اپنے پچھلے کالم میں اپنے پسندیدہ اداکار ٹام ہارڈی کی فلم کا نام غلطی سےOutlaw لکھ بیٹھا حالانکہ وہ Lawless ہے۔ کچھ قارئین نے اس غلطی کی طرف توجہ دلوائی ہے۔ ان سب کا شکریہ۔ ویسے اگر ایک لفظ میں پاکستان کی موجودہ حالت کو بیان کرنا ہو تو کیا یہ لفظ Lawless نہیں ہوگا؟ کیا اس ریاست کا حال بھی اس فلمی کہانی کی طرح نہیں ہوچکا جہاں لاقانونیت اپنے عروج پر ہے اور سب لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ کراچی کی حد تک بہادر پولیس افسر شاہد حیات نے کچھ امیدیں جگائی ہیں کہ ابھی بھی کوئی افسر شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی جان پر کھیل جانے کو تیار ہے۔ صحافت میں اپنے بیس برس میں لا تعداد پولیس افسروں سے ملا۔ سوچتا ہوں ان میں سے کتنوں نے متاثر کیا۔ ایک نام ذہن میں آرہا ہے۔ ایک خوبصورت پولیس افسر اشرف مارتھ سے ایک دفعہ ملتان میں ملا تھا جب میں وہاں رپورٹنگ کرتا تھا اور وہ وہاں ایس ایس پی تھے۔ یہ شاید 1997-98ء کی بات ہے۔ کسی معاملے پر ایک پولیس والے سے شکایت پیدا ہوئی تو ان سے ملنے گیا۔ عزت سے بٹھایا اور پوری بات سنی۔ دل کئی دن تک شاد رہا۔ کچھ دن بعد اشرف مارتھ کو مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں نے ملتان میں دن دیہاڑے قتل کر دیا۔ اس وقت سے اب تک دل میں اشرف مارتھ کا دکھ محسوس کرتا ہوں حالانکہ مشکل سے پانچ منٹ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اشرف مار تھ جیسے افسر بہت کم ہوتے ہیں جو اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر کے اپنے بچوں کو یتیم کر جاتے ہیں۔ پشاور کے پولیس افسر غیور کی بھی ملتی جلتی کہانی تھی۔ ایک بہادر پولیس افسر جس نے بزدلی پر موت کو ترجیح دی۔ اشرف مارتھ اگر فرقہ واریت پھیلانے والوں سے لڑ رہا تھا تو غیور طالبان سے نبرد آزما تھا۔ پشاور کا غیور بیٹا لڑتے لڑتے مرگیا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے کہ کچھ انسانوں کے نزدیک اپنا فرض اور اپنی انا زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ غیور نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ اب ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات نے امید جگائی ہے کہ شاید وہ کراچی کو ایسے کنٹرول کر لیں جیسے کبھی نیویارک کو کیا گیا تھا۔ کچھ سرپھرے کردار ہی معاشرے کو زندہ رکھتے ہیں۔ شعیب سڈل پہلے ہی نام کما چکے ہیں۔ تو پھر سیاستدان کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی حلال اور محنت کی کمائی میں سے ٹیکس اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ان پیسوں سے بال بچوں سمیت عیاشی کریں؟کیا یہ درست نہیں کہ پورا معاشرہ ہائی جیک ہوگیا ہے؟ ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ پڑھ کر ششدر رہ گیا کہ کیسے دوردراز سے اب افغانی اور دیگر لوگ پنڈی اور اسلام آباد کو گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے ہیں اور کسی دن وہ پورے شہر کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ سب کہتے ہیں کہ پنڈی کو آگ پہاڑوں سے آنے والوں نے لگائی۔ بہارہ کہو کا قصبہ ایک اور لیاری بنتا جا رہا ہے اور سب خاموش ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ جس روز پنڈی میں کرفیو نافذ تھا اسی دن ہمارے محترم وزیراعظم غیر ملکی سرمایہ کاروں کے وفد کو سری لنکا میں بتا رہے تھے کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے دنیا کا بہترین ملک ہے۔ شکر ہے کسی نے پوچھ نہیں لیا کہ آپ اور سابق حکمران اپنا سرمایہ واپس کیوں نہیں لاتے؟ اسی سری لنکا میں نادرا نے ساٹھ کروڑ روپے کا کنٹریکٹ بھارتی کمپنیوں کو ہرا کر جیتا لیکن چوہدری نثار علی خان نے چیئرمین نادرا طارق ملک کو اس کنٹریکٹ پر دستخط کرنے کے لیے وہاں جانے کی اجازت نہ دی۔ وجہ بیان کی گئی کہ انہوں نے افسران کے بیرون ملک دوروں پر بین لگا رکھا ہے کہ اس سے پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔ یوں بارہ لاکھ روپے بچا کر ساٹھ کروڑ روپے کا کنٹریکٹ ضائع کردیا۔ یہ وہی حساب ہے کہ بندہ چھت سے گر کر مرگیا ہے لیکن شکر ہے آنکھ بچ گئی۔ شکر ہے بارہ لاکھ بچ گئے، ساٹھ کروڑ کا کیا ہے آئی ایم ایف سے لے لیں گے۔ وگرنہ ورلڈ بنک تو موجود ہی ہے۔ اور سنیں‘ اقوام متحدہ کی ایک ٹیم 2011ء میں پاکستان آئی تھی۔ ایک ماہ لگا کر تین سو سے زیادہ پولیس افسران اور اہلکاروں کو بیرون ملک اپنے مشن پر تعینات کرنے کے لیے انٹرویوز کیے اور ایک فہرست وزارت داخلہ کو دی کہ دو سال کے اندر اندر این او سی دے کر انہیں 27 اکتوبر 2013ء تک بھجوا دیں ۔ ان فائلوں کو دیکھا ہی نہ گیا اور اب ایک سو سے زیادہ افسران این او سی نہ ملنے کے سبب نہیں جا سکے۔اقوام متحدہ اب بنگلہ دیش سے افسران لے رہا ہے۔ کبھی اقوام متحدہ پاکستان سے سب سے زیادہ پولیس اہلکار او ر افسران کو ترجیح دیتا تھا اور ہمارا عالمی برادری میں دوسرا نمبر تھا۔ آج حکمرانوں کی مہربانی سے ہم ساتویں نمبر پر چلے گئے ہیں اور اب بنگلہ دیش کا نمبر پہلا ہو گیا ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ ریاست خود سے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور الٹا ان مذہبی شدت پسندوں کی منتیں کر رہی ہے تو وہ ریاست پر کیا ایمان رکھیں گے؟ یہی سوال میں نے وزیرقانون رانا ثناء اللہ سے اپنے مارننگ ٹی وی شو میں کیا کہ کیا انہیں نہیں لگتا کہ سیاستدان بڑی تیزی سے عوام کے نزدیک اپنی رہی سہی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں اور اب ان طاقتور دہشت گردوں اور ان کے سیاسی نعرے مارتے حامیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے اور سیاستدان ہر واقعہ کے بعد محض منتیں ترلے کرنے کے لیے رہ گئے ہیں؟ لوگ لٹتے رہیں، قتل ہوتے رہیں، آگ میں جلتے رہیں، ریاست کہیں نظر نہیں آئے گی۔ گوجرہ میں عیسائی بچوں اور عورتوں کو جلایا گیا تو بھی ریاست غائب تھی۔ جس پولیس افسر کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی الٹا اسے ترقی دے کر لاہور میں اعلیٰ پوزیشن پر تعینات کر دیا گیا۔ لاہور شہر میں ہی عیسائیوں کی ایک اور بستی جلائی گئی اور کوئی ایک پولیس افسر ان کی جانیں اور گھر بچانے نہ نکلا۔ اور اب پنڈی میں چار گھنٹے تک لوگوں کو مارا گیا، خون کی ہولی کھیلی گئی تو بھی پولیس اور ریاست غائب رہی۔ کامران شاہد کے ٹاک شو میں اپنے دوست کے جواب میں کہہ دیا کہ اب کیا بچ گیا ہے جس کے لیے لوگوں کو قتل کرایا جا رہا ہے۔ ایک ہی دفعہ طالبان سے مذاکرات کریں اور انہیں حکومت دے دیں تاکہ یہ قتل و غارت بند ہو۔ ہو سکتا ہے کہ طالبان ان بنکرز میں قید یا غیر ملکی دوروں میں مصروف حکمرانوں اور کرپٹ اور نااہل بیوروکریسی سے بہتر حکومت چلا لیں جیسے کبھی نیویارک میں جرائم پر قابو پانے کے لیے مجرموں کو ہی بھرتی کر لیا گیا تھا اور یہ تجربہ کامیاب رہا تھا۔ آخر صدیو ں سے زہر کا علاج زہر سے ہی کیا جاتا رہا ہے!