"RKC" (space) message & send to 7575

آگرہ سے فارم ہائوس تک …(2)

16 جولائی 2001 ء کو آگرہ میں میلہ سج گیا تھا ۔
پاکستانی وزیرخارجہ عبدالستار اپنے بھارتی ہم منصب جسونت سنگھ کے ساتھ ڈرافٹ پر کام کر رہے تھے جو واجپائی، مشرف ملاقات کے بعد دنیا کے سامنے لایا جانا تھا ۔ تاہم اس دوران جس بات نے پورے بھارت کو چونکا دیا وہ خلاف توقع جنرل مشرف کی بھارتی ایڈیٹروں سے ناشتے پر کی گئی بات چیت تھی۔ 16جولائی کی صبح گفتگو کو باقاعدہ ویڈیو کیمرہ پر ریکارڈ کیا گیا اور ایک بھارتی چینل نے چلایا ۔جب بھارت نے پاکستان سے احتجاج کیا کہ جنرل مشرف نے غیرتحریری کوڈ کی خلاف ورزی کی ہے اور ایسے اہم موقعوں پر میڈیا سے کیمرہ پر گفتگو نہیں کی جاتی تو پاکستان کی طرف سے جواب ملا کہ یہ قصور بھارتی چینل کا تھا‘ نہ کہ جنرل مشرف کا ۔ جونہی بھارتی چینل پر جنرل مشرف کی جارحانہ گفتگو چلنا شروع ہوئی تو پورے بھارت میں شدید ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ۔ میڈیا سے کی گئی گفتگو نے بھارتی حکومت کے لیے مشترکہ اعلامیہ کے ڈرافٹ پر کام کو مشکل بنادیا۔ شاید بھارتی میڈیا کو سامنے دیکھ کر جنرل مشرف ترنگ میں آ گئے اور وہ سب کچھ کہہ دیا جو اس موقع کی مناسبت سے درست نہیں تھا۔ 
جب ان کے سامنے دہشت گردی کا معاملہ رکھا گیا تو انہوں نے کہا کہ دہشت گردی بھی کوئی ایشو تھا جس پر بھارت اور پاکستان کو بات کرنی چاہیے تھی؟ وہ صرف کشمیر پر بات کرنا چاہتے تھے۔ کارگل جنگ میں اپنے کردار سے انکاری ہوئے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ بھٹو اندرا گاندھی شملہ معاہدے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے؛ چنانچہ واجپائی اور جنرل مشرف کی کانفرنس میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی مگر جنرل مشرف اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں تھے‘ حالانکہ کارگل کی وجہ سے کتنا بڑا نقصان ہوا تھا پھر بھی واجپائی پاکستان کو ایک نیا سفر شروع کرنے کی پیشکش کر رہے تھے۔ تاہم جنرل مشرف ایک فاتح جنرل کی طرح پاکستان لوٹنا چاہتے تھے تاکہ پاکستانیوں کو بتا سکیں کہ ہم فوجی سیدھی بات کرتے ہیں اور سچا فوجی صرف نتائج حاصل کرنے پر توجہ دیتا ہے۔ 
جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں کو اس ہوٹل میں ٹھہرا گیا تھا جس کے ہر کمرے کی کھڑکی سے تاج محل نظر آتا تھا‘ اس کے باوجود جنرل مشرف کے اندر کے فوجی کا جوش و جذبہ کم نہیں ہوا تھا۔ بھارتیوں کو حیرانی تھی کہ جنرل مشرف آگرہ آنے سے پہلے مذاکرات کا ایجنڈے طے کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہے تھے حالانکہ بھارتی ہائی کمیشن اسلام آباد اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو بار بار اس بارے میں آگاہ کیا گیا تھا؛ تاہم کیونکہ ہرفیصلہ جنرل مشرف کے ہاتھ میں تھا لہٰذا پاکستانی فارن آفس بے بس تھا۔ یوں جب بھارت اور پاکستان کے حکمران آگرہ میں اکٹھے ہوئے تو دونوں کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں تھا کیونکہ جنرل مشرف نے بھارتی ایجنڈے کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی ایجنڈا نہیں دیا تھا ۔ وزیراعظم واجپائی اپنی کابینہ کے وزراء کو آگرہ لے گئے جن میں ڈپٹی وزیراعظم ایل کے ایڈوانی اور وزیراطلاعات بھی شامل تھے۔
