شاید پاکستان میں یہ خبر کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ حالیہ الیکشن جیت کر ایسی پارٹیاں یورپی پارلیمنٹ میں پہنچ گئی ہیں جو مسلمانوں اور تارکین وطن کے ردعمل میں بنیں۔ انہوں نے راتوں رات کامیابی حاصل کر لی ہے۔ تارکین وطن مسلمانوں یا پاکستانیوں کے ردعمل میں بننے والی ان جماعتوں کو ہم یہ کہہ کر مسترد کر سکتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں سے روایتی بُغض ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم سمجھنے کی کوشش کریں‘ آیا ساری دنیا پاگل ہو چکی ہے یا پھر ہم میں بھی کوئی خرابی ہے؟
مجھے یاد ہے 2007ء میں ایک برطانوی اخبار میں سروے چھپا تھا‘ جس کے مطابق یورپ کے ساٹھ فیصد لوگ اس حق میں ہیں کہ مسلمانوں کو شہریت نہ دی جائے کیونکہ ان کے خیال میں وہ ان کی طرز زندگی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اخبار نے لکھا تھا‘ حیرانی کی بات ہے سیکولر یورپ ان خطوط پر سوچنے لگ گیا تھا۔ میں نے اس وقت بھی کالم لکھا تھا کہ یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشکل دن شروع ہونے والے ہیں؛ چنانچہ ہمیں اپنا رویہ بہتر بنانا ہو گا۔ رویہ خاک بہتر ہوتا‘ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی۔ برطانیہ کے ایک پارک کے باہر پوسٹر پر لکھا ہوا تھا ''یہ پارک اب مسلمانوں کا ہے‘ یہاں کتے لانا منع ہے کیونکہ ہم مسلمان کتوں کو پسند نہیں کرتے‘‘۔ اب ذرا تصور کریں‘ جو انگریز اس پارک میں اپنے کتوں کے ساتھ واک کرنے جاتے ہوں گے، ان کا یہ پوسٹر پڑھ کر کیا حال ہوتا ہو گا؟ ابھی پچھلے دنوں برطانیہ کے ایک شہر کے دو درجن سکولوں کے بارے میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان سے گئے مسلمانوں نے ان پر قبضہ کر کے اپنی مرضی کی تعلیم دینا شروع کر دی اور سکول کی گوری استانیوں کو ہراساں کر کے وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انگریزوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور اب وہاں تحقیقات ہو رہی ہیں۔
جب لندن میں رہ رہا تھا تو میں نے خود کئی دوستوں سے سنا کہ
وہاں فراڈ کرنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی تھیں کہ یقین نہیں آتا‘ لیکن ایک دن خود میرے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آیا تو مجھے یقین کرنا پڑا۔ لندن میں ایک میاں بیوی ملے جو پاکستان سے سٹوڈنٹ ویزے پر گئے تھے۔ چند دن بعد انہیں پتہ چلا کہ میں بیوی بچوں کے ساتھ پاکستان لوٹ رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے پیشکش کی کہ اگر آپ چاہیں تو پاکستان لوٹنے سے قبل دس ہزار پائونڈ کما سکتے ہیں۔ پھر شوہر بتانے لگا کہ وہ ایک ہسپتال میں کام کرتا ہے اور یہ کہ جب اس کی بیوی بیمار ہوئی تو اس نے کیسے جعلی دستاویزات بنوا کر ہزاروں پائونڈ انشورنس کمائی تھی۔ وہ بولا: آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا ہو گا۔ میرا گروہ آپ کو ایک کار دے گا۔ آپ اس میں اپنے بیوی بچوں سمیت سوار ہوں گے۔ اس گاڑی سے ایک اور گاڑی ٹکرائے گی۔ آپ کو اس کے بعد دس ہزار پائونڈز مل جائیں گے۔ میرا غصے سے بُرا حال ہو گیا لیکن وہ بولتا رہا: یہ انشورنس کا کھیل ہے‘ آپ کو سمجھ میں نہیں آئے گا‘۔ جس گاڑی میں بچے ہوں‘ اس کی انشورنس زیادہ لی جا سکتی ہے۔ میں حیرانی سے اسے دیکھتا رہا کہ یہ کیسا پڑھا لکھا آدمی ہے۔ چند دن بعد موصوف پر ایک کم عمر سیاہ فام لڑکی کو چھیڑنے کا مقدمہ بنا تو وہ پاکستان بھاگ گیا اور اس کی بیوی ایک ماہ بعد واپس لوٹ گئی لیکن جانے سے پہلے اس نے کسی بینک کے کریڈٹ سسٹم کو نہیں بخشا اور خاصا مال بنا کر لوٹی۔ آج کل دونوں پاکستان سے ایک اور یورپی ملک کا ویزا لے کر فراڈ کا نیا کاروبار چلاتے ہیں۔
اس طرح کی کہانیاں آپ کو ہر ملک میں سننے کو ملتی ہیں۔ اگرچہ آج کل سٹوڈنٹ ویزا کے ذریعے برطانیہ جانا عام ہے لیکن اب اس پر بھی کافی پابندیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ کم پڑھے پاکستانی‘ جو سٹوڈنٹ ویزا نہیں لے سکتے، وہ پہلے غربت یا بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر قرضہ مانگ کر ایجنٹ کے ذریعے ویزے لگواتے ہیں، ایرانی فائرنگ سے بچ جائیں تو ترکی یا یونان کی سرحد پر مارے جاتے ہیں، وہاں سے بچ جائیں تو پھر کسی کنٹینر میں دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ پھر بھی کچھ یورپ کے کسی نہ کسی ملک میں گھس ہی جاتے ہیں۔ ایسے افراد کئی دن چُھپ کر رہیں گے۔ کسی دکان پر کم مزدوری پر کام کریں گے۔ کوشش کریں گے‘ کسی مقامی لڑکی یا ادھیڑ عمر عورت سے پیپر میرج یا شادی کر کے شہریت لے لیں‘ لیکن جونہی شہریت ملے گی‘ غیرت جاگ جائے گی اور اسے طلاق دے کر پاکستان کا رخ کریں گے اور کوئی نیک لڑکی ڈھونڈیں گے۔ پھر یورپ واپس لوٹ کر اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ زیادہ تر سوشل بینیفٹ لیتے رہتے ہیں۔ جب بچے سکول پڑھنے جانے لگتے ہیں تو انہیں پہلی دفعہ احساس ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ تو ان کی سوچوں سے مختلف ہے۔ اپنے اردگرد پھرتے انگریز اور یورپی انہیں برے لگتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ پاکستان لوٹ جائیں یا پھر وہیں رہ کر اس معاشرے کو مسلمان کرنے کی کوشش کریں۔ واپس وہ لوٹ نہیں سکتے لہٰذا اس معاشرے کو مسلمان بنانے کا بیڑا اٹھاتے ہیں اور پھر اس طرح کے پوسٹر آپ کو پارک کے باہر ملتے ہیں کہ یہاں انگریزوں کا کتوں سمیت داخلہ منع ہے۔
ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کو زبردستی پاکستان لا کر ان پڑھ جاہل کزنوں سے اپنی بیٹیوں کی شادی کرائیں گے اور اس طرح کئی کہانیاں جنم لیں گی۔ ارشد شریف اور میں 2010ء میں ناروے گئے تو فارن آفس کی خاتون افسر نے ہمیں بتایا تھا کہ صرف پاکستانی ہیں‘ جن کے ساتھ انہیں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ یہ اوسلو میں رہنے والے پاکستانی خاندانوں میں شادی نہیں کریں گے بلکہ پاکستان سے اپنے گائوں میں اپنی برادری کی لڑکی ڈھونڈ کر لائیں گے۔ پہلے رو رہے ہوتے ہیں کہ پاکستانیوں کو لوکل کلچر میں کیسے ضم کریں لیکن پھر درجنوں کے حساب سے نئی دلہنیں وہاں پہنچ جاتی ہیں۔ وہ پریشان تھی کہ پاکستانی اوسلو میں رہنے والے دیگر پاکستانی خاندانوں میں شادیاں کیوں نہیں کرتے؟
ہم یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ یورپ نے کئی صدیوں تک اپنے مذہبی رہنمائوں کا ظلم و ستم سہا ہے؛ تاہم یورپی آج بھی دوسرے مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ لندن کے مشہور ٹریفالگر اسکوائر میں مسجد میں لائوڈ سپیکر سے اذان تک کی اجازت دی گئی ہے۔ اس طرح کی مذہبی آزادیاں یورپ میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہیں لیکن وہ ایک بات ماننے کو تیار نہیں کہ مذہب ان کی زندگیوں میں دخل دینے کی کوشش کرے۔ جب برطانیہ میں یہ خبر پھیلے گی وہاں سے کئی مسلمان نوجوان شام لڑنے گئے ہیں تو یقیناً وہاں خوف پیدا ہو گا کہ یہ نوجوان کیا ایجنڈا لے کر لوٹیں گے۔
نیویارک میں میاں مشتاق احمد جاوید نے بتایا کہ اکثر پاکستانی ورکرز کو کبھی اپنے مالک سے خوش نہیں دیکھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانیوں کی جگہ اب بنگالیوں کو نوکری دینے کا رواج بڑھ گیا ہے۔ میں نے کہا: مشتاق بھائی زیادہ تر لوگ مزدوری کے لیے یہاں آئے تھے‘ ان کی اخلاقیات ان پاکستانیوں سے مختلف ہوتی ہے جنہوں نے میڈیکل‘ انجینئرنگ، آئی ٹی، بزنس یا دوسرے شعبوں میں امریکہ اور یورپ میں نام کمایا اور پاکستان کی عزت بڑھائی۔ عام پاکستانی ایماندار اور اچھے ہوتے ہیں۔
ہو سکتا ہے بہت سارے پاکستانی یہ کالم پڑھ کر ناراض ہوں؛ لیکن ان کے ناراض ہونے سے حقائق نہیں بدلیں گے۔ ہو سکتا ہے پوری دنیا ہی غلط ہو اور ہم درست کہتے ہوں؛ تاہم ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپ جو کبھی برداشت اور انسانی حقوق کا علمبردار تھا‘ آج وہاں وہ پارٹیاں جیت رہی ہیں جو مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اپنے ہاں شہریت دینے کو تیار نہیں۔ شاید یورپ نے بعض دوسرے ممالک سے یہ سیکھ لیا ہے کہ ایئرپورٹ پر اترتے ہی پاکستانیوں کا پاسپورٹ اپنے قبضے میں لے لو، شہریت نہ دو، ان کے بچوں کو اپنے بچوں کے ساتھ سکولوں میں نہ پڑھنے دو۔ انہیں انسانی حقوق کا نام تک نہ لینے دو۔ شاید اسی لیے ان ممالک میں سکون ہی سکون ہے۔ شاید اگلی باری یورپی حکومتوں کی ہے اور شاید وہ دن زیادہ دور نہیں جب تارکیں وطن کی شہریت واپس لے کر انہیں اپنے اپنے ملکوں میں بھیجنے کا کام شروع ہو جائے گا۔ پرابلم کس کے ساتھ ہے؟ یورپی تارکیں وطن مسلمانوں کے ساتھ ہے جو اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی اکثریت پر اپنی مرضی کا معاشرہ تھوپنا چاہتے ہیں یا پھر یورپ کے ساتھ مسئلہ ہے کہ اب وہ مسلمانوں کو مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں اور یوں صلیبی جنگوں کے دور کی طرف لوٹ رہے ہیں جس کا اشارہ امریکی صدر بش نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اپنی ایک تقریر میں بے دھیانی میں دیا تھا۔ یورپ میں تارکیں وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر الیکشن جیتنے والی پارٹیاں بہت جلد اس کا فیصلہ کرنے والی ہیں!