نیویارک کی مختلف سڑکوں پر لکھے ناموں اور دیئے گئے نشانات سے آشنائی سی محسوس ہوئی۔ لگا پہلے بھی یہاں سے گزرا ہوں ۔ ڈاکٹر احتشام قریشی مجھے نیویارک کے بارے میں بتارہے تھے اور میں کسی اور دنیا میں گم ۔
''نیویارک کو میں 1996ء سے جانتا ہوں‘‘۔
''شاہ جی لیکن آپ تو پہلی دفعہ امریکہ آئے ہیں‘ پھر نیویارک کو کیسے پہلے سے جانتے ہیں؟‘‘
اب ڈاکٹر صاحب کو کیا بتاتا کہ اس شہر کو میں ماریو پزو کے ناول 'گاڈ فادر‘ کی وجہ سے جانتا ہوں ۔ ایک ایسا ناول جس نے میری اپنی سوچ بدل کر رکھ دی تھی ۔ یہ ناول نہ پڑھتا تو شاید میری زندگی ادھوری رہتی ۔ نعیم بھائی نے ناول پڑھنے کو دیا تھا ۔ ناول کے پہلے ہی فقرے نے اپنی گرفت میں لے لیا...بالزاک جیسابڑا ادیب ہی انسانی نفسیات کے دریا کو ایک فقرے کے کوزے میں بند کر سکتا تھا۔
Behind every great fortune, there is a crime.
ماریو پزو نے بالزاک کے اس فقرے پر ہی پورا ناول لکھ دیا تھا ۔
اس ناول کا اپنا عجیب رنگ اور خوبصورتی ہے۔ اٹلی کے تارکین وطن کے باطن سے جنم لینے والے مافیا کے چند طاقتور کرداروں پر لکھا گیا یہ ناول نیویارک کے علاوہ کسی اور شہر میں لکھا ہی نہیں جا سکتا تھا ۔ گاڈفادر کے ایک فقرے نے میری سوچ بدل تھی کہ ہر شخص اپنی منزل لے کر پیدا ہوتا ہے۔ وہ کہیں بھی بھٹکتا رہے، اس کی قسمت اسے وہیں لے جائے گی ۔ اس ناول میں کئی ایسے جملے ہیں کہ بندہ عش عش کر اٹھے۔ایک موقع پر گاڈفادر کہتا ہے:
A man who doesn't spend time with his family can never be a real man.
ایک اور جملے کی خوبصورتی ملاحظہ فرمائیں:The lawyer
with the briefcase can steal more
money than the man with the gun.
ایک اور جملہ دیکھیے :Never hate your enemies. It affects your judgmentاوراس کے بارے میں کیا خیال ہے۔Great men are not
born great, they grow great.
ایک اور خوبصورت فقرہ:Revenge is a dish
that tastes best when served cold.
میں نے اس ناول کا 1996ء میں اردو میں ترجمہ کیا ،جسے فکشن ہائوس لاہور کے دوستوں ظہور احمد، محمد سرور اور رانا عبدالرحمن نے شائع کیا تھا ۔ اب اٹھارہ برس بعد دوست پبلشر اسلام آباد کے ادب شناس آصف صاحب اسے نئے رنگ میں چھاپ رہے ہیں۔ ناول کے ترجمہ کو نئے سرے سے ایڈیٹنگ کر کے آصف صاحب کے حوالے کیا کہ وہ اسے دوبارہ چھاپ دیں ۔
نیویارک کی بلندوبالا عمارتوں کے حسن میں ڈوبے یاد آیا کہ آصف صاحب نے امریکہ آنے سے کئی ہفتے پہلے کہا تھا ،سرورق تیار ہے۔کچھ تعارفی لکیریں ہی کھینچ دیں ۔ شاید نیویارک شہر میں بیٹھ کراس ناول کا دیباچہ لکھنے کا اپنا ہی رومانس ہوگا کیونکہ یہ ناول اس شہر کے مافیا کی زندگی پر لکھا گیا تھا ۔اب یہیں بیٹھ کر'گاڈفادر ‘کا دیباچہ لکھوں گا کہ یہ موقع پھر نہیں آئے گا ۔ ڈاکٹر احتشام نے پوچھا ''شاہ جی نیویارک میں کہاں جانا ہے؟ ‘‘دل تو چاہا کہوں اگر ممکن ہوسکتا ہے تو 'گاڈفادر ‘کے پاس لے چلو،میں نے کہا‘ پرانی کتابوں کی کسی دکان پر لے چلیں۔ پہلے یہ ٹھرک پورا کرلیں۔ پھر شہر کو بھی دیکھ لیں گے۔
تاریخ کے بارے میں سب سے اچھی کتاب فٹ پاتھ پر دو ڈالر میں مل گئی ،لیکن دکان کے اندر پسندیدہ ادیبوں کی پرانی کتابیں اٹھائیں تو قیمتیں پڑھ کر سر گھوم گیا ۔کوئی کتاب دس پندرہ ڈالر سے کم کی نہ تھی۔ نوبل پیس پرائز ونر ادیب تھامس مان کی نایاب آپ بیتی دیکھ کر جی مچل گیا مگر پچیس ڈالر قیمت دیکھ کر دل بیٹھ گیا۔ پتہ نہیں دکان پر موجود لڑکے کو میری شکل پر لکھی مظلومیت پر ترس آیا یا پھر وہ اس دکان کے مالک سے کوئی پرانا بدلہ لینے کا اس سے بہتر موقع نہیں ڈھونڈ سکتا تھا ، اس نے کچھ دیر سوچا، پھر کہا ''اوکے، بیس ڈالر دے دو‘‘۔
میں بڑا خوش ہوا اور گیبریل گارشیا کی آپ بیتی اٹھا لی ۔ دوستووسکی کے عظیم ناول ''برادرز کرامازوف ‘‘کا پرانا ایڈیشن بھی اٹھا لیا ۔ ماریو پزو نے کہیں لکھا تھا کہ اگر وہ ''برادرز کراموزوف ‘‘نہ پڑھتا تو شاید ادیب نہ بنتا ۔ موپساں کا ایک ناول ،جس کا ایڈیشن 1903 ء میں چھپا تھا ،وہ اٹھایا، اور پھر اٹھاتا ہی چلا گیا۔ میرا خیال تھا کہ بیزار نوجوان پگھل چکا ہے، اب قیمت کم کرے گا۔ میں سات کتابیں اٹھا کر اس کے پاس گیا تو اس نے55 ڈالر کا بل بنا کر کہا ''اس پر چند ڈالرز سیلز ٹیکس بھی ہوگا ‘‘۔ میں نے رحم طلب نظروں سے دیکھا مگر وہ ساکت بیٹھا رہا ۔ رسید کاٹی اور مجھے تھما دی ۔ تھامس مان کی آپ بیتی کے علاوہ اس نے کسی کتاب پر رعایت نہیں کی ۔
پرانی کتابوں کا بنڈل گاڑی میں رکھا اور نیویارک کے گرائونڈزیرو کی طرف چل پڑا ۔ مجھے یاد آیا کیسے ہمارے ہاں آج تک سمجھا جاتا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ سب ایک سازش تھی ۔ دوسری سازشی تھیوری یہ تھی کہ اس دن پانچ ہزار یہودی غائب تھے۔ یہی بات میں نے ڈاکٹر احتشام اور ان کی بیگم ڈاکٹر ریحانہ کو بتائی تو وہ ہنس پڑے اور بولے ،ہم نے تو یہ تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ میں نے کہا ''ڈاکٹر صاحب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ پانچ ہزار یہودیوں کو ایک دن پیغام ملتا ہے ‘‘کل یہاں نہیں آنا ،جہاز ٹکرائیں گے اور تین ہزار بندے مارے جائیں گے اور وہ سب نہیں آتے؟ انہیں پتہ بھی ہو ہمارے ساتھ دفتر میں بیٹھے ہزاروں انسان مارے جائیں گے اور ہم سب نے مافیا کے کوڈ ''امریٹا‘‘ کی طرح خاموش رہنا ہے؟ کیا ان پانچ ہزار میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو یہ راز سب کو بتادیتا کہ کل یہاں تباہی آنے والی ہے؟اور پھر پورا امریکہ خاموش بھی رہا؟
گرائونڈ زیرو پر اب ایک نیا ٹاور کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس ٹریجڈی میں مرنے والے تین ہزار انسانوں کے نام خوبصورت ماربل پر کھود کر لکھ دیے گئے ہیں۔ اتفاقاً جہاں جا کر میں رکا ،وہاں جو نام میرے سامنے کھدا ہوا تھا وہ سید عبدل فتح کا تھا۔
اگلی سازشی تھیوری یہ ہونی چاہیے کہ اس مسلمان سید عبدل فتح کو مروانے کے لیے ہی یہودیوں نے اس دن کسی کو نہ بتایا تھا کہ کل یہاں جہاز ٹکرائیں گے۔ایک نوجوان امریکی لڑکے کو دیکھا جو اپنے ہاتھوں میں پھول لے کر اپنے باپ کے نام میں پھنسانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ ایک عورت کے نام پر نظر پڑی جس کے آگے لکھا ہوا تھا ،اس کے پیٹ میں بچہ تھا ،وہ بھی ماں کے ساتھ مارا گیا تھا ۔ گیارہ ستمبر کو ہونے والے اس ایک حملے نے دنیا بھر میں کئی بچوں کو یتیم کر دیا تھا اور کئی مائوں کے پیٹ میں ہی مار دیے گئے۔
میں نے کہا ''ڈاکٹر احتشام لوگ پوچھتے ہیں ،ایک عمارت جس کے اوپر والے فلور پر جہاز ٹکرائے تھے وہ دھڑام سے اچانک ہی نیچے کیسے گر گئی تھی؟
ڈاکٹر احتشام بولے ''جب پورا فلور ہی اس جہاز کے ٹکرانے اور اس میں موجود فیول سے ہونے والے دھماکوں کے بعد اڑ جائے گا تو کیا اس کے اوپروالے فلورز اپنی جگہ پر کھڑے رہیں گے ؟صاف ظاہر ہے ایک فلور تباہ ہونے کے بعد باقی ماندہ ایک دوسرے پر گرتے چلے گئے اور پوری عمارت تباہ ہوگئی ‘‘۔
نیویارک ہو یا افغانستان، اس جنگ کی اصل قیمت ان اداس یتیم بچوں نے ادا تھی جو گرائونڈ زیرو پر انگلیوں میں پھول تھامے اپنے باپ کالمس محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ناموں میں پھول اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہاں سے ہزاروں میل دور کسی ویران قبرستان میںافغانی بچے بھی یہی کرتے ہوں گے !
شاید ماریو پزو کے ''گاڈ فادر‘‘ نے ایسے ہی بچوں کے دکھ محسوس کر کے لکھا تھا:
"Italians have a little joke, that the world is so hard, a man must have two fathers to look after him, and that's why they have godfathers."