"RKC" (space) message & send to 7575

A few good men

راشد رحمن سے آخری ملاقات ملتان میں شاید بارہ برس قبل ہوئی تھی اور اب کبھی نہیں ہوگی۔
1996ء میں ملتان میں نوجوان ایڈوکیٹ راشد رحمن سے ملا تو میں نے اپنی زندگی کے جن چند اچھے لوگوں کی فہرست بنائی ہوئی تھی ،اس میں اس کا نام بھی لکھ دیا ۔ 
اسی راشد رحمن کو اگلے روز ملتان میں ان کے چیمبر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا کیونکہ وہ بہائو الدین یونیورسٹی کے ایک لیکچرر کے وکیل تھے جس پر توہین رسالت کا الزام تھا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق مخالف وکیل نے ہی جج کے سامنے راشد رحمن کو دھمکی دی تھی کہ اگر تم اس کیس سے دستبردار نہ ہوئے تو مارے جائو گے۔ چلیں پاکستان میں کوئی تو اپنی زبان کا پکا نکلا اور راشد رحمن اگلی پیشی پر پیش ہونے کے لیے زندہ نہیں رہا ۔ 
امریکہ میں راشد رحمن کے قتل کی خبر سن کرمیرے آنسو بہہ نکلے۔ ملتان کی جدوجہد اور سخت دنوں کی پرانی یادیں حملہ آور ہوئیں ... راشد رحمن بھی برے دنوں کے ساتھیوں میں سے ایک تھا ۔ 
کچھ دن پہلے ہی ارشد شریف کو کہا تھا... یار انسان کی زندگی کا مزہ بس چالیس برس کی عمر تک ہی ہے۔ باقی سب بکواس ہے۔ کلینیکل موت تو چالیس پر ہوجاتی ہے، باقی توڑپھوڑ کا عمل ہے جو اگلے دس بیس برس چلتا رہتا ہے۔ انسانی اعضا جواب دینا شروع کردیتے ہیں ۔ آگاہی اور شعور علیحدہ تنگ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ زندگی رک سی جاتی ہے۔ چالیس کے بعد زندگی میں موت کا عنصر بڑھنے لگتا ہے۔ کبھی ماں تو کبھی باپ تو کبھی بڑا بھائی تو کبھی چاچا یا ماموں ۔ خاندان کے بعد دوستوں کی باری لگتی ہے تو آپ کو موت اپنے قریب محسوس ہوتی ہے۔ زندگی میں دلچسپی ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ماضی کی یادیں ستانا شروع کردیتی ہیں اور آپ سنکی ہونے لگتے ہیں ۔ چڑچڑاہٹ بڑھ جاتی ہے۔ کسی سے بات کرنے کو جی نہیں چاہتا اور دل چاہتا ہے سردیوں میں کہیں دھوپ میں چارپائی ڈال کر سوئے رہیں ۔ گرمیوں میں کسی درخت کے سائے تلے اکیلے گھنٹوں کرسی ڈال کر خالی نظروں سے آسمان کو تکتے رہیں ...رہی سہی کسر بچوں کے بڑے ہونے سے پوری ہوجاتی ہے۔ اپنی محبتوں اور دوستوں کو مرتے دیکھ کر کون کب تک زندہ رہ سکتا ہے ۔بالآخر یہ جذباتی توڑپھوڑ ایک دن آپ کو قبر میں اتار دیتی ہے ۔
عمرکے وہی پہلے چالیس برس ہی ہیں جو ہم خوشی خوشی جیتے ہیں ۔باقی کے برس تو موت کی طرف کا ایک سفر ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں طے کرنا ہے ۔
راشد رحمن سے نہ ملا ہوتا تو شاید میں زندگی میں انسانی حقوق کے معنی سے روشناس نہ ہوتا اور نہ ہی انسانوں کا دکھ محسوس کرتا۔ راشد رحمن سے پہلی ملاقات میں ہی میں ان کا گرویدہ ہوگیا تھا ۔ چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ، ایک خوبصورت شخصیت کا مالک نوجوان، آواز میں ایک خاص کھنک ...جس کے چہرے پر جتنی شگفتگی اور محبت تھی وہ اندر سے اتنا ہی فولادی تھا ۔ کمزور انسانوں کے دفاع کے لیے وہ کسی سے بھی ٹکرا سکتا تھا ۔ 
میں نے نیا نیا ڈان اخبار جوائن کیا تھا کہ مجھے اسٹوریز کی تلاش راشد رحمن تک لے گئی۔ پتہ چلا وہ آئی اے رحمن کے بھتیجے تھے اور انسانی حقوق کمشن ملتان کے سربراہ بھی تھے۔ ان کے دفتر میں جہاں اچھی چائے ملتی، وہیں گپ شپ اور انسانوں کے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک کی کہانیوں کا پتہ بھی چلتا رہتا ۔ ان کے پاس سرائیکی علاقے میں ہونے والے ہر ظلم ،ہرستم کا ریکارڈ موجود تھا ۔ عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور تشدد کی وہ ایک علیحدہ فائل رکھتے اور ہر سال جب میں نے خواتین کے عالمی دن پر کوئی اسٹوری دینی ہوتی تو وہ مجھے فائل تھما دیتے۔ 
