"RKC" (space) message & send to 7575

خیال امروہوی کی موت!

لیہ سے بڑے بھائی کا فون تھا۔ وہ جلدی ریٹائرمنٹ لینے کے بعد بیروزگار ہیں اور نوکری ڈھونڈ رہے ہیں ۔ بتانے لگے ایک پرائیویٹ بنک میں سیٹ خالی ہے کیونکہ اس کے منیجر کی کرنٹ لگنے سے موت ہوگئی ہے۔ کہنے لگے وہ نوجوان ڈاکٹر خیال امروہوی کا بیٹا تھا اور اس کے تین بچے ہیں۔ بھائی کی آواز میں افسردگی تھی ۔ مجھے احساس تھا وہ کیوں افسردہ ہورہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہیں وہی نوجوان تو نہیں ہے جن کا کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک ٹیکسٹ پیغام آیا تھا کہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے؟ بھائی بولے‘ بالکل وہی تھے بلکہ مجھ سے ہی موبائل فون لیا تھا۔ ہم دونوں بھائیوں میں اداس خاموشی چھا گئی۔ ڈاکٹر خیال امروہوی لیہ کالج میں اردو اور فارسی کے استاد اور شاعر تھے۔ انہوں نے ہندوستان کے شہر امروہہ سے ہجرت کے بعد اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرح کراچی میں رہنے کی بجائے اس دور افتادہ شہر لیہ کو اپنا مسکن بنایا اور اس پس ماندہ علاقے کی ہماری جیسی ان پڑھ اداس نسلوں کو پڑھانے کی ذمہ داری اٹھائی۔ ہم تین بھائیوں نے ان سے پڑھا تھا ۔ میرے مرحوم بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے ان سے متاثر ہو کر شاعری شروع کی اور اپنا تخلص \"خیال\" لکھنے لگ گئے تھے اور ان سے اصلاح لیتے تھے۔ شاید بھائی ڈاکٹر نعیم اب بھی اپنے استاد ڈاکٹر خیال سے دوسری زندگی میں بیٹھ کر شاعری کی اصلاح لے رہے ہوں گے۔ اپنے دونوں بڑے بھائیوں کے دس برس بعد ، میں لیہ کالج میں داخل ہوا اور اس ڈاکٹر خیال امروہوی کو دیکھا جن کا ذکر گھر میں سنتا رہتا تھا ۔ان کی شخصیت میں عجیب سی کشش تھی۔ وہ زیادہ تر خاموش رہتے۔ سر جھکائے اپنے خیالوں میں مگن، دنیا سے بے پروا‘ دانشور‘ خاموش !! وہ اپنے قدم بھی اتنی احتیاط سے اٹھاتے تھے کہ کہیں ان کے پائوں کے بوجھ سے زمین کو تکلیف نہ ہو۔کرسی اٹھا کر کہیں بھی بیٹھ کر پڑھانے لگ جاتے۔ اقبال کی فارسی شاعری پڑھاتے پڑھاتے اپنے فارسی کے شعر سناتے۔ ہم سب طالبعلم انہیں خوش کرنے کے لیے کھل کر داد دیتے تو وہ مزید شعر سناتے۔ اقبال اور اپنی فارسی شاعری کا تقابلی جائزہ بھی لیتے۔ جب وہ ہنستے تو ہنستے ہی جاتے اور کھل کر ہنستے۔ ان کی اپنے کالج کے پروفیسروں سے زیادہ گپ شپ نہیں تھی ۔ زیادہ تر اپنی دنیا میں مگن رہتے۔انہیں پتہ چلا کہ میں ڈاکٹر نعیم کا بھائی ہوں تواس وجہ سے کبھی کبھار میرے سلام کا جواب دے دیتے وگرنہ اپنی دنیا میں مگن رہتے۔ اب کچھ دن پہلے روزنامہ دنیا اسلام آباد کے رپورٹر زبیر قریشی نے بتایا کہ لیہ کالج کے پروفیسر غلام محمد بھی فوت ہوگئے ہیں ۔ سن کر لگا وقت گزر گیا ہے اور میں اب بوڑھا ہورہا ہوں۔ وہ سب ایک ایک کر کے روانہ ہورہے ہیں جن سے میں نے پڑھا ہے۔ کل کی بات لگتی ہے‘ جب غلام محمد صاحب ہمیں بی اے میں انگلش لٹریچر کی کلاس پڑھانے کے لیے دسمبر کی نشہ طاری کر دینے والی دھوپ میں پڑھانے بیٹھتے تھے۔ چوبیس برس گزر گئے ہیں اور جس انداز سے شیکسپیئر کے جولیس سیزر ڈرامہ کو انہوں نے پڑھایا تھا آج بھی ذہن میں نقش ہے۔ پچھلے سال لندن میں بچوں کے ساتھ تھیٹر میں جولیس سیزر کا ڈرامہ دیکھا تو بھی غلام محمد صاحب کا پڑھایا ہوا جولیس سیزر ذہن پر سوار رہا ۔غلام محمد صاحب اکثر بروٹس سے خفا لگتے اور کہتے چلو مان لیا سیزر ڈکٹیٹر بننے چلا تھا لیکن وہ ابھی بنا تو نہیں تھا اور پھر وہ تمہارا تو دوست تھا۔ تمہیں تو وہ عزت دیتا تھا اور بروٹس تم نے ہی سازشیوں کے کہنے پر خنجر مار دیا تھا ! 1989ء میں انگلش لٹریچر کا بی اے کلاسز کے لیے آپشنل مضمون لیہ کالج میں شروع ہونا بہت بڑا چیلنج تھا ۔ وہ پہلا سال تھا اور کوئی طالبعلم خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا ۔ مجھے پروفیسر ظفر حسین ظفر نے بلایا اور کہا رئوف تم داخلہ لے لو۔ میں نے ان کی بات مان لی۔ بارہ لڑکے داخل ہوئے اور آخر میں خالد دستی اور میں رہ گئے۔ باقی سب نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی کہ کون پہلے دو سو نمبر کا انگلش لازمی پیپر پڑھے اور پھر انگلش لٹریچر دو سونمبر کے لیے سات انگلش کتابیں پڑھے۔ میرے روم میٹ ذوالفقار سرگانی نے بھی داخلہ لیا اور کچھ دن بعد چھوڑ دیا ۔ وہ دو سال مجھے ہوسٹل کے کمرے میں انگلش لٹریچر کے نقصانات سمجھاتا رہا۔آج بھی میں اسے چھیڑتا ہوں کہ سرگانی تم نے بڑی کوشش کی تھی لیکن میں ہی نالائق نکلا اور تمہیں مایوس کیا ۔ میں نے اسے چیلنج کے طور پر لیا اور لٹریچر کو انجوائے کرنا شروع کیا۔ شبیر نیر صاحب، پروفیسر غلام محمد، ڈلو صاحب اور دیگر نے بڑی محنت سے پڑھایا حالانکہ ہم صرف دو طالب علم ہی ہوتے تھے۔ وہ سب استاد ایسے محنت کر کے ہم دونوں کو پڑھاتے جیسے پچاس لڑکے بیٹھے ہوں۔جب خالد دستی اور میں نے بی اے میں انگلش لٹریچر پاس کیا تو ہم سے زیادہ خوشی ہمارے استادوں کو ہوئی تھی۔میرا ایم اے انگلش میں داخلہ ہوا تو بھی ان سب استادوں کو ایک اطمینان ہوا کہ چلیں ان کی دو سال کی محنت ضائع نہیں گئی تھی۔ میری زندگی بدل گئی جس کا سارا سہرا لیہ کالج کے ان سب استادوں کے سر ہے جنہوں نے دو سال تک اپنے صرف دو شاگردوں کو یوں پڑھایا جیسے وہ پوری کلاس کو پڑھا رہے ہوں۔ آج جب سوچتا ہوں کسی بھی مقام تک پہنچنے کے لیے کتنے بچھڑ جانے والے دوستوں، خوبصورت کرداروں اور unsung استادوں کا کردار ہوتا ہے لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ کس نے کس موڑ پر آپ کا ساتھ دیا تھا۔ شیکسپیئر کی چند لائنیں سمجھ نہیں آرہی تھیں تو غلام محمد نے گھر کی بیٹھک میں بیٹھ کر آپ کو سمجھایا تھا کہ جولیس سیزر کا Tragic flaw کیا تھا اور بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی ان کی طرح بڑی ہوتی ہیں جس سے نہ صرف وہ خود متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان کی غلطیوں کے اثرات اور نتائج پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ غلام محمد صاحب کی موت کا سن کر اسی طرح دکھ ہوا تھا جیسے اپنے پسندیدہ استاد ظفر حسین ظفر کی ریٹائرمنٹ کا سن کر ہوا تھا ۔ کچھ لوگوں کے بارے میں ہم سوچنا تک نہیں چاہتے کہ جس انداز سے وہ ہماری زندگیوں میں داخل ہوئے تھے وہ اس کردار سے ریٹائرڈ ہوجائیں۔ بھکر کے پروفیسر ظفر حسین ظفر کا بھی مجھ پر بہت اثر رہا ۔ بھلا کیسے بھول جائوں جب میں نے لیہ کالج میں ایف اے میں ٹاپ کیا تو وہ گائوں میں میری بیوہ ماں کو قائل کرنے گئے کہ اپنے بچے کو آپ لاہور کے ایف سی کالج میں گریجویشن کے لیے بھیجیں۔ مجھے ماں کی خاموشی سمجھ میں آرہی تھی کہ کیسے چھ بچوں کی بیوہ ماں لاہور میں پڑھانا افورڈ کر سکے گی۔ ماں کو خاموش دیکھ کر ظفر صاحب سمجھے شاید انہیں مزید دلائل کی ضرورت ہے۔ وہ خاصی دیر تک اماں کو سمجھاتے رہے اور وہ چپ رہیں۔ آخر پر بولے اگر پیسوں کا مسئلہ ہے تو میں بھی کچھ مدد کر دیا کروں گا۔ آپ اپنے بچے کو ضائع نہ کریں۔ لاہور پڑھنا اپنی قسمت میں نہ تھا اور میں نے بھی ضد نہیں کی۔ آج چوبیس برس بعد سوچتا ہوں کہ ظفر حسین ظفر صاحب کو مجھ سے کیا لالچ تھا کہ میری خاطر لیہ سے پندرہ کلو میٹر دور پس ماندہ گائوں میں میری بیوہ ماں سے ملنے گئے تھے کہ اپنے بچے کو لاہور پڑھائیں ۔ انہیں شاید یاد بھی نہ ہو کہ وہ میرے لیے کبھی اتنی دور گئے تھے اور اب وہ بھکر میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہوں گے۔ بڑا جی چاہتا ہے ان سے جا کر ملوں۔ وہ ہمارے ہوسٹل کے وارڈن تھے اور چار سال میں اس ہوسٹل میں رہا ۔ کتنے روم میٹ اور دوست بنائے۔ آج سب پتہ نہیں کہاں غائب ہوگئے ہیں۔ ماضی کی یادیں ہیں اور میں ان میں ڈوبتا جارہا ہوں۔ ڈاکٹر خیال امروہوی کے تین بچوں کے باپ نوجوان بیٹے کی دردناک موت کا سن کر سوچ رہا ہوں اگر وہ آج زندہ ہوتے تو ان جیسے حساس شاعر اور انسان دوست انسان کی روح پر کیا گزرتی۔ اب احساس ہورہا ہے والدین کیوں دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی موت سے پہلے ہی اس زندگی سے گزر جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں