آج بدھ کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھنے جائوں گا۔ یہ مشاہدہ کروں گا کہ جب جاوید ہاشمی اور میاں نواز شریف کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے الیکشن ہورہا ہو گا تو جاوید ہاشمی کو کون کون ووٹ دے گا یا پھر کس کو انہیں ووٹ دینا چاہیے؟ میں ایک فہرست بنانے کی کوشش کررہاہوں کہ جاوید ہاشمی کو کون کون ووٹ دے سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ میری بالکل ذاتی رائے اور سوچ ہے۔ میرے ذہن میں سب سے پہلا نام تہمینہ دولتانہ کا آتا ہے اور پھر محمود خان اچکزئی کا۔ جمشید دستی بھی ووٹ دے سکتا ہے کہ وہ بھی اب دوسروں کی طرح اقتدار میں اپنا حصہ چاہتا ہے۔ شیخ رشید کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جو جاوید ہاشمی کو ملتان میں خبردار کر آئے تھے کہ اگر جنرل مشرف کے خلاف کارگل کے ایشو پر قومی اسمبلی میں تقریریں بند نہ کیں تو انہیں اٹھا لیا جائے گا اور دو دن بعد وہ پارلیمنٹ لاجز کے باہر سے پانچ سال کے لیے اٹھا لیے گئے تھے۔ اعجاز الحق کا نام بھی اس فہرست میں آسکتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ مشکل ہے‘ کیونکہ وہ ووٹ دے کر میاں نواز شریف سے تعلقات درست کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے لیکن پانچ سال بعدنواز لیگ کا ٹکٹ پھر بھی نہیں ملے گا۔ ایماندار ی سے پوچھیں تو میرے ذہن میں کوئی اور نام نہیں آتا۔ ایک لمحے کے لیے دانیال عزیز کا خیال آیا تھا کہ جنرل مشرف دور میں وہ انقلابی تقریریں کرتے تھے، لیکن میں نے فوراً اس خیال کو جھٹک دیا۔ پھر اویس لغاری کے بارے میں بھی سوچا۔ خواجہ سعد رفیق کا نام بھی ذہن میں آتا ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں یاد ہو کہ وہ اور جاوید ہاشمی دونوں کیسے لاہور کے ایک تھانے میں بدترین تشدد کا شکار ہوتے رہے تھے۔ کہنے کو تو خواجہ آصف کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے لیکن وہ اب اتنے جذباتی بھی نہیں کہ جاوید ہاشمی کو ووٹ ڈالنے چل پڑیں۔ رضا حیات ہراج، خسرو بختیار کو تو رہنے ہی دیں تو بہتر ہے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ میرے ذہن میں تہمینہ دولتانہ کا نام کیوں آیا۔ جنرل مشرف دور میں جاوید ہاشمی اور مسز دولتانہ کو گرفتار کر کے جیل لے جایا گیا۔ وہاں کسی چپقلش پر ملتان کے مخدوم نے آگے بڑھ کر جیل افسر کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ پوری رات جاوید ہاشمی پر تشدد ہوتا رہا اور مجال ہے کہ منہ سے کوئی آہ نکلی ہو‘ کوئی گلہ کیا ہو۔ یہ واقعہ مجھے اُس جیلر نے سنایا تھا جو وہاں موجود تھا ۔ اس جیلر سے اتفاقاً لندن میں راہ چلتے ملاقات ہوگئی تھی ۔ تو کیا تہمینہ دولتانہ کو آج سب کچھ یاد ہوگا؟ یا پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ سیاست کے سینے میں کوئی دل نہیں ہوتا، صرف مفادات ہوتے ہیں۔ وہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوکر آئی ہیں۔ اب رائے ونڈ سے جڑ گئی ہیں‘ جاوید ہاشمی کے لیے بغاوت کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ محمود اچکزئی پنجاب کے سیاستدانوں کو بہت طعنے دیتے تھے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت نہیں کرتے‘ یہ جیل جانے سے ڈرتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے لندن جانے اور پنجاب کے سیاستدانوں کے جنرل مشرف کی پارٹی میں شامل ہونے کے بعد قوم پرستوں کا یہ یقین اور پختہ ہوگیا تھا؛ تاہم جاوید ہاشمی نے جنرل مشرف دور میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور اپنے پچھلے کیے کرائے کو دھو ڈالا۔ تو کیا اب ہمیں 2002ء کی اسمبلی سے لے کر اب تک جمہوریت کے بارے ایک ہی رٹا رٹایا لیکچر دینے والے اچکزئی یہ جرأت کر سکیں گے کہ وہ پنجاب کے اس لیڈر کو ووٹ دے سکیں جو وزیراعظم کا الیکشن لڑنے سے پہلے ہی ہارے ہوئے ہیں؟ جناب اچکزئی نے 2002ء میں بلوچستان کے بلوچ وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کو ووٹ نہیں دیا تھا‘ کیونکہ جمالی صاحب جنرل مشرف کے ساتھ کھڑے تھے اور ا چکزئی اس قطار میں کھڑا نہیں ہونا چاہتے تھے جہاں پنجاب کے سب ایم این ایز قطار میں لگ کر اس وزیراعظم کو ووٹ ڈال رہے تھے۔ تو کیا اب اچکزئی اس قطار میں لگ کر کھڑے ہوں گے جس میں وہی ایم این ایز میاں نواز شریف کو ووٹ ڈال رہے ہوں گے جنہوں نے کبھی جنرل مشرف کو ان کی نظروں کے سامنے اسی ہائوس سے وردی کے ساتھ صدر منتخب کرایا تھا؟ اس وقت جاوید ہاشمی اس قطار میں کھڑے نہیں تھے۔ وہ اس وقت اچکزئی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ تو کیا اچکزئی اس طرح کی جرأت کر سکیں گے جو انہوں نے 2002ء میں کی تھی اور وہ اکیلے قومی اسمبلی کے ہال میں بیٹھے رہے تھے اور انہوں نے کسی پارٹی کو ووٹ نہیں ڈالا تھا کہ سب جنرل مشرف کے ساتھی ہیں؟ اچکزئی آج نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں یا پھر وہی پرانی تقریر سننے کو ملے گی جو اب سب صحافیوں کو زبانی یاد ہوچکی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ جب اچکزئی جنرل مشرف کے پرانے ساتھیوں کے ساتھ قطار میں لگ کر ووٹ ڈال رہے ہوں گے تو ہمارے جیسے ان کے سیاسی رومانس میں گرفتار صحافیوں کو کیا سوچنا چاہیے؟ کیا جنرل مشرف کے پرانے ساتھی اب نواز لیگ جوائن کر کے انقلابی ہوگئے ہیں اور وہ اس فلاسفی پر چل پڑے ہیں جس کا پرچار اچکزئی کرتے رہے ہیں؟ یا پھر پنجاب کے سیاستدانوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک کے بعد آخر اچکزئی پٹھان بھی سمجھدار ہو گیا ہے؟ اور اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے کہ پاکستان میں سیاستدان نہیں بدلیں گے لہٰذا اب اقتدار کی سیاست کرنے میں کوئی ہرج نہیں یعنی روم میں وہی کچھ کرو، جو روم والے کرتے ہیں۔ آج اخلاقی فتح پھر بھی جاوید ہاشمی کی ہوگی جو جنرل مشرف کے دور میں جنرل کے وزیروں، ایم این ایز سے پہلے پارلیمنٹ کے اندر لڑتے رہے اور پھر پانچ برس جیل میں رہے۔ ایک دیوانے کے خواب کی طرح یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا میاں صاحب علامتی طور پر ہی سہی، یہ جرأت دکھا سکتے ہیں کہ جب ان کی پارٹی انہیں وزیراعظم بنانے کے لیے ووٹ ڈال رہی ہو تو وہ اپنا ووٹ جاوید ہاشمی کو ڈالیں تاکہ ہاشمی صاحب کی جنرل مشرف دور میں کی گئی عظیم جدوجہد کا عملی طور پر کچھ تو اعتراف کیا جا سکے؟ یاد آیا جب عظیم بھارتی اداکار امیتابھ بچن کو کروڑوں لوگوں کے آن لائن ووٹ کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا اداکار ہونے کا اعزاز ملا تو کسی نے ان سے تاثرات پوچھے۔ وہ بولے کہ اگر وہ خود آن لائن ووٹ ڈالتے تو وہ دلیپ کمار کے حق میں ڈالتے!!