راشد رحمن کے بڑوں نے ہندوستان سے ہجرت کے بعد کراچی یا لاہور کی بجائے ملتان میں رہنے کو کیوںترجیح دی ؟ اس سوال کا جواب راشد کے پاس تو نہ تھا کیونکہ وہ پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئے تھے ،تاہم وہ رویوں سے پورے ملتانی تھے۔ ان کے والد اشفاق احمد خان بھٹو دور میں ویت نام کے سفیر رہے۔ اگرچہ وہ شستہ اور خوبصورت اردو بولتے لیکن ہمارے ساتھ سرائیکی بھی بولتے کہ کہیں یہ نہ محسوس ہوکہ ملتان رہتے ہوئے بھی ملتانی زبان اور تہذیب سے آشنائی نہ کی ۔
راشد رحمن کو علم تھا کہ ہمارے معاشرے میں طاقتور کی اپنی زبان اور اپنا انصاف ہوتا ہے۔ وہ اچھے انسانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے وکالت کا پیسہ دولت کمانے کے لیے اختیار نہیں کیا تھا ۔ میں خود گواہ ہوں کہ انہوں نے کتنے مظلوموں کی مدد کی۔ ان کے مفت مقدمات بھی لڑتے اور الٹا اپنی جیب سے انہیں کرایہ دے کر گائوں واپس بھیجتے۔ 
میں جوں جوں راشد رحمن کے قریب ہوتا گیا ،محسوس ہوا کہ مجھے اپنی فہرست میں ایک اور اچھے انسان کا اضافہ کرلینا چاہیے۔ایک دن میں نے کہا ،کراچی جانا ہے ۔ میں ایک رپورٹ پر کام کررہا تھا۔ بولے ،چلو چلتے ہیں ۔ میرے اپنے کئی عزیز وہیں ہیں۔ ان سے بھی ملاقات ہوجائے گی، میں نے کہا ،لیکن میرے پاس تو کراچی میں رہنے کو جگہ نہیں اورنہ ہی کسی کو جانتا ہوں۔ بولے ، چلو یار یہ بھی کوئی بات ہے۔ انہوںنے خود ہی کراچی کی دوٹکٹیں منگوائیں۔ میں نے کرایہ دینا چاہا تو بولے :مجھے پتہ ہے تمہیں ڈان سے ابھی چھ سو روپے ماہانہ ملتے ہیں جو بہت کم ہیں۔ جب آجائیں گے تو لے لوں گا ۔ ملتان سے ٹرین پکڑی اور اگلے دن کراچی اپنے عزیز پروفیسر توصیف احمد خان کے گھر لے گئے۔ اپنی بہن کو بتایا کہ رئوف نے یہیں رہنا ہے۔ مجھے ایک علیحدہ کمرہ دے دیا گیا اور میں کئی دن ان کے ساتھ ان کی بہن کے گھر رہا ۔ توصیف احمد خان جو کراچی یونیورسٹی میں جرنلزم کے پروفیسر تھے ، نے میرے لیے ایک بندہ ڈھونڈا جو مجھے کراچی کے ان علاقوں میں لے گیا جہاں ہندئووں کے گھروں کو جلایا گیا تھا ۔ میری رپورٹ مکمل ہوئی تو میںنے کہا واپس ملتان چلیں۔ہنس پڑے اور کہا بھائی اب اکیلے ہی جانا ہوگا۔ اب میں کچھ دن بہن کے گھر ٹھہروں گا۔میں نے رپورٹ لکھنی تھی ،اس لیے ملتان لوٹ گیا ۔ 
کراچی کا یہ سفر ہم دونوں کو مزید قریب لے آیا اور اب تقریباً روزانہ ان کے دفتر میں ملاقاتیں ہونے لگیں۔ میں نے پہلی دفعہ محسوس کیا کہ اپنے جیسے کمزور انسانوں کے ساتھ کھڑا ہونا کتنا بڑا کام تھا ۔ 
مجھے اب بھی یقین ہے جب راشد رحمن کو قتل کرنے کے لیے قاتل اس کے چیمبر میں گھسے ہوں گے تو وہ ہرگز نہیں گھبرائے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے قاتل کی انگلیاں ایک بہادر اور انسان دوست راشد رحمن کو مارتے ہوئے کانپ گئی ہوں لیکن راشد رحمن ہرگز نہیں ڈرا ہوگا ۔ 
مرنا سب نے ہے۔ اس نے بھی مرنا ہے جس نے راشد رحمن کو قتل کیا ہے لیکن ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو دوسروں کے لیے مرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور اپنے بچوں کو یتیم کر جائیں۔ راشد رحمن اپنے نظریات اور انسان دوستی کے نام پر قتل ہوا... وہ دوسروں کے لیے جیا اور دوسروں کے لیے ہی مرا ۔ راشد رحمن کا نام میری اس فہرست میں تھا جس میں، میں نے A few good men کے نام لکھ چھوڑے ہیں ۔
پتہ نہیں کیوں ،مجھے ایسا لگتا ہے قاتل کو اپنے اوپر گولیاں برساتے دیکھ کر انسان دوست راشد رحمن یقینا مسکرایا ہوگا اور بہتے سرخ لہو کو دیکھ کر اپنے سفاک قاتل سے بھی اسے ہمدردی محسوس ہوئی ہوگی ۔ اگر اس کا قاتل پکڑا بھی جاتا اور ملتان میں راشد رحمن کو قتل کرنے کے جرم کا دفاع کرنے کے لیے اسے کوئی وکیل نہ ملتا اور راشد رحمن کا اپنی قبر میں سے بھی بس چلتا تو وہ اپنے اس قاتل کا خود ہی وکیل بن جاتا...
جی ہاں میری''A few good men ‘‘ کی اس فہرست کا راشد رحمن نام کا کردار اسی طرح کا ایک انسان ہی تھا ! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں