نیویارک میں لاہور بہت یاد آیا۔
اگر جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا تو کہا جا سکتا ہے کہ جس نے نیویارک نہیں دیکھا اس نے بھی دنیا نہیں دیکھی۔
بعض اتفاقات عمر بھر ساتھ نہیں چھوڑتے۔ ورجینیا کے مہربان اکبر چوہدری کے توسط سے فون پر ایک دو دفعہ مشتاق احمد جاوید سے بات ہوئی تھی۔ پتہ چلا کہ مشتاق جاوید تو ملنے کے لیے نیویارک سے ڈلیور تک کا سفر کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس ویک اینڈ پر نیویارک کا پروگرام بنایا ہے ‘ وہیں ملتے ہیں ۔
رات گئے لانگ آئی لینڈ پر ان کے گھر پہنچا تو سامنے جس شخصیت کو انتظار کرتے پایا‘ پہلی نظر میں لگا کہ وہ اپنے کالم نگار دوست ہارون الرشید کے سگے کزن خالد بھائی ہیں‘ جو لاہور رہتے ہیں ۔ میں حیران ہوا کہ خالد بھائی کا یہاں کیا کام۔ بات چیت پر پتہ چلا کہ مشتاق جاوید بھی ہارون الرشید کے سگے کزن اور لاہور میں رہائش پذیر خالد صاحب کے بھائی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بارہ سال تک سینیٹر رہنے والے طارق چوہدری کے بھائی ہیں جو اپنی دبنگ تقریروں اور بھرپور لہجے کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔
مشتاق صاحب سے طویل نشست ہوئی۔ قابل احترام کالم نگار مجیب الرحمن شامی صاحب کا ذکر چل پڑا‘ جن سے میری نیازمندی تو تھی ہی مشتاق صاحب کی پرانی دوستی بھی نکل آئی۔ حفیظ اللہ نیازی اور حسن نثار کے ذکر سے گفتگو مزید دلچسپ ہوگئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے دنوں کی یادیں ،اوپر سے حفیظ اللہ نیازی کے قہقہوں اور باتوں کے ذکر سے گپ شپ کا رنگ مزید گہرا ہوگیا ۔ وہیں انور سلیم مرزا سے بھی ملاقات ہوئی۔ مرزا صاحب بتانے لگے وہ ڈی ایچ اے لاہور سوسائٹی کے رکن ہیں، مجھے یاد آیا کہ میجر وسیم صاحب بھی وہیں رہتے ہیں۔ میجر صاحب درد دل رکھنے والے انسان ہیں ۔ کئی برس پہلے انہوں نے میرے کالم پر مردان کے ایک بچے کے دل کے آپریشن کے لیے ڈھائی لاکھ روپے سوسائٹی کے اراکین سے اکٹھے کیے تھے۔ میجر وسیم کو بتانے سے پہلے لاہور کے ایس کے صاحب سے اس بارے میں ذکر کر چکا تھا، انہوں نے پیسے ہسپتال میں جمع کرادیے تھے۔ جب میجر وسیم کو بتایا کہ ضرورت نہیں رہی تو بھی نہ مانے اور پیسے اس بچے کے باپ کو دے دیئے کہ چلیں غریب آدمی کاروبار کرلے گا۔لیہ میں سیلاب آیا تو بھی میجر وسیم نے اپنی سوسائٹی کے ارکان کی مدد سے لوگوں کی خاصی امداد کی۔ میں میجر وسیم اور ان کی سوسائٹی کے ارکان کو یاد کرتا رہا کہ اچھے لوگوں کے کام نہیں بھولنے چاہئیں۔میں نے کہا :مشتاق بھائی میں حیران ہورہا ہوں آپ کا نام میاں مشتاق احمد جاوید ہے، دوسرے خالد بھائی ہیں اور تیسرے طارق چوہدری ہیں...آپ چوہدری کیوں نہیں لکھتے؟
وہ مسکرائے اور بولے: کافی عرصہ پہلے کی بات ہے‘ پانچویں جماعت کا امتحان ہونے لگا تو پتہ چلا کہ سکول میں مشتاق نام کے تین لڑکے ہیں اور تینوں کے والد کا نام بھی ایک جیسا ہے ۔ ماسٹر صاحب نے کہا ،چلو بھائی اپنے اپنے نام بدل لو یا پھر تخلص کرلو۔
میں ہنس پڑا اور کہا مشتاق بھائی !یہ کیا بات ہوئی؟
بولے :یہی تو مزا ہے،پانچویں جماعت کے بچوں کو اختیار مل گیا تھا کہ نام میں کچھ تبدیلی کرلو۔میں نے اپنے نام مشتاق احمد کے آگے جاوید کا اضافہ کر لیا ۔
میں نے پوچھا :یہاں کیسے اور کب پہنچے؟
انہوں نے گہری سانس بھری اور بولے: 1988ء میں امریکہ کاپروگرام بنا اور پھر یہاں آگئے اور پھر خدا نے ان پر بہت مہربانی کی ۔ تین پڑھے لکھے نوجوان بیٹے عمر، حمزہ اور علی امریکہ میں کامیاب کاروبار کرتے ہیں... ایمانداری اور غریبوں پر خرچ کرنا اس خاندان کا طرہ امتیاز ہے لہٰذا خدا نے بھی رزق میں برکت ڈال دی ہے۔
میں نے کہا ،مشتاق بھائی !بڑے عرصے بعد کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوئی ،جو زندگی سے مطمئن لگتا ہے، جس سے باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آپ کی شخصیت میں کچھ خاص مٹھاس اور چاہت ہے۔
ہنس پڑے اور کہا :کوشش کی ہے کسی سے زیادتی نہ کروں، کچھ بن پڑا تو کسی کی مدد کردی۔ بتانے لگے کہ دوستوں کی مدد سے شیخوپورہ میں ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت یتیم بچیوں کے لیے سکول اور کالج بنایا جارہا ہے ،جس میں بورڈنگ کی جگہ بھی ہوگی۔ اس میں صرف یتیم بچے ہی داخل ہوں گے۔
میں نے کہا :مشتاق بھائی یہ سب درست لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بچہ محض اس وجہ سے داخلے سے رہ جائے کہ اس کا باپ زندہ تھا ۔ جہاں یتیم حق دار ہوتے ہیں وہیں غریب بھی ہوسکتے ہیں۔
ان کا بیٹا حمزہ ،جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا سن رہا تھا اچانک بول پڑا کہ بات تو درست ہے۔
مشتاق بھائی بولے کہ وہ شامی صاحب اور بورڈ کے ارکان سے اس بارے میں درخواست کریں گے۔ پھر کہنے لگے: آپ جنوبی پنجاب کے ایشوز پر لکھتے اور بولتے ہیں ،سب سے زیادہ لیڈراس علاقے سے ہی ابھر کر سامنے آئے اور وزیراعظم، صدر، وزیر، گورنر بنے ،لیکن وہ ترقی نہیں ہونے دیتے۔ میں نے مذاقا ًکہا کہ پھر میں بھی ان کی طرح اقتدار میں شامل ہوکر چپ ہوجائوں؟وہ خاموش رہے۔
میں نے کہا :مشتاق بھائی !جب ون یونٹ توڑ کر صوبوں کو بحال کیا گیاتو ریاست بہاولپور کو پنجاب میں ضم کردیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے 1973ء کے آئین میں سندھیوں کو سی ایس ایس اور فیڈرل نوکریوں میں کوٹہ تو دے دیا لیکن پنجاب میں سرائیکیوں یا جنوبی پنجاب کو کوٹہ نہ دیا۔ یوں جنوبی پنجاب کو بیوروکریسی میں جگہ نہ مل سکی۔ جب بجٹ بننے لگتے ہیں تو بیورو کریسی میں جنوبی پنجاب کا بندہ نہ ہونے کی وجہ سے پہلے تو منصوبے ہی نہیں بنتے۔ کوئی منصوبہ منظور ہوبھی جائے تو لاہوری بابو پیسے ریلیز نہیں کرتے ۔ صدر لغاری سے لے کر سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی تک سب نے مسائل کا سامنا کیا ۔ وہ اگر کچھ کرنا چاہتے تھے تو بھی بیوروکریسی ،جس کا تعلق جنوبی پنجاب سے نہ تھا،نے نہیں ہونے دیا ۔ یہی وجہ ہے آج بھی ملتان کی اہم سڑکوں کے منصوبے ادھورے ہیں کیونکہ ان کا فنڈز گیلانی کے جانے کے ساتھ ہی روک لیا گیا ہے جب کہ لاہور میں میٹرو بس کے بعد اب میٹرو ٹرین چلے گی۔ پنجاب کو سات سو ارب روپے
سالانہ این ایف سی کے تحت ملتے ہیں لیکن جنوبی پنجاب کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا ۔ موقع ملے تو میانوالی ملتان روڈ پر سفر کر کے دیکھیں ،لگے گا مغلوں کے ہندوستان میں بھی سڑکیں بہتر ہوتی ہوں گی۔ جنوبی پنجاب کو سیاسی طاقت دی جاتی ہے لیکن معاشی اور انتظامی طاقت کوئی نہیں دیتا۔ جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کو خوف ہے کہ اگر وہ بولے تو ٹکٹ نہیں ملے گی ۔ ایک ٹکٹ ، وزارت اور اپنی مرضی کے ایس ایچ او کے لالچ نے سب کو ڈھیر کر دیا ہے۔ جنوبی پنجاب مزید غربت میں ڈوب رہا ہے۔ اگر این ایف سی کے سات سو ارب روپے میں سے اسے ایک سو ارب روپے بھی مل جاتے تو اس کے تمام مسائل حل ہو جاتے۔
مشتاق بھائی کی باتوں میں دھیان نہ رہا ،رات ڈھل گئی تھی۔
خدا کی شان نرالی ہے۔ جس منشی صاحب کے پاس سرگودھا کے گائوں میں ایک زمانے میں کچھ بھی نہ تھا ، آج انہی کے بچوں نے پاکستان میں کروڑوں روپوں کے تعلیمی منصوبے یتیم اور غریب بچوں کے لیے شروع کررکھے ہیں۔فلاحی منصوبوں، شوکت خانم ہسپتال اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت کے لیے دی گئی امداد اس کے علاوہ ہے۔
نیویارک سے کچھ فاصلے پر لانگ آئی لینڈ میں واقع اس خوبصورت گھر سے باہر رات گئے تازہ ہوا کے جھونکے اپنے چہرے پر محسو س کر کے دور بادلوں سے برسرپیکار میٹھی روشنی پھیلاتے چاند کو دیکھ کر سوچا ، ہندوستان سے لٹے پٹے نیک انسان منشی صاحب جن کی شرافت اور نیکی کی وجہ سے گجر برادری کے ایک ملاجی نے مسکرا کر اپنی برداری سے تعلق ختم کر دیا تھا ، اس سے زیادہ اور خدا سے کیا مانگ سکتے تھے؟
منشی جی کے اس خاندان کا نیکی کا سفر نیویارک میں بھی جاری ہے۔