"RKC" (space) message & send to 7575

جس دن خواب ٹوٹتے ہیں !

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستانی ایک محنتی اور بہت قابل قوم ہے لیکن اسے اپنا ہنر دکھانے کا موقع نہیں ملا ۔ ٹیلنٹ بہت ہے لیکن اس کا نکھار نہیں ہوپارہا۔ 
پچھلے دنوں کچھ لکھے پڑھے نوجوانوں سے واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ ہم کتنی تیزی سے علم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ڈگریاں بہت ہیں لیکن شعور اور حساسیت غائب ہوچکی ہے۔ ایک مہربان نے اپنے ایک جاننے والے کو میرے پاس بھیجا کہ اسے کہیں ملازمت دلا دوں۔ میں ان میں سے ہوں جو ایک نہ سو سکھ پر یقین رکھتے ہوئے بھی روزانہ ہاں کر بیٹھتے ہیں اور پھر جو مسائل سامنے آتے ہیں ان کو بھگتتے رہتے ہیں ۔ اس نوجوان نے قائد اعظم یونیورسٹی سے انتھراپولوجی میں ماسٹر کیا ہے۔ میں بڑا متاثر ہوا کہ ہمارے علاقے کے لوگوں نے بھی جدید مضامین میں پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے اس کا سی وی لیا اور پڑھنے لگا۔ ایک جگہ رک گیا جہاں اس نے اپنے مشغلے میں لکھا تھا کہ اسے کتابیں پڑھنے کا بھی شوق ہے۔ میں نے پوچھا کہ کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟ اس نے اسلامیات اور اس طرح کی چند اور مذہبی کتابوں کا نام لیا ۔ میں نے کہا وہ تو ہم سب نے پڑھ رکھی ہیں اور پڑھنی چاہئیں کیونکہ ہمارے مذہب اور ایمان کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ کیا پڑھا ہے؟ اس نے میری طرف دیکھا اور کہا‘ بس یہی کچھ پڑھا ہے۔ میں حیرانی سے اُسے دیکھتا رہا ۔
ملتان سے ایک دن میرے دوست ظفر آہیر کا فون آیا۔ کہنے لگا کہ تمہارے ہی علاقے کا لڑکا ہے۔ اس نے دو دفعہ سی ایس ایس میں بہت اچھے نمبر لیے ہیں لیکن ہر دفعہ اسے انٹرویو میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ میں نے کہا اسے کہو مجھ سے بات کر ے۔ اس نوجوان نے ایک طویل ٹیکسٹ میسج مجھے بھیجا جو رومن میں تھا۔ میں نے ظفر کو کہا اپنے دوست کو کہو کہ اس طرح وہ کبھی آگے نہیں جا سکے گا کیونکہ یہاں انگریزی زبان کے بغیر بات نہیں بنے گی اور اسے انگریزی نہیں آتی۔ میں حیران ہوں کہ وہ کیسے تحریری امتحان میں پاس ہوگیا۔ یقینا رٹے کی مہربانی ہوگی جو ہم سب کو بچپن سے سکھایا جاتا ہے۔ 
اکثر مجھے اس طرح کے تجربات ہوتے رہتے ہیں جب ہمارے علاقے کے لوگ تحریری امتحان میں اچھے نمبر لے لیتے ہیں لیکن انٹرویو میں فیل ہوتے ہیں اور اس لیے بیوروکریسی میں جگہ نہیں بنا سکتے۔ اب جب سے سی ایس ایس کا نتیجہ سامنے آیا تو پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے نوجوان کتنے پانی میں ہیں اور ہمارا بوگس تعلیمی نظام کس قدر ناکارہ ہوچکا ہے جہاں رٹے لگا کر نوجوان ٹاپ کر لیتے ہیں لیکن مقابلے کی بات آجائے تو تحریری امتحان تک پاس نہیں کر سکتے۔ 
گیارہ ہزار امیدواروں میں سے صرف 238 نے تحریری امتحان پاس کیا ہے اور ابھی انٹرویو ہونے باقی ہیں ۔ باقی کے ساڑھے دس ہزار سے زیادہ بی اے اور ایم اے کیے ہوئے لڑکے لڑکیاں بری طرح فیل ہوئے ہیں ۔ یہ وہ نظام ہے جس میں میٹرک یا ایف ایسی سی ٹاپ کرنے والے پر انعامات کی بارش ہوتی ہے اور اسے گارڈ آف آنر ملتا ہے اور یورپ کی سیر الگ سے۔ 
ابھی فیڈرل پبلک سروس کمشن نے اپنی سالانہ رپورٹ تیار کی ہے۔ وہ رپورٹ کسی وقت آپ کے ساتھ شیئر کروں گا تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہماری نوجوان نسل کا کیا حشر ہوچکا ہے۔ جنرل نالج نام کی چیز انہیں چھو کر نہیں گزری ۔ میں نے بہت کم نوجوانوں کے ہاتھ میں کوئی ناول، کتاب دیکھی ہوگی۔ ایک اور جنون جو ہماری نئی نسلوں پر سوار ہے وہ ڈاکٹر بننے کا ہے۔ کسی دور میں ایف ایس سی میں ساڑھے پانچ سو سے چھ سو تک نمبر لینے والے کا میڈیکل میں داخلہ ہوجاتا تھا۔ اب تو بات ساڑھے نوسو نمبرز لے کر بھی نہیں بن رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کا سیلاب آگیا ہے۔ اللہ بھلا کرے ڈاکٹر عاصم حسین کا جنہوںنے پٹرولیم وزارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میڈیکل ڈینٹل کالج پر بھی قبضہ جمایا۔ زرداری صاحب کی ہمشیرہ کو بھی اس میں ایک اعلیٰ عہدہ دیا اور پھر چل سو چل۔ جتنے پرائیویٹ میڈیکل کالج پچھلے پانچ برسوں میں ڈاکٹر عاصم حسین نے کھولے ہیں وہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے لیکن طالبعلم ہیں کہ پھر بھی ان کالجوں میں پورے نہیں پڑرہے۔ 
میڈیکل کالجوں نے لوٹ مار کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہر والد سے کہا جاتا ہے کہ اگر ان کا بچہ میرٹ پر نہیں آسکا کوئی بات نہیں۔ آپ بیس لاکھ روپے کا عطیہ دیں اور بچہ داخل کرالیں۔ میرے اپنے بڑے بھائی اس کشمکش کا شکار ہیں۔ وہ کئی دنوں سے میرے پاس اسلام آباد میں ہیں۔ ان کی بیٹی نے بھی ایف ایس سی میں بڑے اچھے نمبر لیے لیکن ٹیسٹ میں کچھ زیادہ نمبر نہ لے سکی۔ ہر صورت بیٹی کو ڈاکٹر بنانا ہے۔ وہ عمر بھر کی جمع پونجی بیٹی کے مستقبل پر لگانے کو تیار ہیں۔ اب وہ بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ جو پیسے بیٹی کو ڈاکٹر بنانے کے لیے جمع کیے ہیں ان میں سے آدھے لاہور کے ایک کالج کو عطیہ دیں اور اس کا داخلہ کرالیں۔ اپنے بھائی سلیم کی بے بسی محسوس کر کے سوچ رہا ہوں‘ میرے اپنے بچے اس سٹیج پر نہیں پہنچے شاید اس لیے مجھے وہ تڑپ محسوس نہیں ہورہی جو میرے بھائی کو اپنی بیٹی کے لیے محسوس ہورہی ہے۔ میں نالائق ان کی کوئی مدد نہیں کر سکا کہ کسی سے درخواست کر کے ان کی بیٹی کا کہیں داخلہ ہی کرا دیتا۔ مجھے احساس ہے کہ انہوں نے ساری عمرایمانداری سے بنک کی نوکری کی اور ریٹائرمنٹ پر جو کچھ ملا، وہ اب بیٹی کو ڈاکٹر بنانے پر خرچ کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔ میں نے کوشش کی کہ ان سے بات کی جائے کہ کیا ڈاکٹر بننا ہی زندگی ہے؛ تاہم یہ سوچ کر چپ رہا کہ اگر ان کی مدد نہیں کر سکتا تو بہتر ہوگا کہ انہیں مشورے بھی نہ دوں ۔ 
اپنے بھائی جیسے دیگر ہزاروں والدین کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کے جنون سے یاد آیا کہ جس بھارتی ہدایت کار نے دو ہٹ فلمیں ''منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ اور ''تھری ایڈیٹس‘‘ بنائی تھیں، وہ بھی کبھی ڈاکٹر اور انجینئر بننا چاہتا تھا۔ نہ بن سکا تو اس نے سوچا کہ کیا ہوا‘ اگر وہ اصل میں ڈاکٹر یا انجینئر نہ بن سکا‘ اس نے بھارت میں دو فلمیں بنائیں‘ ایک ڈاکٹر اور ایک انجینئر کی زندگی پر تھی اور ان فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا ۔ 
اپنے بھائی سلیم کی بے بسی اور انہیں اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے پریشان دیکھ کر میں بھی اداس اور پریشان ہوں اور سردیوں کی اداس کردینے والی دھوپ میں خاموش بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا ہماری زندگی اس دن ختم ہوجاتی ہے جس دن ہم کوئی اپنا پہلا بڑا خواب نہیں پا سکتے؟ یا اس دن ہی دراصل ہماری زندگی کی نئی اور اصل کہانی شروع ہوتی ہے جس دن ہمارا پہلا بڑا خواب ٹوٹ کر بکھرتا ہے !! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں