"RKC" (space) message & send to 7575

حسینہ بی بی اور الطاف کا دکھ

اعجاز بھائی جارجیا (اٹلانٹا) سے روزانہ فون کر کے پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا ۔
اعجاز بھائی سے مجھے پیار ہے۔ رحم دل انسان ہیں ۔ سوچ رہا ہوں کسی وقت ان کے پاس جارجیا چلا جائوں اور کچھ دن وہاں گزاروں ۔ ملتان کے علاوہ کالم نگار دوست خالد مسعود بھی ہمارے درمیان ایک قدر مشترک ہے۔ 
میرے کچھ کالموںپر اعجاز بھائی لیہ کے غریبوں کی مدد کر چکے ہیں ۔ بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ان کی وجہ سے مجھے امریکہ میں بہت آسانی ہوئی ہے ۔ 
دو دن پہلے ان کا پیغام آیا کہ جمن شاہ لیہ کے کینسر کے مریض الطاف کی موت ہوگئی ہے۔ اعجاز بھائی ایک سال سے اس غریب ڈرائیور الطاف کے کینسر کے اخراجات برداشت کررہے تھے۔ پہلے وہ اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال گیا۔ آپریشن پر سب کچھ لگ گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ آپریشن ہی غلط ہوا تھا ۔ وہاں سے شوکت خانم گیا ، وہاں سے ڈاکٹرز نے ملتان بھجوا دیا۔ چند کنال زمین تھی‘ وہ بھی بک گئی۔ کچھ رحم دل مہربان الطاف کے بیوی بچوں کے اخراجات لاہور سے بھیجتے رہے۔ شاید الطاف کی بیوہ سوچتی ہو کہ چلیں بیمار ہی سہی، الطاف کے نام پر کچھ مہربان اس کی ہر ماہ مدد کردیتے تھے اور گھر کا نظام چل رہا تھا ۔ 
الطاف کی موت کا سن کر میں خاموش ہوگیا ۔ ایک بیمار اور بات بات پر میرا شکریہ ادا کرتا ہوا الطاف ، اس کی آنسو بہاتی بیوی اور چھوٹے بچوں کا چہرہ میرے سامنے آگیا جب وہ 21فروری کو نعیم بھائی کی برسی پر گائوں میرا شکریہ ادا کرنے آئے تھے کہ میرے کالم سے ان کا علاج شروع ہوگیا تھا ۔ وہ کچھ پھل فروٹ اور ایک دیسی مرغی لائے تھے۔ میں نے کہا کیا ظلم کرتے ہو۔ تم لوگ اس وقت پائی پائی کے محتاج ہو۔ الطاف کی بیوہ بولی‘ بھائی کچھ ہماری عزت رہنے دو۔ 
گائوں میں دیسی مرغی ہی تحفہ سمجھی جاتی ہے۔ 
الطاف اور اس کے بیوی‘ بچوںکو امید ہوچلی تھی کہ شاید وہ بچ جائے گا ۔
الطاف پہلے مظفر گڑھ میں ڈرائیور بنا۔ بچوں کو بھی وہیں لے گیا۔ انہیں سکول میں داخل کرایا کہ انہیں لکھا پڑھا کر اچھا انسان بنائے گا ۔ پھر کینسر کا پتہ چلا۔ پہلے ویگن بکی، پھر زمین بکی... بچے واپس جمن شاہ لانے پڑے۔ کسی نے میرا بتایا۔ میں اور کیا کر سکتا تھا‘ ایک کالم لکھ دیا۔ اعجاز بھائی نے پڑھا اور مدد کا بیڑا اٹھایا۔ لاہور سے بھی کچھ رحم دل لوگوں نے اس کے بیوی بچوں کی مدد جاری رکھی اور اب ایک سال بعد الطاف مرچکا تھا۔ 
ڈپریشن میں اعجاز بھائی کو فون نہیں کیا۔ سارا دن طبیعت میں اداسی رہی۔ کمرے میں بند رہا۔ اپنے آپ کو کاٹ کھانے کو جی چاہ رہا تھا ۔ شام کو ڈپریشن دور کرنے کے لیے طویل واک کا سوچا تو اعجاز بھائی کو فون کیا ۔ الطاف کا ذکر ہوا تو بولے‘ یار پاکستانی ڈاکٹرز نے امید دلوائی تھی کہ بچ جائے گا ۔ میں نے کہا ہاں پانچ چھوٹے بچوں کی نوجوان ماں حسینہ بی بی کو بھی ڈاکٹرز نے امید دلوائی تھی کہ بچ جائے گی۔ وہ بھی نہ بچ سکی۔ الطاف بھی نہ بچا۔ 