جنرل مشرف اور واجپائی کے درمیان ملاقات میں ایل کے ایڈوانی اور جسونت سنگھ موجود تھے جب کہ پاکستان کی طرف سے جنرل مشرف‘ عبدالستار اور چند دیگر حضرات کے علاوہ سٹاف کے فوجی افسران بھی تھے۔ جنرل مشرف نے اپنی طرف سے مختلف تھیوریاں پیش کیں کہ کیسے کشمیر کا معاملہ چٹکی بجاتے حل ہوسکتا ہے اور یہ کہ پاکستان بھارت میں کوئی دہشت گردی نہیں کر رہا۔ سب کو علم تھا کہ ایسی ملاقاتیں فوجی انداز میں نہیں ہوتیں ۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ جسونت سنگھ اور عبدالستار بیٹھ کر مشترکہ اعلامیہ لکھنے کی کوشش کریں۔ ڈرافٹ لکھنے کے دوران انکشاف ہوا کہ جنرل مشرف اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ دوپہر تک اس پر راضی ہوا جائے تاکہ وہ اجمیر میں غریب نواز خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ سے ہوتے ہوئے پاکستان چلے جائیں ۔ تاہم جنرل مشرف اور ان کی ٹیم پورے معاملے کی حساسیت کو نہیں سمجھ پارہے تھے کہ بھارتی عوام کے ذہنوں اور میڈیا میں جنرل مشرف کی ناشتے پر کی گئی گفتگو کا کیا اثر ہوا تھا ۔ جنرل مشرف نے مختلف مسائل حل کرنے کے لیے جو اپنے تھیسیز پیش کیے تھے ان پر بھارتیوں کو اعتراضات تھے مگر وہ انہیں بھی سمجھنے کو تیار نہیں تھے۔ 
جسونت سنگھ اور عبدالستار نے کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھنے کی کوشش کی۔ جب عبدالستار نے اپنا لکھا جسونت سنگھ کو دکھایا تو جسونت سنگھ نے مذاقاً کہا کہ اگر وہ اجازت دیں تو ان کی اس پنجابی انگریزی کی بجائے اصل انگریزی میں لکھا جائے! عبدالستار نے اس مذاق کو انجوائے کیا۔ دونوں ڈرافٹ پر کچھ لکھتے، دوسرا اس پر کچھ اور لکھ دیتا ، وہ پھر پنسل سے کاٹ دیتے تو پھر کچھ اور نیا لکھا جاتا ۔ یوں کافی دیر تک دونوں یہ کام کرتے رہے۔ آخر عبدالستار نے کہا کہ جنرل مشرف سے مشورہ کرنا ہوگا ۔
اس وقت تک جنرل مشرف اور واجپائی اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔ جنرل مشرف بھی اپنے ہوٹل لوٹ چکے تھے۔ عبدالستار مشرف کے کمرے میں گئے اور ڈرافٹ دکھایا جس پر چند تبدیلیاں کی گئیں۔ جسونت سنگھ نے کہا کہ اب وہ بھی کابینہ کے وزراء اور وزیراعظم واجپائی سے اس کی منظوری لے لیں۔ اس پر عبدالستار نے خوبصورت فقرہ کہا ''جسونت، میں آپ کو ایک بات بتا دوں، ہم ایک معاہدہ لکھنے پر مذاکرات کے ساتھ ساتھ پیغام رسانی بھی فرما رہے ہیں۔ اس طرح کے کاموں میں، یقین کرو، اکثر نزلہ پیغام رساںپر ہی گرتا ہے‘‘۔ 
جسونت سنگھ وہ ڈرافٹ لے کر واجپائی کے پاس گئے۔ انہوں نے اپنے کمرے میں وزراء کا اجلاس بلالیا۔ سب وزراء کا خیال تھا کہ جب تک دہشت گردی پر واضح بات نہیں ہوگی اور پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کا وعدہ نہیں کرے گا‘ دیگر ایشوز پر کیسے بات ہوسکتی ہے جو صرف پاکستان کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں۔ بھارت شملہ اور لاہور معاہدوں کو کیسے کوڑے دان میں پھینک دے۔ جسونت سنگھ نے واپس جا کر عبدالستار کو ساری بات بتائی۔ عبدالستار نے بات کو سمجھا اور بولے‘ افسوس ہے یہ سب کچھ ہوا اور کہا ''جسونت میری خواہش تھی کہ ہم کچھ کر سکتے لیکن کیا کریں ہر دفعہ پاکستان بھارت مذاکرات کا یہی انجام ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی امیدیں اس طرح دم توڑ چکی ہیں‘‘۔ جسونت سنگھ واپس چلے گئے۔ کچھ دیر بعد پاکستانی ہائی کمشنر اشرف جہانگیر قاضی جسونت سنگھ سے ملنے گئے۔ انہوں نے سیدھی بات کی کہ کیا اس مشترکہ بیان کو بچانے کا کوئی طریقہ ہے؟ جسونت سنگھ نے سر نفی میں ہلایا کہ مشکل ہے۔ قاضی صاحب نے کہا‘ کیوں نہیں ہوسکتا؟ جسونت نے جواب دیا کیونکہ کابینہ کے سب وزراء آگرہ میں موجود ہیں جو سیکورٹی کمیٹی کے بھی ممبرز ہیں۔ وہ اس پر راضی نہیں ہیں۔ جہانگیر اشرف قاضی فوراً بات سمجھ گئے کیونکہ انہیں بھارت میں رہتے ہوئے علم تھا کہ وہاں واجپائی کی کابینہ کا نظام کتنا اہم اور پراثر تھا ۔
اس کے باوجود آخری لمحے تک کوششیںجاری تھیں۔ جنرل مشرف کی روانگی میں تاخیر کر دی گئی تھی۔ جنرل نے وزیراعظم واجپائی سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پھر واجپائی سے ملنے ان کے ہوٹل گئے۔ جسونت سنگھ کو علم تھا کہ جنرل مشرف واجپائی سے مل کر غلطی کر رہے تھے اور جب ملاقات کے بعد جسونت سنگھ نے واجپائی سے پوچھا کہ جنرل سے ملاقات میں کیا بات ہوئی تھی، تو انہوں نے محض اتنا کہا کہ کچھ نہیں ۔ ہمارے مہمان جنرل صاحب مسلسل بولتے رہے اور میں چُپ چاپ سنتا رہا۔ واجپائی صاحب اس کام میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ وہ گھنٹوں کسی کو سن سکتے تھے جبکہ جنرل مشرف گھنٹوں بول سکتے تھے۔ 
اسی شام جسونت سنگھ کو پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ جنرل مشرف کو اجمیر جانے سے کس نے منع کیا تھا ۔ اس پر جسونت سنگھ نے برجستہ جواب دیا کہ سب جانتے ہیں آپ غریب نوازؒ کی درگاہ پر اسی وقت جا سکتے ہیں جب غریب نوازؒ کسی کو بلاتے ہیں اور جنرل مشرف کے لیے خواجہ غریب نوازؒ نے ابھی '' سمن‘‘ جاری نہیں کیا تھا ۔ اس جواب پر پاکستانی اور بھارتی میڈیا میں جسونت سنگھ کو خوب داد ملی۔ یہ کہانی پھر سہی کہ مشرف نے آگرہ میں جو بھارتی شرائط نہیں مانی تھیں، ان سے زیادہ 2004 ء میں واجپائی کو پاکستان بلا کر کیسے مان لی گئیں۔ 
جنرل مشرف کی اسلام آباد فارم ہائوس میں غیرملکی صحافیوں سے بات چیت کا انداز بھی اس گفتگو سے ملتا جلتا تھا جو انہوں نے 16جولائی2001 ء کو آگرہ میں بھارتی صحافیوں سے کی تھی ۔ جنرل صاحب نے جو کچھ نئے چیف جنرل راحیل، سابق چیف کیانی، فوج اور اپنے غیر ملکی دوستوں کی حمایت کے حوالے سے کہا ہے، مجھے خدشہ ہے اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو آگرہ میں بھارتی میڈیا سے گفتگو کے بعد نکلا تھا۔ لگتا ہے پاکستان پر طویل حکمرانی کے بعد پانچ برس کی جلاوطنی کے باوجود آگرہ سے لے کر اپنے فارم ہائوس تک جنرل مشرف نے کچھ نہیں سیکھا ۔ وہی غلط وقت اور غلط لفظوں کا انتخاب، وہی جارحانہ اندازِ گفتگو، وہی لمبے چوڑے دعوے اور وہی غیرملکی صحافیوں کا داد دیتا مجمع ، تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس کے نتائج آگرہ سے مختلف ہوں گے ؟ 
(نوٹ :یہ کالم سابق بھارتی وزیرخارجہ جسونت سنگھ کی نئی کتاب Indian at Risk کی مدد سے دوحصوں میں لکھا گیاہے۔ کیا امید رکھی جائے کہ عبدالستار اور جہانگیر اشرف قاضی بھی جسونت سنگھ کی طرح اپنا اپنا سچ کتابی یا کالم کی شکل میں ظاہر کریں گے؟) ( ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں