طویل درختوں کی قطار کے درمیان سڑک پر چلتی گاڑی ایک تنہا لیکن خوبصورت مکان کے سامنے جا کر رک گئی۔ ڈاکٹر عاصم صہبائی نے کہا‘ اس گھر کے اندر ترکوں کی بنائی مسجد ہے۔ آئیں آج جمعہ کی نماز یہیں پڑھتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم گاڑی سے اتر گئے لیکن مجھ سے نہ اترا گیا ۔مجھے جنگل اور صحرا کے درمیان سے گزرتی طویل خاموش سڑکیں ہمیشہ اچھی لگتی ہیں ۔ میرا جنگل اور صحرا سے باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس لیے جب بڑے عرصے بعد ڈاکٹر عاصم صہبائی کی گاڑی کچھ ایسے ہی جنگل میں سے گزری تو میں نے ایک لمحہ میں اپنے آپ کو لیہ کروڑ روڈ پر واقع قصبہ باغ کے بس سٹاپ کے قریب واقع نہر اور جنگل کے درمیان پایا۔ برسوں گزر گئے لیکن آج بھی لیہ سے کروڑ کے ہائی سکول جاتے ہوئے صبح سویرے قصبہ باغ بس سٹاپ کے بعد شروع ہونے والے چھوٹے سے جنگل کی خزاں اور بہار کے دن اور اس جنگل کے درمیان میں بہتی چھوٹی سی نہر میں گرتے درختوں کے پیلے زرد پتے‘ زمین پر نہیں بلکہ مجھے دل پر گرتے محسوس ہوتے۔ میں بھاگ کر خالی ویگن کی کھڑکی والی سیٹ پر جا بیٹھتا کہ جب یہ گاڑی جنگل سے گزرے گی تو میں زرد پتوں کو گرتے دیکھ سکوں گا ۔ اس جنگل کی تنہائی اور دور دور تک پھیلی اداسی مجھے اپنائیت کا احساس دلاتی اور یوں لگتا کہ اس کے ساتھ اپنا بہت پرانا رشتہ ہے۔
سلیم بھائی جو ان دنوں بینک میں ملازمت کرتے تھے‘ کا خیال تھا کہ مجھے کوٹ سلطان کی بجائے کروڑ کے ہائی سکول میں پڑھنا چاہیے۔ جہاں غلام حسن راں صاحب جیسے نفیس ہیڈماسٹر نے سکول کو نیا رنگ دے دیا تھا۔ پورے ضلع میں اس کا نمایاں مقام تھا۔ ایک اور عالم فاضل استاد حسن صاحب بڑی قابلیتوں کے مالک تھے۔ سکول کے باقی اساتذہ بھی محنت سے پڑھاتے ۔
اماں صبح پانچ بجے اٹھاتیں، میں ہاتھ منہ دھو کر رات کا بچا کھانا کھا کر سلیم بھائی کے ساتھ ان کے سکوٹر پر سوار ہوکر جیسل بستی سے بارہ کلومیٹر دور لیہ چل پڑتا ۔ وہاں سے پھر آگے ویگن پکڑ کر تیس کلومیٹر دور کروڑ چلا جاتا ۔ سلیم بھائی دس روپے روزانہ دیتے۔ آٹھ روپے آنے جانے کا کرایہ اور دو روپے بچ جاتے‘ جن سے‘ سکول سے چھٹی کے بعد کروڑ کے ویگن سٹینڈ پر واقع ایک دکان سے جلیبیاں خرید لیتا۔ کروڑ سکول میں پڑھائی کے دوران کئی اچھے دوست بنائے۔ شفیق غزالی (جو بعد میں اپنی ایک کزن کے عشق میں مبتلا ہو کر ''ایم اے‘‘ کہلانے لگا) اسلم صدیقی، قمر، منی، ذوالفقار سرگانی، طارق بخاری، جمعہ شیخ ، سیف اللہ بھٹی‘ ایک طویل فہرست۔ برسوں بعد شفیق اور اس کی بیوی سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُسے چھیڑا یار! تو اپنے نام کے ساتھ ایم اے کیوں لکھواتا تھا؟ اس سے پہلے کہ وہ بولتا‘ اس کی بیوی بول پڑی‘ بھائی! میں بتاتی ہوں‘ وہ اس کی ایک کزن...!
بندو خان کی دکان پر خوب کرکٹ میچ دیکھے۔ پورے شہر میں اس کے کھانوں کی دکان مشہور تھی۔ جس دن ٹی وی پر میچ ہوتا تو چھٹی کے بعد ایک دبائو ہوتا کہ بیالیس کلومیٹر کا فاصلہ کر کے گھر لوٹنا ہے اور لیٹ ہوجائوں گا۔ پھر کرکٹ کا شوق سوار ہوجاتا کہ تھوڑی سی دیر کی تو بات ہے میچ دیکھ ہی لیتے ہیں ۔ اماں اور بھائی سے بہانہ کر لوں گا کہ ویگن دیر سے ملی تھی ۔ میرے کلاس فیلوز حیران ہوتے کہ میری بندو خان سے کیسے دوستی تھی۔ وہ بندو خان کو پسند نہ کرتے اور مجھے سمجھ نہ آتی بندو خان جیسے انسان دوست میں کیا خرابی تھی۔
آج وہی بندو خان جگر کی بیماری کا شکار ہے اور اس کا خاندان غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔ اس کی بے چاری بہن کا خاوند بینک میں ملازمت کرتا تھا ۔ وہ ایک جھوٹے الزام میں جیل گیا اور پھر پوراہنستا بستا خاندان اجڑ گیا ۔ سکول جاتے بھانجے الگ رُل گئے ۔ سکول چھوڑ کر وہ ہوٹل پر برتن صاف کرنے لگے ۔ ایک تکلیف دہ کہانی ہے کہ چند اچھے دوستوں کی مدد سے‘ وکیل کر کے اس کے بہنوئی کو بڑی مشکلوں سے جیل سے رہا کرایا لیکن جب بدقسمتی مقدر ہو تو پھر کچھ بھی کر لو، نتائج مرضی کے نہیں نکلتے۔ یہ سب کوششیں بھی بندو خان اور اس کے بھانجوں کی زندگی میں بہتری لانے میں ناکام رہیں ۔ کسی رحم دل نے میرے ایک پرانے کالم پر بندو خان کو کچھ پیسے دیئے۔ اس نے نئے جذبے اور حوصلے سے
ہوٹل کھولا۔ جوان بندو خان ہوتا تو ہوٹل چلا لیتا۔ لیکن افسوس کہ ہوٹل ڈوب گیا اور اس کے ساتھ ہی بندو خان بھی! دراصل ماں باپ کے مرنے کے بعد ہی بندو خان سے اس کا بخت روٹھ گیا تھا۔ ہوٹل چلنا تو دور کی بات ہے اب تو لگتا ہے بندو خان خود کسی دن دنیا سے چل دے گا۔ پھر شرم کے مارے بندو نے مجھے مدد کے لیے کہنا چھوڑ دیا۔ نعیم بھائی زندہ تھے تو وہ بندو خان کا خیال رکھتے۔ انہیں احساس تھا کہ کبھی بندو خان نے ان کے چھوٹے بھائی روفی کا خیال رکھا تھا۔ وہ نہ رہے تو پھر بندو خان کہاں جاتا ، کس کے پاس روتا ۔ نعیم کی موت پر وہ ہمارے گائوں کے گھر میں ایک کونے میں تین دن چپ کر کے بیٹھا رہا ۔ اسے جگر کی بیماری ہے۔ علاج چل رہا ہے۔ پتہ نہیں کب تک علاج یا بندو خان چلے گا ۔
ترکوں کی مسجد کے سامنے کھڑی گاڑی میں بیٹھے یادوں میں کھوئے‘ یاد آیا امریکہ آنے سے پہلے بندو خان کی بہن سے بات ہوئی تھی ۔ بلکہ میں نے ہی فون کیا تھا ۔ بندو خان نے بتایا تھا وہ اپنا گھر بیچنا چاہتی ہے۔ اس نے ایک لاکھ روپے کا قرض ادا کرنا ہے۔ اس نے محلے والوں سے ادھار لے کر بچوں کی فیسیں اور کچھ کھانے پینے کا سلسلہ چلایا ہوا تھا۔ اب کب تک وہ ادھار واپس نہ کرے۔ سوچتا ہوگا کہ گھر بیچ کر کوئی دکان کر لیں گے۔
میں نے گھر بیچنے کی مخالفت کی کہ اپنا گھر ہے‘ چھوٹی بچیاں ہیں‘ بچے ہیں‘ کہاںجائیں گے۔ بولا کرائے کا گھر لے لیں گے۔ میں نے کہا کب تک چلے گا ۔ گھر نہ بیچیں۔ کچھ کرتا ہوں۔ میں نے کہا میری بات کرائو۔ فون کیا۔ کچھ دردناک کہانی کا علم تھا‘ کچھ کا بات کرنے سے پتہ چلا۔ سفید پوش لوگ کیسے زندہ ہیں۔ آٹا خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے۔ اس خاندان کو 1985ء سے جانتا ہوں۔ ان سب کے اچھے دن‘ میں نے طالب علمی کے دنوں سے دیکھے ہوئے ہیں۔ مجھے علم تھا کہ پانچ بچوں کی ماں جھوٹ نہیں بول رہی تھی ۔ ایک ماں کا رونا بے قرار کر گیا۔ وہ روتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ ان بدنصیب لوگوں کی زندگی میں صرف دکھ ہی لکھے تھے؟
اپنی بیوی کی بیماری کی پریشانی میں یاد نہ رہا۔ اب اللہ کا گھر سامنے آیا۔ بھول ہی بھول میں کتنا ظلم ہو گیا۔ ایک ماں اور اس کے کالج اور سکول جاتے بچے میرے وعدے پر بیٹھے رہ گئے ہوں گے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی میرے ساتھ وعدہ کر کے بھول جاتا تو... اس سے آگے نہ سوچ سکا۔ ایک ماں سے وعدہ خلافی کو آج ایک ماہ گزر گیا تھا ۔
قصبہ باغ کے قریب سے گزرتے اداس جنگل اور اس کے درمیان بہتی چھوٹی نہر کی برسوں پرانی یادوں میں گم ، درختوں سے گرتے پتوں کی سرسراہٹ کو اپنے اندر دور تک محسوس کرنے کی کوششوں میں مصروف، اپنے آپ سے ناراض اور وطن سے ہزاروں میل دور پتہ نہیں کتنے برسوں بعد میں نے امریکہ میں ترکوں کے بنائے ہوئے خدا کے گھر کی طرف قدم بڑھائے تو یوں لگا جیسے علامہ اقبالؒ نے‘ شاید یہ شعر میرے جیسے گناہگار کے لیے ہی کہا تھا ؎
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں!!