"RKC" (space) message & send to 7575

مرنڑ دا ڈُکھ نیں!

ایک دفعہ پھر گائوں میں ہوں۔ برسوں بعد دس محرم کو گائوں آیا ہوں۔ نعیم بھائی کی قبر مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ میرا جسم اسلام آباد میں رہتا ہے لیکن میری بے چین اور اداس روح دن رات ان کے ساتھ قبرستان میں بسر کرتی ہے۔ یاد آیا کہ ان کی زندگی کی آخری شام (20فروری 2013ء کو) شالیمار کرکٹ گرائونڈ میں واک کرتے ہوئے ان سے پوچھ لیا کہ ان کی ریٹائرمنٹ میں کتنا عرصہ باقی ہے۔ میرے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرتے ہوئے بولے‘ ابھی کافی برس پڑے ہیں۔ بتائیں تو سہی‘ میں نے کہا۔ کہنے لگے: چھوڑ یار ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ مجھے علم تھا کہ ان کی عمر باون برس ہے۔ انہیں علم تھا‘ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد میرے ساتھ رہیں۔ ہم دونوں دنیا کے لٹریچر اور سیاست پر گفتگو کریں‘ اکٹھے فلمیں دیکھیں‘ شام کو طویل واک کریں۔ ان کی موجودگی میں مجھے تحفظ کا احساس ہوتا تھا۔ ٹام ہارڈی کی فلم Outlaw دیکھی تو مجھے لگا کہ ٹام ہارڈی دراصل ہمارا بھائی نعیم ہے جو اپنے چھوٹے بہن بھائیوںکے لیے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی زندگی دائو پر لگا دیتا ہے۔ میری بیوی کو فکر رہتی کہ ان کی شادی ہو۔ مجھ سے کہتی بہن بھائیوں میں صرف تم اُنہیں شادی کے لیے نہیں کہتے۔ میں جواب دیتا‘ جس دن انہوں نے مجھ سے کہا تو اس کا مطلب ہو گا وہ سنجیدہ ہیں۔ وہ تم سب لوگوں کے ساتھ دل پشوری کرتے رہتے ہیں۔ مجھے چھوٹے بھائی خضر سے اتفاق تھا کہ وہ بابا کی موت کے بعد ان کی جگہ ہم سب کے بابا کے جس اعلیٰ رتبے پر فائز ہوئے ہیں وہ شادی کر کے اس سے محروم نہیں ہونا چاہتے۔ دوسرے‘ وہ من موجی تھے‘ ساری عمر اپنی مرضی سے گزاری تھی۔ میں حیران ہوا جب انہوں نے موت سے کچھ دن پہلے مجھے فون کر کے کہا‘ یار روفی! لگتا ہے مجھے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے کہا‘ آپ تو ہمارا مذاق اڑایا کرتے تھے‘ ویسے یہ محبت نام کی چیز کتنی دفعہ ہو چکی ہے؟ بولے‘ آخری دفعہ سمجھو ۔ میں نے کہا‘ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ۔ بولے‘ آزما لو۔ میں نے کہا یہ آپ کا پرانا طریقہ واردات ہے۔ بولے: نہیں‘ اس بار نہیں۔ کہنے لگے‘ تم سنجیدہ ہوکر بات آگے چلائو۔ بعد میں پتہ چلا‘ جس جگہ وہ چاہتے تھے‘ وہاں کئی ماہ سے پورا خاندان کوشش کر رہا تھا لیکن بات نہیں بن رہی تھی۔ سب نے مجھ سے چھپا رکھا تھا۔ گھر والوں سے کہا تھا‘ لگتا ہے روفی سے ہی کہنا پڑے گا؛ چنانچہ زندگی میں پہلی دفعہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ یار تم بات کرو۔ مجھے علم تھا کہ اب وہ سنجیدہ ہیں۔ میری بیوی کو زیادہ فکر تھی۔ ایک دن نعیم بھائی سے کہنے لگی‘ مجھے علم ہے کہ بڈھے کی چارپائی اور کسی نے نہیں رکھنی، مجھے ہی اپنے گھر رکھنا پڑے گا۔ اس جملے پر کافی دیر ہنستے رہے اور کہا‘ بڈھا بہت امیر ہو گا‘ ریٹائرمنٹ پر کافی پیسے ملیں گے، پنشن اس کے علاوہ ہو گی اور پھر آئی سرجن ہوں پریکٹس بھی کروں گا۔ میں نے کہا‘ حضرت! باقی تو ٹھیک ہے لیکن آپ نے تو عمر بھر پریکٹس نہیں کی۔ سنجیدہ ہو کر بولے‘ یار تُو جانتا ہے میں ڈاکٹر کے پروفیشن سے محبت کرتا ہوں‘ مریض دیکھنا تو بہانہ ہے۔ محبت کی قیمت کوئی دوسروں سے تھوڑی لیتا ہے۔ اکثر بہن بھائی میری وجہ سے پریشان رہتے کہ اتنی سخت رپورٹنگ کرتا ہوں‘ سخت گفتگو کرتا ہوں‘ طاقتور لوگوں کو روزانہ دشمن بناتا ہوں۔ نعیم سے کہتے کہ آپ ہی روفی کو سمجھائیں۔ بے فکر ہو کر کہتے‘ ہرگز نہیں‘ وہ اگر اس طرح نہیں کرے گا تو میں اس سے ناراض ہوں گا۔ اس کا یہ کام ہے۔ تم لوگ اسے بزدل مت بنائو۔ ہم سب ایسے ہی جیے ہیں اور ایسے ہی جئیں گے۔ میں بہن بھائیوں کی نصیحتوں سے چڑ جاتا تو کہتے‘ یار تم اپنا کام جاری رکھو ۔ یہ تم سے پیار کرتے ہیں، اس لیے پریشان رہتے ہیں۔ میرے پاس اسلام آباد خوش خوش آئے لیکن انہی دنوں لاہور میں پاکستان کے ٹاپ آئی سرجن علی حیدر اور ان کے بیٹے کے قتل نے انہیں مرجھا دیا۔ مجھ سے بار بار ایک ہی بات کہتے‘ یار روفی تمہیں اندازہ نہیں‘ ہم آئی سرجنز کا کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے۔ زندگی میں بہت صدمے آئے لیکن میں نے انہیں اتنا غم زدہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک بہادر انسان تھے۔ علی حیدر اور ان کے بیٹے کی موت پر ان کی آنکھوں میں اترتی نمی دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ بیس برس قبل آخری بار وہ میرے گلے لگ کر اماں کی وفات پر دھاڑیں مار کر روئے تھے یا پھر آج ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کے لیے ان کی آنکھیں بھیگی ہیں۔ میں ان کا دھیان بٹانے کے لیے واک پر لے گیا۔کافی دیر تک ڈاکٹر علی حیدر کی باتیں کرتے رہے۔ بولے تم اس پر کالم لکھو‘ اس ڈاکٹر کے بہیمانہ قتل سے ہم آنکھوں کے ڈاکٹروں کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ علی حیدر تو ہمارے خراب کیے ہوئے آپریشن درست کرتے تھے۔ وہ ایک ڈاکٹر نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے۔ ڈاکٹر حیدر نے انہیں لاہور میں وقت دیا تھا اور ایف سی پی ایس انٹرویو کی تیاری کرائی تھی۔ نعیم کی زندگی کا ایک ہی جنوں تھا کہ وہ ایف سی پی ایس پارٹ ٹو کلیر کریں۔ برسوں وہ تھیوری پاس کرتے رہے اور ہر دفعہ ایک نمبر کم کر کے انٹرویو میں فیل کر دیا جاتا۔ ان کے پروفیسر حیران کہ کیسے ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا یہاں بھی برادری، تعلقات اور دوستیاں اور علاقہ داری چلتی ہے۔ بولے نہیں یار ایسے نہیں ہوتا۔ آخری دفعہ صرف ایک نمبر سے رہ گئے تو پہلی دفعہ ایک سندھی ڈاکٹر کا نام لے کر بولے‘ اس نے اس دفعہ جان بوجھ کر زیادتی کی ہے اور اسے دوسرے پروفیسرز نے بھی کہا کہ تم ذاتیات پر اتر آئے ہو۔ آخری بار انٹرویو کی تیاری کے لیے لاہور گئے اور علی حیدر کے ساتھ کام کیا۔ واپس بہاولپور جانے لگے تو علی حیدر سے پوچھا‘ مجھے ہر دفعہ ایک نمبر سے کیوں فیل کر دیا جاتا ہے؟ علی حیدر نے کہا‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم بہت کچھ جانتے ہو اور تم انہیں وہ بتاتے ہو جن کا علم انہیں خود بھی نہیں ہوتا۔ تم انٹرویو کے وقت ان پروفیسرز کو اتنا بتایا کرو جتنا انہیں آتا ہے۔ دیکھنا‘ تم پاس ہو جائو گے۔ کچھ پروفیسر ڈاکٹر ایسے بھی ہوتے ہیں‘ جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان سے زیادہ جانتا ہے تو ان میں حسد ابھرتا ہے اور تم اس حسد کا شکار ہو جاتے ہو۔ علی حیدر کے مقتول بچے کا ٹی وی پر فوٹو دیکھ کر کہنے لگے‘ یہ بچہ کبھی کبھار وہاں آجاتا تھا اور وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے۔ بولے‘ یار روفی تمہیں ایک بات تو بتائی ہی نہیں۔ میں نے بہاولپور اور احمد پور شرقیہ سے چار خواتین کو اپنے خرچ پر لاہور بلوایا تھا جن کے منہ پر تیزاب ڈال کر آنکھیں ختم کر دی گئی تھیں۔ علی حیدر سے سیکھ کر ان چاروں کا کامیاب آپریشن کیا تھا اور اب واپس وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور جا کر مزید آپریشن خود کروں گا اور تیزاب سے جلنے والی اس مظلوم مخلوق کی بینائی واپس لائوں گا۔ بدھ کا روز تھا ۔ بولے یار روفی تم ڈاکٹر علی حیدر پر کالم لکھو۔ میں نے کہا: اچھا اتوار کے اخبار میں لکھ دوں گا۔ ضد کی اور کہا یار دیر ہو جائے گی۔ میں بولا‘ اچھا صبح لکھتا ہوں اور جمعہ کے اخبار میں چھپ جائے گا۔ اگلی صبح (جمعرات کو) ان کی میت ایمبولینس میں ڈال کر گائوں جا رہا تھا۔ قبرستان میں ان کی قبر کے کنارے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ وہ چائے، سگریٹ، عظیم فرانسیسی ادیب بالزاک اور لاطینی امریکہ کے گارشیا کے ناولوں کے بغیر اپنا وقت کیسے گزارتے ہوں گے۔ قبرستان کی سرد اور اداس شام قبر سے ٹیک لگائے جدید سرائیکی شاعری کے بڑے شاعر اشو لال فقیر کی نظم یاد آئی جو ڈاکٹر محسن قادر نے مجھے سنائی تھی: مرنڑ دا ڈُکھ نیں اصل ڈکھ وچھوڑے دا اے جیکر کہیں ان چتی اگوں اساں ساریاں ہکے ڈیہنہ جے مرنا ہوندا اج مر ویندے! (دکھ مرنے کا نہیں بلکہ جدائی کا ہے۔ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ہم سب نے ایک دن ہی مرنا ہے تو آج سب اکٹھے مر جاتے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں