الیکشن نشریات کے لیے میں دنیا ٹی وی لاہور میں تھا۔ میرے دوست ہشام نے کہا ان کی بہن رملہ ناصر میرے کالم شوق سے پڑھتی ہیں اور مجھ سے ہر حالت میں ملنا چاہتی ہیں۔رملہ ناصر ایک بنک میں جاب کرتی ہیں، انہوں نے ملتے ہی دُکھی ہو کر مجھ سے پہلا سوال یہ پوچھا کہ ہم پنجابیوں کو لوگ گالی کیوں دیتے ہیں؟ پنجابی تو ہر انقلاب اور تبدیلی کا ساتھ دیتے آئے ہیں‘ اب عمران خان کے لیے سب سے زیادہ کام کیا ہے‘ پھر بھی ہمیں گالیاں؟ میں ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گیا کیونکہ اس طرح کا سوال مجھ سے کبھی کسی نے نہیں کیا تھا (اس سے ملتاجلتاسوال گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ میں پوچھا گیا تھا کہ دنیا امریکہ سے کیوں نفرت کرتی ہے ؟) میں نے پوچھا کیا ہوا؟ رملہ کہنے لگیں کہ انہوں نے خود اور ان کی دوستوں نے تحریک انصاف کی جیت کے لیے دن رات ایک کردیا‘ اب انہیں فیس بک اور ٹویٹر پر گالیاں پڑ رہی ہیں کہ پنجابیوں نے عمران خان کو ووٹ نہیں دیا ۔ اگر دیا تو وہ چرا لیا گیا۔ رملہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ابھی اسے مجھ سے مل کر لاہور ڈیفنس چوک میں تحریک انصاف کے احتجاجی دھرنے میں شریک ہونا تھا اور ساری رات احتجاج کے بعد صبح نو بجے نوکری پر جانا تھا اور شام کو کچھ دیر سو کر پھر رات کو دھرنے میں شرکت کرنی تھی۔ رملہ کی طرح ہزاروں نوجوان پنجابی لڑکیوں اور لڑکوں نے اپنے گھروں سے باہر نکل کر عمران خان کے لیے کام کیا۔ پھر بھی پنجابی کو گالی؟ مجھے رملہ ناصر کی بات سے یاد آیا کہ 1996ء میں جب بیروزگاری کے برے دنوں میں کوٹھا پنڈ لاہور کے ایک فلیٹ میں شعیب اور میں رہتے تھے تو ہم دونوں ایک نتیجے پر پہنچے تھے کہ مقامی پنجابی لاہوری بہت عمدہ لوگ ہیں۔ ان سے بہتر لوگ کم ہوں گے۔ ان پنجابیوں کا کلچر، زبان اور ماحول خراب کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہم جیسے ہیں جو دوسرے دیہی علاقوں اور شہروں سے اس شہر میں آ کر بس گئے اورپنجابی بولنی شروع کردی ہے۔ ان سب نے مل کر گند گھولا۔ اب پہلی گالی پنجابی کو پڑتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے ایک مقامی لاہوری سے انارکلی میں پرانی کتابوں کی ایک دکان کا راستہ پوچھ لیا۔ اس نے سارے کام چھوڑ کر مجھے راستہ سمجھایا ۔ میں چل پڑا‘ ایک گلی میں مڑنے لگا‘ ابھی ایک قدم گلی کی طرف بڑھایا تھا کہ دور سے آواز آئی… پاجی! اگلی گلی اچ مڑنا جے… میں نے حیرت سے مڑ کر دیکھا تو وہی لاہوری کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ اسے شک تھا کہ میں غلط گلی میں مڑوں گا۔ میں اس دن سے پنجابی لاہوریوں کی محبت کا قائل ہوگیا۔ میں محبت بھرے لاہوری کی اس آواز کو آج بھی محسوس کر سکتا ہوں جو مجھے درست راستہ بتانے کے لیے کھڑا رہا۔ شعیب اور میں جب بھی کسی قدیم پنجابی لاہوری سے ملتے تو دل باغ باغ ہوجاتا اور جب کبھی ہمیں ہمارے جیسے دوسرے علاقوں کے لوگ ملتے تو ہمیں احساس ہوتا کہ بے چارے لاہوریوں پر یہ کیسا عذاب نازل ہو گیا ہے۔ رملہ کی بات سے مجھے لگا کہ پنجابی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ جب بڑی تعداد میں لوگ اپنے آپ کو پنجابی کہلانے لگے تو پھر گندم کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ آج انہیں سب جگہ سے گالی پڑتی ہے چاہے ان کی نئی نسل تبدیلی کے ساتھ ہی کیوں نہ کھڑی ہوئی ہو۔ اس نسل کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ دوسرے تین صوبے یہ سوچنے لگے ہیں کہ پنجاب سے الیکشن جیتے بغیر کچھ ہوجائے وہ ملک پر حکومت نہیں کر سکتے۔ رملہ کا گلہ جائز ہے۔ پنجابیوں نے بھٹو کو بھی پزیرائی بخشی تھی بلکہ بھٹو کا سارا سیاسی کیریئر شروع ہی لاہور سے ہوا تھا جب وہ ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہو کر لاہور گئے تھے۔ بھٹو سے لاہور نے وفا کی۔ بلاشبہ بھٹو نے بھی اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے لاہور کو چنا اور بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا فیصلہ بھی لاہوریوں سے کرایا۔ بھٹو کو پنجاب کی قوت کا علم تھا لہٰذا انہوں نے سندھ سے زیادہ اس صوبے کو اہمیت دی۔ بھٹو ویسے تو سرائیکیوں کو پسند کرتے تھے لیکن انہوں نے سندھیوں کے لیے وفاقی ملازمتوں میں شہری اور دیہاتی علاقوں کا کوٹہ علیحدہ کردیا تاکہ سندھی زیادہ تعداد میں بیوروکریسی میں جا سکیں۔ پنجاب میں انہوں نے یہ کام نہیں کیا جس سے سرائیکی آج تک بیوروکریسی میں آگے نہیں آسکے۔ کوئی اِکا دُکا آگے نکل گیا تو اور بات ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم بنی اور اس کے بننے کی اصل وجہ ملازمتوں میں سندھیوں کو کوٹہ ملنا تھا۔ سرائیکی اس حوالے سے بدنصیب رہے کہ بھٹو صاحب انہیں وفاقی ملازمتوں میں کوئی حصہ دینے کو تیار نظر نہ آئے جس سے مرکزی پنجاب کی بیوروکریسی نے ملک پر حکومت کی اور دوسرے صوبوں کو بھی شکایات پیدا ہوئیں۔ لیکن رملہ کا گلہ اپنی جگہ درست ہے۔ یہ پنجابی ہی تھے جنہوں نے 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے ایک بڑے جلسے میں شرکت کر کے سب سیاسی پارٹیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ عمران کو سنجیدگی سے لیں۔اگر لاہور کا پنجابی تحریک میں جان نہ ڈالتا تو شاید بات نہ بنتی۔ اس جلسے نے تو اصل رنگ دکھایا۔ جس طرح الیکشن کے لیے عمران کو حمایت لاہور سے ملی، میرا خیال ہے ملک کے کسی اور حصے سے نہیں ملی ہوگی۔ میں لاہور میں جس سے بھی ملا، اس نے تحریک انصاف کی بات کی۔ اتنا جوش و خروش میں نے کبھی کسی الیکشن میں نہیں دیکھا تھا جو اس دفعہ عمران کے لیے دیکھا اور یہ سب کمال لاہوریوں کا ہے۔ اس دفعہ ایک اور کمال ہوا۔ اس کلاس‘ جو لاہور اور کراچی کے پوش علاقوں میں رہتی ہے‘ نے انگڑائی لی۔ آج تک وہ کلاس جسے طعنے ملتے تھے کہ یہ ممی ڈیڈی قسم کی برگر فیملی ہیں، انہیں پاکستان سے کیا غرض‘ اس دفعہ وہ کلاس باہر نکلی اور جیسے نکلی اس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اصل مڈل کلاس ہے جو کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لے کر آتی ہے۔ اس کلاس کی ہمیں تلاش تھی جو اب جا کر اس نئی نسل میں ملی ہے جو ابھی لاہور اور کراچی میں دھرنے دے کربیٹھی ہے کہ ان کا ووٹ چرا لیا گیا ہے۔ اس کلاس کو اور تو اور عمران خان بھی طنزیہ برائون صاحب کہتے تھے۔ اس ’’برگر کلاس‘‘ کو طعنے دینے والوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کلاس کے پاس ڈیفنس میں اپنا گھر ہے، کار ہے، نوکری ہے، تعلیم ہے، ایک اچھا اسٹیٹس ہے۔ دوستوں کے ساتھ پارٹی کرنے کے لیے جیب میں پیسے ہیں۔ یہ کوئی مزدوری کرنے والی کلاس نہیں ہے۔ اس کلاس کو کوئی گھر، کار، پیسے یا نوکری نہیں چاہیے۔ لیکن یہ کلاس اپنے جیسے انسانوں کے لیے وہی سہولتیں چاہتی ہے جو انہیں میسر ہیں۔ انہیں محسوس ہوا ان کا ملک خطرے میں ہے۔ یہ وہ کلاس ہے جس کی ہمیں تلاش تھی ۔ یہی نوجوان تبدیلی لائیں گے جو اپنی تعلیم، نوکری یا گھر کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ اپنے سے کمزور اور غریب انسانوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے جنگ لڑرہے ہیں! یہ کلاس گھروں سے نہ نکلے تو بھی گالی اور باہر نکلے تو بھی گالی۔ لاہور کی رملہ ناصر کا دکھ سمجھ میں آتا ہے کہ پولیس سے لاٹھیاں کھاتی اس نئی نوجوان پنجابی نسل کو گالی کیوں…!!!