میں نے کہا اعجاز بھائی کہیں نہ کہیں ہمارے پاکستانی ڈاکٹرز فنشنگ کے قریب آکر گڑبڑ کر دیتے ہیں ۔ وہ مریض پر وہ توجہ نہیں دے پاتے جو یہاں امریکہ میں مریض کو دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں انسان کی زندگی کی کوئی قدر نہیں ہے۔ اس لیے ڈاکٹروں کو کوئی پروا نہیں ہے۔ یہاں امریکہ میں بیماری جتنی خوفناک ہوتی ہے‘ اسے توجہ اتنی زیادہ ملتی ہے۔ یہی پاکستانی ڈاکٹرز امریکہ میں لاپروائی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن جب پاکستان جاتے ہیں تو مریض کی پروا نہیں کرتے۔ انہیں پتہ ہے اگر کچھ ہوبھی گیا تو کس نے پوچھنا ہے۔ سب کہیں گے اللہ کی رضا تھی اور قصہ ختم۔ امریکہ میں بھی مریض مرتے ہیں لیکن ایک دفعہ تو باقاعدہ موت کے فرشتے سے لڑائی لڑی جاتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک نئی تحقیق کے مطابق امریکہ میں آئندہ جو بچے پیدا ہوں گے ان کی عمریں ایک سوسال ہوں گی۔ ہارٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر احتشام قریشی بتا رہے تھے کہ انہوں نے دو دن پہلے ہی ایک 93 سالہ مریض کے اسٹنٹ تبدیل کیے ہیں۔ اس کے اسٹنٹ کی بیٹری کمزور ہوگئی تھی اور اسے گھبراہٹ ہورہی تھی۔ اسے ہسپتال لائے تو ڈاکٹر قریشی نے گھر والوں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ تھا وہ بیٹری تبدیلی کرانا چاہتے ہیں یا پھر بہت جی لیا‘ لہٰذا موت کے فرشتے کا انتظار کیا جائے تو انہوں نے کہا کہ نہیں بیٹری بدل دیں۔ بیٹری بدلی گئی اور مریض تندرست ہو کر گھر لوٹ گیا۔ 
ڈاکٹر عاصم صہبائی نے مجھے ایک خاتون مریضہ کی فوٹو دکھائی جس کی عمر 103 برس ہے۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ وہ افسردہ ہے کہ وہ تو بوائے فرینڈ بنانا چاہتی ہے لیکن اسے کوئی اس عمر میں مل نہیں رہا ۔
ڈاکٹر احتشام کا کہنا تھا کہ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے انسان بیس ہزار ڈالر کے عوض اپنے پورے جسم کا سکین کراسکتے ہیںجس سے پتہ چل جائے گا کہ اگلے بیس برس میں انسان کو کیا کیا بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔ ایک صاحب بولے‘ ایسی ترقی کا کیا فائدہ کہ انسان کو بیس برس پہلے ہی پتہ چل جائے کہ اسے کینسر ہونا ہے اور وہ اس صدمے سے ہی مرجائے۔ 
اب مجھ سے مزید چپ نہ رہا گیا۔ میں نے کہا‘ میرا خیال ہے جو لوگ یہ تشخیص کر رہے ہیں کہ بیس برس بعد کیا بیماری ہوسکتی ہے ان کا اگلا ٹارگٹ یہ ہوگا کہ اس بیماری کو ختم کیسے کرنا ہے۔ کیونکہ اس سکین اور تحقیق کا اس وقت تک انہیں کوئی کمرشل فائدہ نہیں جب تک وہ مستقبل کی بیماری کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی نہ بتائیں۔ 
امریکہ میں اوسط عمر اب 84 برس ہوچکی ہے۔ 
ڈاکٹر عاصم صہبائی کے ساتھ ایک اسٹور پر گیا تو وہاں ایک بوڑھا امریکی کائونٹر پر کھڑا تھا۔ عاصم کو میں نے کہا‘ ذرا اس سے عمر پوچھیں۔ جب اس بوڑھے نے سامان کا بل بنالیا تو عاصم نے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا‘ آپ کی عمر کیا ہے؟ اس نے بغیر سر اٹھائے ہوئے کہا‘ بیس برس اورپھر خود ہی ہنس پڑا ۔
ہم دونوں بھی ہنس پڑے۔
میں نے عاصم صہبائی سے پوچھا‘ آپ ڈاکٹر ہیں‘ آپ کے خیال میں اس کی عمر کیا ہوگی؟ 
وہ بولے ستر سال سے تو اوپر ہی ہوگی۔ 
میں نے کہا اندازہ کریں ستر سال کی عمرمیں وہ اتنی ہوشیاری اور سمجھداری سے کام کررہا ہے۔ 
پاکستان میں ایسی باتیں خواب لگتی ہیں۔ جب کہ امریکہ میں ستر اسی برس تک کام کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
اپنی بیوی کے ساتھ ہسپتال گیا تو وہاں ایک خاتون جس کی عمر ستر برس سے اوپر ہوگی وہ مریضوں کو لنچ دے رہی تھی ۔ جب وہ میری بیوی کو لنچ دے چکی تو مجھے مسکرا کر کہا‘ فکر نہ کرو۔ ہم مریض کے ساتھ اٹینڈنٹ کو بھی کھانے کے لیے چیز برگر دیتے ہیں۔ انتظار کرو۔ پہلے مریضوں کو دے لوں پھر تمہیں دوں گی۔ پتہ چلا وہ ایک رضاکار خاتون ہے۔ وہ گھر بیٹھنے کی بجائے اس ہسپتال میں آکر مفت کام کرتی ہے۔ مثلاً مریضو ںکو لنچ، چائے، جوس، بسکٹ دینا اور ان کے ساتھ گپ شپ لگانا۔ 
میں نے پوچھا کتنی تنخواہ ملتی ہوگی ۔
پتہ چلا وہ یہاں مفت مریضوں کی خدمت کرتی ہیں۔ بلکہ کئی رضاکار خواتین جن کی عمریں ستر اور اسی برس کے درمیان ہیں‘ وہ اپنے گھر سے مریضوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں بھی اپنی جیب سے لاتی ہیں۔ 
میری بیوی بڑی متاثر ہوئی‘ کہنے لگی‘ میں نے ہفتے میں ایک دن ہسپتال جانا ہوتا ہے، باقی کے چھ دن گھر پر رہتی ہوں ۔کیوں نہ میں بھی یہاں پر آکر مفت کام کر لیا کروں اور ان کی طرح ان مریضوں کی خدمت کروں جیسے یہ ہمارا خیال کرتی ہیں ۔ 
میں نے کہا کیا ہم پاکستان میں یہ سوچ سکتے ہیں کہ ستر سال عمر کی خاتون سارا دن کسی ہسپتال میں مریضوں کا مفت میں خیال رکھے بلکہ جیب سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی لے جائے۔
مجھے لندن کی میڈم لوسی یاد آگئی جو مجھے 2007ء میں رات کے بارہ بجے ٹرین میں ملی تھی۔ وہ ہوٹل میں شیف تھی اور آخری شفٹ کی ڈیوٹی کر کے گھر جارہی تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عمر پوچھی تھی تو ہنس کر بولی تھی‘ 4 8 برس... 84برس میں وہ شیف کی ڈیوٹی دے کر رات گئے گھر جارہی تھی اور ستر سال سے زائد عمر کا شخص مجھے اور ڈاکٹر عاصم کو کہہ رہا تھا کہ اس کی عمر تو ابھی بیس برس ہے۔
میں اور اعجاز بھائی ابھی تک الطاف کی موت پر افسردہ تھے۔ انہیں اس بات کا ملال تھا کہ جب الطاف کے بارے میں ڈاکٹر کو یقین تھا کہ وہ بچ جائے گا تو پھر وہ مرکیسے گیا... اگر امریکہ میں ڈاکٹر اس نتیجہ پرپہنچتے کہ مریض بچ جائے گا تو پھر وہ یقینا اسے بچا لیتے۔ 
میں حسینہ بی بی کے بارے میں سوچ کر افسردہ تھا کیونکہ لاہور کے کینسر ہسپتال کے ڈاکٹروں نے پانچ بچوں کی ماں کے بارے میں بھی یہی تسلی دی تھی... اعجاز بھائی اور میں خوش تھے کہ شاید حسینہ بی بی کے بچوں کو ماںاور الطاف کے بچوں کو باپ واپس مل جائے گا...! 
کاتب تقدیر یا پھر ان ڈاکٹروں نے جن کے نزدیک پاکستان جیسے ملکوں میں انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں، ہمیں غلط ثابت کردیا تھا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں