پچھلے دو دن سے دنیا ٹی وی کی الیکشن نشریات کے حوالے سے لاہور میں ہوں ۔ رات گئے، اپنے لاہوری دوستوں انجم کاظمی اور ریاض گنب سے کہا کہ چلو یار کہیں سے لاہور کی روایتی نہاری کھلائو۔ زکریا یونیورسٹی کے دنوں کے دوست شفیق لغاری کو ساتھ لے لیا۔ رات گئے نہاری کھانے بیٹھے تو یاد آیا وقت کیسے گزر جاتا ہے۔ انسان میں کتنی لچک ہے کہ وقت گزرتے ہی کچھ یاد نہیں رہتا ۔ اگر انسان میں مشکلات اور دکھ بھلانے کی صلاحیت نہ ہوتی تو پتہ نہیں انسانوں کا کیا حشر ہوتا۔ پاگل ہی ہوجاتے۔ ان لوگوں کے ساتھ ایک لمحے کے لیے ہمدردی محسوس ہوئی جن کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے چنانچہ ساری عمر ایک عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ نہاری کا انتظار کرتے کرتے اردو کی قابلِ احترام ادیبہ قرۃ العین حیدر کا ایک فقرہ یاد آیا کہ انسان جب مشکل میں ہوتو لگتا ہے کہ پیدا ہی مشکلات میں ہوا تھا اور کبھی اچھے دن زندگی میں آئے ہی نہیں ہیں۔ جونہی وہ بُرا وقت گزرتا ہے‘ لگتا ہے کہ اس سے اچھا وقت ہی کوئی نہیں تھا۔ نہاری کھاتے یاد آیا کہ لاہور میں 1996ء میں قدم ٹکانے کی کوشش کی تھی لیکن بات نہیں بنی۔ میں اور شعیب بٹھل مختلف انگریزی اخباروں میں ایڈیٹروں کی سفارشیں ڈھونڈتے رہتے تھے۔ اخبارات میں انٹرویو دیتے اور ٹکا سا جواب ملنے کے بعد رات گئے لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں لیّہ کے دوست رشید سواگ کے کمرے میں جا کر پڑائو کرتے۔ رشید سواگ ہمارے کھانے پینے کے اخراجات برداشت کرتا تھا ۔ کبھی لگتا تھا کہ زندگی کبھی نہیں بدلے گی اور ساری عمر خالی جیب کے ساتھ میں اور شعیب لاہور کی سڑکیں ناپتے رہیں گے۔آج اٹھارہ برس بعد شعیب لندن میں‘ تو میں اسلام آباد میں ہوں۔ اکثر نوجوان ملتے ہیں یا ای میل کرتے ہیں کہ وہ اینکر بننا چاہتے ہیں، یا راتوں رات بڑے صحافی بننا چاہتے ہیں تو میں خاموش رہتا ہوں کہ کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جو کم از کم ایسے خواب تو دیکھتے ہیں ۔ ہر کوئی ٹی وی اسٹار بننا چاہتا ہے۔ چُپ رہتا ہوں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ خدا نے پیغمبر بننے کے لیے چالیس برس عمر کی شرط رکھی تھی تو اس میں کوئی مصلحت تو ہوگی‘ جب کہ یہاں کوئی سات جنگل اور سات دریا عبور نہیں کرنا چاہتا۔ نہاری کھاتے کھاتے میں نے ریاض گنب سے کہا حیرانی ہوتی ہے کہ وقت کیسے بدل گیا ہے۔ ملتان میں ہم دونوں انجم کاظمی کی پھٹ پھٹی موٹرسائیکل کا انتظار کرتے تھے کہ کب یہ رات گئے دفتر سے فارغ ہو کر ملتان پریس کلب کی طرف آئے اور ہمیں راستے میں ڈراپ کرتا جائے۔ آج ریاض گنب لاہور میں ایک بڑا وکیل سمجھا جاتا ہے۔ لاہور میں گزرے ہوئے مشکل دنوں کی یادوں نے حملہ شروع کیا تو میں نے شفیق لغاری، انجم کاظمی اور ریاض گنب سے الیکشن پر بات چیت شروع کردی۔ یہ طے ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو یکدم احساس ہوا ہے کہ ان کا ملک خطرے میں ہے۔ کیا یہ اچھی بات نہیں کہ پاکستان کے نوجوان یہ سمجھنا شروع ہوگئے ہیں کہ ان کے بڑوں نے ملک کو درست نہیں چلایا اور اب حالات یہ ہو چکے ہیں کہ پاکستان اپنے گھٹنوں پر جھک چکا ہے؟ بہت سارے دوست ملتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ جمہوریت نے پاکستان کو لُوٹ لیا۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیسے لوٹ لیا ؟ ہم نے جمہوریت کو طعنہ بنالیا ہے ۔ کیا کرپشن کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت اس ملک میں ناکام ہوگئی ہے؟ جمہوریت نے اس ملک کو نئی امید دی ہے۔ اس جمہوریت کی وجہ سے ہی آج چار کروڑ نوجوان اپنے ووٹ رجسٹرڈ کروا چکے ہیں۔ جس نے پاکستان کے تمام سیاسی پنڈتوں اور صحافیوں کو کنفیوژ کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ کسی کو کچھ علم نہیں ہے کہ یہ نوجوان کیا کرنے والے ہیں۔ یہ جمہوریت ہی تھی جس نے میڈیا کو یہ آزادی دی کہ وہ کُھل کر ان لوگوں کو بے نقاب کریں جو اس ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ کسی کو مقدس گائے نہیں رہنے دیا گیا ۔ سب کو ایکسپوز کیا گیا۔ لوگوں کو لگا پاکستان میں کرپشن عروج پر ہے۔ چند لوگ جموریت کے نام پر لوٹ رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا لندن کالج کی ایک کلاس میں تاریخ کے ہمارے برطانوی استاد نے ایک سروے تقسیم کیا اور ہم سب کی رائے مانگی۔ اس سروے کے مطابق 1920ء میں لوگوں کے بیمار ہونے شرح بہت کم تھی اور 1990ء میں بڑھ گئی تھی۔ ہم سب بونگیاں مارتے رہے کہ انیس سو بیس میں کون سی ایسی خوراک کھائی جاتی تھی جو اب نہیں کہ لوگ بیمار زیادہ ہورہے تھے۔ جب ہم تھک گئے تو ہمارے استاد نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ یہ سب بیماریاں انیس سو بیس کے عشرے میں بھی موجود تھیں جن سے لوگ ویسے ہی مرتے تھے جیسے آج مرتے ہیں لیکن اس وقت میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ ان بیماریوں کے بارے میں جان پاتے۔ لوگوں میں بھی ان بیماریوں کے بارے میں شعور نہیں تھا۔ جب کہ آج انیس سو نوے میں نہ صرف میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ سب بیماریوں کا پتہ چل جاتا ہے بلکہ لوگ بھی اپنے بارے میں زیادہ پریشان رہنے لگے ہیں۔ یہی حال ہماری جمہوریت کا ہے۔ کرپشن ماضی میں بھی ہوتی تھی لیکن میڈیا اسے رپورٹ نہیں کرپاتا تھا ۔ فوجی حکومت کے دور میں سب کو پیغام چلا جاتا تھا کہ کوئی حرکت نہیں کرنی اور پھر سب خاموشی چھا جاتی تھی۔ فوجی حکومتوں نے ہمیشہ بنکوں کے قرضے معاف کیے، تاجروں کو بے شمار مراعات دیں تاکہ سب خاموش رہیں اور وہ حکومت کرتے رہیں۔ وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء اور جنرل مشرف تک سب نے کوشش کی کہ اس معاشرے میں تشدد کا رحجان بڑھایا جائے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں کوشش کی کہ معاشرے سے سیاست کو ختم کیا جائے۔ لوگوں کو سیاست، سیاستدانوں اور جمہوریت سے بیزار کر دیا جائے۔ لوگ جمہوریت کا نام سن کر ہی کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ یوں غیر جماعتی انتخابات کا ڈرامہ رچایا گیا۔ جنرل ضیاء نے بلدیاتی انتخابات سے لے کر انتخابات تک غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے اور سوچا کہ اس طرح معاشرہ سیاست ، سیاستدانوں اور جمہوریت سے بیزار ہوتا جائے گا۔ انجم کاظمی، ریاض گنب، شفیق لغاری کے ساتھ لاہور میں گزارے اپنے پرانے دنوں کے بارے سوچتے اور نہاری کھاتے یاد آیا کہ اس شہر میں شاہی قلعے میں ایک نئی صبح کی امید میں کتنے سیاسی ورکرز سولیوں پر لٹکائے گئے۔ کتنی جوانیاں اس تاریک اور سنگدل شاہی قلعے کی سیاہ راتوں میں ڈوب گئیں۔ آج ملک بھر میں کروڑوں پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں، لڑکیوں اور بزرگ مرد و خواتین کو لمبی قطاروں میں پُرجوش دیکھ کر خیال آرہا ہے کہ جنرل ضیاء کی سوچ کو شکست ہوئی ہے۔ نئی نسل نے جمہوریت کو چنا ہے۔ انہیں احساس ہوا ہے کہ ان کا پاکستان خطرے میں ہے‘ انہیں کچھ کرنا ہے۔ یہ کریڈٹ جمہوریت کو جاتا ہے، میڈیا کو جاتا ہے کہ انہوں نے پانچ سال کے اندر اندرنوجوان نسل میں تبدیلی کی ایک ایسی لہر پیدا کردی ہے کہ وہ اپنی قسمت کسی ایسے لیڈر کے ہاتھ میں دینے کو تیار نہیں ہیں، جن پر انہیں اعتماد نہیں رہا۔ اس نسل کو یہ اعتماد اسی جمہوریت نے دیا ہے! جنرل ایوب ، جنرل ضیاء جنرل مشرف نے اپنے اپنے انداز میں کوشش کی کہ انسانوں کو غلام بنا کر ان پر حکمرانی کی جائے لیکن انسان کے اندر موجود صدیوں سے آزاد رہنے کے جنون نے اس بیمار سوچ کو شکست دے کر اپنی آزادی چھین لی ہے!!