا تھا‘ مگر چند برسوں میں ان کی شخصیت نکھری‘ خود اعتمادی آئی‘ فکری زاویے بدلے اور پھر زندگی کی دوڑ میں وہ کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔
اپنے دل میں دوبے صاحب کی تعلیم اور سماجی تبدیلی کا فکری اشارہ سجائے ایک حسرت کے ساتھ جیتے رہے کہ اپنی زندگی میں یہ انقلاب اپنے دور دراز کے علاقے میں بھی دیکھیں گے۔ کچھ ادھر اُدھر آثار تو ظاہر ہوئے ہیں‘ مگر منزل بہت دور نظر آتی ہے۔ خوشی اور میری دلچسپی کی بات یہ ہے کہ غریب لوگوں کی ایک معقول تعداد اپنا پیٹ کاٹ کر ہر ماہ ہزاروں روپے فیس ادا کرکے اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوانے پر مُصر ہے۔ اندازہ ہے کہ اس چھوٹے سے قصبے کے تقریباً چار ہزار بچے سکولوں میں ہیں‘ جن میں سے دو ہزار نجی سکولوں میں داخل ہیں‘ جن کی تعداد سات ہے۔ ان غریبوں سے کہیں کہ آپ اپنے بچے سرکاری سکولوں میں کیوں داخل نہیں کراتے تو جواب ہر ایک سے جو سنا ہے‘ وہ گزشتہ چالیس برسوں سے سن رہے ہیں کہ وہاں کون سی پڑھائی ہوتی ہے۔ جب سے چند سیاسی گھرانوں نے جمہوریت سے انتقام لینا شروع کیا ہے‘ گویا عوام سے ہی‘ تو حکومتی اداروں کی کارکردگی بے حد متاثر ہوئی ہے۔ اس کا ادراک اب کم از کم پنجاب کی موجودہ حکومت کو بھی ہے کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ اس ذمہ داری‘ محنت اور نظم و ضبط سے کام نہیں کرتے جو ایک زمانے میں ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ غالباً ماضی کی ان تمام تجویزوں اور تدبیروں کی ناکامی کے بعد کہ سرکاری سکولوں کا نظام کس طرح بہتر کیا جائے‘ انہیں غیرحکومتی تنظیموں اور تجربہ کار معلموں اور منتظمین کے حوالے کرنا شروع کر دیا جائے۔ کاش کہ دنیا سے اور اپنے ناکام تجربوں سے کوئی سبق حاصل کرتے اور یکساں سرکاری تعلیم سب کے لیے کے فلسفے پر عمل کرتے۔
ہماری حکومتوں اور ہمیشہ سے برسراقتدار اشرافیہ نے بچوں کے بنیادی آئینی حقوق سے جس قدر اور جس ڈھٹائی سے احتراز کیا ہے‘ وہ ہمیں ناکام ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے کافی ہے۔ جہاں ہم عوام کی سطح پر تعلیم کے حوالے سے کچھ سماجی شعور دیکھتے ہیں‘ وہاں تقریباً ڈھائی کروڑ بچوں کا تعلیم کے میدان سے باہر رہنا اجتماعی بے حسی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے بھی بڑی بے حسی یہ ہے کہ حکومتوں نے‘ جن میں وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں شامل ہیں‘ معصوم بچوں کو مُلاؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے مخصوص فرقے اور سیاسی ترجیحات کے مطابق ان کی ذہن سازی کریں۔ باقی دنیا کو تو چھوڑیں کہ وہاں دینی تعلیم کن قوانین اور اخلاقی ضابطوں کی پابند ہے‘ صرف مسلم ممالک‘ ہمارے اور بنگلہ دیش کے علاوہ‘ کا بتا دیں کہ کیا وہاں مذہب کے نام پر بچوں کو راہبوں‘ بھگوانوں اور ربیوں کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! دینی تعلیم کسی بھی معاشرے میں عقیدے اور تہذیبی روایت اور قومی شناخت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے‘ مگر یہ پوری دنیا میں سرکاری اداروں میں بارہ جماعتیں یا ان کے برابر نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہوتا ہے۔
ہمارے فکری انتشار کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی کے ساتھ کئی رُخی اور باہم متصادم تعلیمی نظام ہیں۔ امیر طبقے نے جہاں اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے وہاں اپنی جداگانہ تعلیم کا بھی بندوبست کر لیا۔ غریب اپنے بڑھتے ہوئے سماجی شعور کی بدولت علم کی دوڑ میں اب پیچھے نہیں رہنا چاہتے‘ مگر جدید اور مہنگی انگریزی تعلیم نے جو حدِ فاصل قائم کردی ہے‘ اسے عبور کرنے میں نجانے وہ کتنی نسلوں تک جدوجہد کرتے رہیں کیونکہ برابری کی منزل وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی دور ہوتی جا رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں