ارادہ تھا کہ پاکستان ٹوٹنے پر دنیا کیا کہتی ہے، پر ایک طویل سیریز کا آغاز کیا جائے لیکن کیا کریں جنرل مشرف درمیان میں ٹپک پڑے ہیں ۔
جنرل مشرف جب سے پاکستان لوٹے ہیں انہوں نے پہلی بار اپنے اسلام آباد کے فارم ہائوس پر غیر ملکی صحافیوںکو بلا کر ان سے کھل کر باتیں کی ہیں ۔ جنرل مشرف ہمیشہ کھل کر ہی باتیں کرتے ہیں ۔ ان کے اندر کا کمانڈو ابھی موجود ہے جو ان پر ہر وقت حاوی رہتا ہے۔ میری طرح وہ بھی بولتے پہلے اور سوچتے بعد میں ہیں اور اس کا خمیازہ نہ صرف وہ خود بھگت چکے ہیں بلکہ اس کی بھاری قیمت پاکستان بھی ادا کر چکا ہے۔
آج تک بلوچستان ان کے اس بیان سے باہر نہیں نکل سکا کہ بلوچوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ 1971ء کی دنیا میں نہیں رہ رہے جب وہ پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے۔ اب کی دفعہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ انہیں کس چیز نے ہٹ کیا ہے۔ اس کے بعد اکبر بگٹی مارے گئے۔بلوچوں کو پتہ چلا ہو یا نہ چلا ہو لیکن پورے پاکستان کو علم ہو گیا کہ وہ کس چیز سے ہٹ ہوئے۔
اب جوانہوں نے اپنے فارم ہائوس پر غیرملکی میڈیا سے گفتگو کی ہے‘ اسے سن کر نہیں لگتا کہ انہوں نے ماضی سے کچھ سیکھا ہے۔ جنرل کیانی سے وہ مایوس ہیں ( جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے یہ بیان نہیں دیا) کہ انہوں نے اپنے سابق باس کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ تاہم اپنے غیر ملکی ہمدردوں کی طرف سے حمایت اور سب سے بڑھ کر فوج کے ان کے پیچھے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی نوید بھی سنائی ۔
جنرل مشرف کی گفتگو سے یاد آیا کہ بھارت کے سابق وزیرخارجہ جسونت سنگھ کی نئی کتاب Indian at Risk میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ کیسے آگرہ میں ہونے والے اہم مذاکرات ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر ہی جنرل مشرف کی بھارتی صحافیوں سے ناشتے کی میز پر کی گئی تندو تیز گفتگو نے پاک بھارت دوستی کو کئی برس پیچھے دھکیل دیا تھا۔ یوں جو ایک موقع ان دونوں ملکوں اور ان کے عوام کو ملا تھا وہ ناشتے کی میز پر ہمارے کمانڈو نے یہ سوچ کر ختم کر دیا کہ دونوں ملکوں میں مذاکرات ہوتے ہی رہیں گے‘ اتنی جلدی کیا ہے، پہلے ذرا بھارتی صحافیوں کو کھری کھری سنا لیں ۔ جنرل مشرف کے دل کا بوجھ یقینا ان صحافیوں کو ان کے وطن میں بیٹھ کر کھری کھری سنانے سے کم ہوا ہوگا جو کارگل جنگ کے بار بار ریفرنس کی وجہ سے بڑھ رہا تھا‘ تاہم دونوں ملکوں کے درمیان جو ایک اہم موقع پیدا ہوا تھا وہ پھر نہ مل سکا ۔
پاکستانی سیاستدان نہ کتابیں لکھتے ہیں اور نہ پڑھتے ہیں‘ لہٰذا پاکستان کے بارے میں سچ جاننے کے لیے غیرملکی سیاستدانوںاور افسران کی کتابیں ہی پڑھنا پڑتی ہیں ۔ جسونت سنگھ ان لیڈروں میں سے ہیں جو کسی حد تک غیرجانبداری سے لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس سے پہلے انہوں نے قائداعظم پر بھی ایک کتاب لکھی تھی جسے بھارت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور علمی، سیاسی اور صحافیانہ حلقوں کی عزت کے حقدار ٹھہرے۔
اب ان کی نئی کتاب بھی بہت اہم ہے۔ اس میں جسونت سنگھ لکھتے ہیں کہ 1999ء کے شروع میں لاہور بس سفر کے بعد کارگل جنگ، قندھار میں بھارتی طیارہ کے اغواء اور بھارت میں حملوں کے باوجود وزیراعظم واجپائی نے 23 مئی 2001ء کو ایک میٹنگ بلائی جس میں ان (جسونت سنگھ) کے علاوہ ڈپٹی وزیراعظم ایل کے ایڈوانی شریک تھے۔ اس لنچ میٹنگ میں طویل بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کا سلسلہ جوڑا جائے جو کارگل کے واقعے کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ جموں کشمیر کا کیا حل نکالا جائے۔ اس وقت کچھ اہم فیصلے کیے گئے جن میں سب سے اہم یہ تھا کہ جنرل مشرف کو بھارت کے دورے کی دعوت دی جائے اور یوں 14جولائی 2001ء کو آگرہ میں جنرل مشرف کے واجپائی سے مذاکرات طے پائے۔ آگرہ آنے سے پہلے جنرل مشرف ملک کے صدر بن گئے۔ اس کے بعد بھارتی کابینہ کی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا جس میں جنرل مشرف کو دعوت دینے کی باقاعدہ اجازت دی گئی اور اگلے روز جنرل مشرف کو ایک خط بھیج دیا گیا۔ سوچا گیا کہ مشرف کو بھارت کے خوبصورت ساحلی شہر گوا میں ٹھہرایا جائے جہاں مون سون کی بارشیں اس موسم میں ہوتی ہیں اور دہلی کے شورشرابے سے دور مذاکرات کے لیے بہترین فضا ہوگی۔ جسونت سنگھ کا خیال تھا کہ راجستھان ریاست بہتر رہے گی۔ تاہم جنرل مشرف نے خود ہی ان کی مشکل آسان کر دی کہ وہ دہلی لینڈ کریں گے کیونکہ وہ اپنی حویلی جانا چاہتے تھے۔ بھارتی میزبانوں نے پاکستانی مہمان کی خواہش کا احترام کرنا مناسب سمجھا۔
جنرل مشرف کے آگرہ جانے سے پہلے جسونت سنگھ نے وزیراعظم واجپائی کی اجازت سے چند ایسے اقدامات کیے‘ جن سے دونوں ملکوں کے عوام میں اچھے جذبات پیدا ہوں۔ سوچا گیا کہ پاکستان کو فنی تعلیم کی ضرورت ہے لہٰذا اس شعبے میں ہر سال بیس پاکستانیوں کو سکالرشپ دیا جائے۔ پاکستانی شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کو بھارت کے دورے کی دعوت دی جائے جو بھارتی حکومت کے مہمان ہوں گے۔ پاکستانی سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے طلباء و طالبات کو بھارت کے ایک ماہ کے دورے کی دعوت دی جائے۔ پاکستانی ماہی گیروں کے لیے بھی رعایت کا اعلان کیا گیا کہ آئندہ انہیں گرفتار کرنے کی بجائے وارننگ دے کر واپس پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ واجپائی نے وزارت داخلہ کو حکم دیا کہ وہ بھارتی جیلوں میں قید پاکستانیوں کو ان کے وطن بھیج دیں۔ وزارتِ تجارت کو ہدایت کی گئی کہ پاکستانی اشیاء پر ٹیکس اور ٹیرف کم کریں تاکہ پاکستانی تاجر بھارتی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پاکستانی شہریوں کو ویزے میں زیادہ آسانیاں دی جائیں۔ کشمیر اور ایل او سی کے حوالے سے بھی کچھ فیصلے کیے گئے۔
اب انتظار ہورہا تھا کہ جنرل مشرف آگرہ تشریف لائیں تو ان تمام معاملات کو فائنل شکل دی جائے۔ جنرل مشرف کے آگرہ پہنچنے سے قبل ہی سرحد پر بھارتی اور پاکستانی فوجوں کے درمیان ایک دفعہ پھر گولہ باری کا تبادلہ ہوا ۔ تاہم فارن منسٹر جسونت سنگھ نے اس واقعے کو اس اہم دورے پر حاوی نہ ہونے دیا۔ جب مشرف پہلے دن دہلی پہنچے تو میڈیا کے پاس رپورٹ کرنے کے لیے کچھ خاص نہیں تھا ۔ اس لیے تمام اخبارات جنرل مشرف کی باڈی لینگوئج پر ہی اپنے کالم سیاہ کر رہے تھے یا ٹی وی چینلز پر بات ہورہی تھی کہ واجپائی اور مشرف نے ایک دوسرے سے ہاتھ کیسے ملائے۔ ہر قسم کی افواہیں جاری تھیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کیا بات چیت ہوگی۔ ایک اخبار نے لکھا کہ پہلے دن کی ملاقات سے دونوں ملکوں کے درمیان فضا بہتر بنانے میں مدد ملی۔ ایک اور اخبار نے لکھا کہ اب شاید دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات ہوسکتے ہیں۔ ایک دور کی کوڑی لایا کہ جب واجپائی اور جنرل مشرف کی ملاقات ہوئی تو دونوں بہت ٹینس لگ رہے تھے اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ۔ تاہم اس اخبار نے اپنے قارئین کو یہ بھی خوشخبری سنائی کہ دوپہر کے کھانے تک دونوں لیڈروں کے درمیان ماحول خوشگوار ہوچکا تھا؛ چنانچہ اب مذاکرات کامیاب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایک اخبار نے لکھا کہ جنرل مشرف نے جو ہاتھ واجپائی سے ملایا اس میں گرم جوشی کی کمی تھی۔ جنرل مشرف کی ذات کے بارے میں بھی کئی اندازے لگائے گئے کہ وہ ایک پُراعتماد چیف ایگزیکٹو ہیں، ایک پُرعزم جنرل، اپنے امیج کے بارے میں احتیاط پسند اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اپنی سخت گفتگو کو کیسے بیچنا ہے۔(جاری)