پچھتر سال کی عمر میں لندن کا ادیب چالیس ہزار پونڈز اپنی جیب سے نکال کر دنیا کے چند ممالک کا سفر اس لیے کرتا ہے کہ وہ جو نیا ناولThe Kill List لکھ رہا ہے اس کے کردار نے ان ممالک میں جانا ہے اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ ملک اور شہر کیسے ہیں۔ جن شہروں میں اس کا خیالی کردار جاتا ہے ان میں اسلام آباد بھی شامل ہے ۔ یہ برطانوی ادیب اسلام آباد کی گلیوں اور سڑکوں پر پھرتا رہا ، نوٹس لیتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس کا کردار کہاں سے کس وقت اور کیوں گزرے گا اور وہ ہر موڑ اور سڑک پر کھڑے ہو کر سب مناظر کو قلم بند کرتا رہا ۔ وہ ناول ابھی چھپا ہے اور اس پر فلم بنانے کے حقوق پہلے ہی فروخت ہو چکے ہیں ۔ اس ادیب کے تین ناولوں پر پہلے ہی فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ یہ چھوٹی سی خبر پڑھ کر مجھے اس گورے ادیب سے دلچسپی پیدا ہوئی تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس ادیب کے لکھے ہوئے پہلے مشہور ناول پر بننے والی مشہور زمانہ فلم The Day of Jackal میں کافی عرصہ پہلے دیکھ چکا ہوں ۔ یہ ناول اس ادیب نے 1971ء میں لکھا تھا اور دنیا بھر میں بہت پڑھا گیا تھا۔ ناول فرانس کے صدر چارلس ڈیگال کے بارے میں تھا کہ کیسے ایک گروہ اسے قتل کرنے کا پلان بناتا ہے۔ فریڈرک کچھ عرصہ فرانس میں رپورٹنگ کرتا رہا تھا اور اسے وہاں سے یہ سن گن ملی تھی کہ فرانسیسی صدر کو ایک تنظیم قتل کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اس حوالے سے ایک ایسا ناول لکھ ڈالا کہ اس پر ہالی ووڈ کی ایک شاندار فلم بنی۔ فریڈرک کو محسوس ہوا کہ وہ جو نیا ناول لکھنا چاہتا ہے اس کے لیے ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اس ناول کا کردار ایک مبلّغ ہے جو دہشت گرد بن گیا ہے۔ اسے پکڑنے کے لیے باقاعدہ ایک اسکواڈ تشکیل دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے فریڈرک دہشت گردی کے ان ہتھیاروں کے بارے میں بھی ریسرچ کرتا ہے کہ آج کی دنیا میں دہشت گردوں کا مقابلہ جدید ٹیکنالوجی سے کیسے کیا جاتا ہے تاکہ اس کے کرداروں کو بھی یہ سب کچھ معلوم ہو۔ ناول کا کردار اس نے القاعدہ کے دہشت گرد انور الالکی سے متاثر ہو کر اپنے ذہن میں بنایا تھا۔ یہ کردار یمن میں ایک امریکی ڈرون میں مارے جانے والے کے بارے میں ہے۔ اب اپنے انٹرویو میں اس نے نئے ناول کے بارے میں کہا ہے کہ جب تک وہ پوری ریسرچ نہ کرلے‘ ایسی کہانیاں نہیں لکھ سکتا ۔ اس ناول کے لیے پہلے اس نے واشنگٹن میں کچھ دن اس علاقے میں گزارے جو سائبر سپیس کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے بعد وہ پاکستان آیا ۔ تاہم اس کا کہنا تھا کہ سب سے مشکل اسے پاکستان نہیں بلکہ موغادیشو شہر لگا ۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے ان شہروں کے بارے میں چھپی ہوئی کتابوں کو بھی پڑھا لیکن اسے محسوس ہوا کہ وہ کتابیں ان شہروں کے بارے میں وہاں گئے بغیر لکھی گئی تھیں‘ لہٰذا وہ ان سے متاثر نہیں ہوا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود جائے گا اور خود سب کچھ دیکھ کر اپنے مناظر لکھے گا۔ وہ پاکستان سے ترکی کے شہر استنبول گیا اور وہاں سے صومالیہ چلا گیا ۔ اس کے ساتھ اس دفعہ ایک باڈی گارڈ بھی تھا جو برطانوی سپیشل پولیس فورس میں رہ چکا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے کتاب کی ریسرچ پر کتنا وقت صرف کیا‘ تو اس کا کہنا تھا کہ ایک کتاب لکھنے میں ایک برس لگتا ہے۔ آئیڈیا سے لے کر اسے کتابی شکل دینے کے لیے اسے بارہ ماہ لگتے ہیں ۔ پہلے تین ماہ کتابی ریسرچ میں صرف ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان جگہوں پر جا کر ریسرچ کرنے پر مزید چھ ماہ لگتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ روزانہ دس صفحات لکھتا ہے اور چھ دن کام کرتا ہے اور اگلے تین ماہ میں تین سو پچاس صفحات کا ناول تیار ہوتا ہے۔ فریڈرک کہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو لکھنے یا سوچنے پر مجبور نہیں کرتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ آئیڈیاز اس کے ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اس آئیڈیا کے آنے کے بعد وہ ریسرچ شروع کرتا ہے تاکہ پتہ چلے کہ وہ آئیڈیا اس قابل ہے کہ اس پر پورا ناول لکھا جا سکے۔ وہ اس ناول کی جزئیات پر کام کرتا ہے۔ اس ناول کی ریسرچ کے دوران اسے پتہ چلا کہ شدت پسند کیسے اپنی دنیا میں آپریٹ کرتے ہیں اور پھر پکڑے بھی نہیں جاتے۔ پھر انہیں کیسے پکڑا جاتا ہے اور ختم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے اکثر دہشت گرد پکڑے گئے ہیں یا انہیں مار دیا گیا ہے۔ اس دوران اس کے کردار مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور وہ ان کا حل سوچتاہے اور یوں مسائل اور ان کا حل ڈھونڈنا ہی ناول مکمل کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اس کے ناول دی کلر لسٹ پر فلم بنے گی اور کیا اس میں اس سے کوئی مزید کام بھی لیا جائے گا تو اس کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ فلم ڈائریکٹر کا کام ہے اس کا نہیں ہے۔ وہ بھلا کیسے انہیں بتائے کہ فلم کیسے بنانی ہے کیونکہ یہ ان کا کام ہے اور ویسے بھی وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انہیں ان کا کام سمجھایا جائے۔ تاہم اس کا کہنا تھا کہ اس کی بیوی کی خواہش ہے کہ وہ فلم ڈائریکٹر کو بتائے کہ اس فلم کے کرداروں کے لیے کس اداکار کو لینا چاہیے تو اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ محترمہ آپ نے جس ایکٹر کا نام تجویز کیا، اسے یقین ہے فلم ڈائریکٹر اسے کام نہیں دے گا‘ لہٰذا بہتر ہے وہ چپ ہی رہے اور ان کو اپنا کام کرنے دے! چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ 75 سالہ فریڈرک بنیادی طور پر ایک صحافی ہے۔ وہ اب تک اٹھارہ کتابیں لکھ چکا ہے جن میں اکثر بیسٹ سیلر ناولز شامل ہیں جن میں سے تین پر پہلے ہی فلمیں بن چکی ہیں۔ صحافی بننے سے پہلے وہ ایک جنگی پائلٹ تھا۔ 1961ء میں اس نے رائٹر نیوز ایجنسی کو جوائن کیا اور چار سال بعد بی بی سی کا نمائندہ بن گیا ۔ اس نے فرانس میں بھی کام کیا اور جب چارلس ڈیگال کو مارنے کا منصوبہ بنا تو اسے بھی بی بی سی کے لیے رپورٹ کیا ۔ اس نے بی بی سی کو کہا کہ وہ نائیجیریا سول وار کو کور کرنے کے لیے جانا چاہتا ہے لیکن اسے بی بی سی کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ ویت نام کور کر رہے ہیں اور یہ سول وار ان کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ اس نے بی بی سی سے استعفیٰ دیا اور خود ہی یہ سول وار کور کرنے چلا گیا اور جب لوٹا تو اس نے The Biafra story کے نام سے کتاب لکھی۔ برطانوی فریڈرک کی کہانی پڑھنے سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ادیب اور صحافی عالمی پائے کا ناول کیوں نہیں لکھ سکتے ۔ ہم صحافی ایک خبر، ایک کالم یا ٹی وی کا لڑائی جھگڑے سے بھرپور شو تو کر سکتے ہیں اس سے زیادہ ہماری تخلیقی صلاحیتیں ہمارا ساتھ نہیں دیتیں۔ ہماری تخلیقی صلاحیتیں کیوں ہمارا ساتھ نہیں دیتیں ؟ اس سوال کا جواب 75 سال کی عمر میں دنیا کے چھ سے زائد ممالک میں جا کر اپنے ناول کے لیے ریسرچ کرنے والے فریڈرک سے بہتر کون دے سکتا ہے کہ کوئی پیدائشی جینیئس نہیں ہوتا۔ آئیڈیاز، ریسرچ اور محنت اسے جینیئس اور بیسٹ سیلر ادیب بنا دیتے ہیں !