ماہر امراض قلب ڈاکٹر احتشام قریشی کا فون تھا۔ کہنے لگے ''شاہ جی واشنگٹن چلتے ہیں۔ بالٹی مور میں کچھ کام ہے وہاں سے ڈی سی چلیں گے اور رات کو لوٹ آئیں گے‘‘۔ اوکاڑہ کے دوست اکبر چوہدری کا کئی دفعہ فون آچکا تھا کہ ویک اینڈ پر واشنگٹن ہی آجائیں۔ اس لیے چل پڑے۔ شام گئے واشنگٹن میں ایک سابق پاکستانی پولیس افسر سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی ۔ وہ میرے کالم پڑھتے رہتے ہیں ۔ بولے آپ نے تو جو کچھ لکھنا تھا وہ لکھ دیا اب تصویر کا دوسرا رخ دکھائیں؟ طاہر القادری کے مدرسے پر پولیس نے حملہ کر کے قتل عام کیوں کیا؟
مذہبی لوگوں کے یہ مرید ٹائپ لوگ معاشرے کا کچلا ہوا طبقہ ہے‘ جس کے پاس دوائی کے پیسے نہیں ہوتے؛ چنانچہ وہ ڈاکٹر کی بجائے دعا اور دم کے لیے پیر صاحب کا رُخ کرتے ہیں۔ بیٹی کا گھر نہ بس رہا ہو تو بھی پیر سے تعویذ اور دعا کرائیں گے۔ ان کے نزدیک ہر مسئلے کا حل پیر اور مذہبی راہنما ہی ہیں ۔ یہ زیادہ تر ایک خاص مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جو تشدد پسند نہیں ہوتا۔ ان کے پاس تو دوائی کے پیسے نہیں ہوتے‘ بندوقیں کہاں سے لائیں گے۔ بولے‘ وہ خود اہم اضلاع میںایس ایس پی تعینات رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہے بریلوی مسلک کے لوگ تشدد پسند نہیں ہوتے۔ یہ مار کھالیں گے لیکن جواباً ماریں گے نہیں ۔ یہ خودکشں حملے نہیں کریں گے اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگ۔ اس لیے پولیس کو پتہ تھا۔ انہوں نے ان پر چڑھائی کر بھی دی تو ان کا کچھ نہیں بگڑ ے گا ۔ ان پر جواباً فائرنگ نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی بم باندھ کر ان پر چڑھ دوڑے گا۔ مختلف مسلکوں کے رہنمائوں کا نام گنواتے ہوئے کہنے لگے کہ پولیس میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ رات کے اندھیرے میں ان کے لیڈروں کے گھروں کے باہر سے رکاوٹ ہٹا دے؟ پولیس کبھی بھی نہیں جائے گی کیونکہ پتہ ہے گولیوں سے استقبال
ہوگا ۔ وہ بولے ہم پولیس والے بڑے سیانے ہوتے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ کہاں سے گولی آئے گی اور کہاں ہم جا کر گولیاں ماریں گے۔ میں اور ڈاکٹر احتشام حیرانی سے یہ سب کچھ سن رہے تھے۔ کہنے لگے پولیس کی فرسٹریشن کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ پہلے ایک پارٹی اقتدار میں آتی تھی تو باقی اپوزیشن میں رہتی تھیں اور یوں حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس والے مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیتے تھے‘ جس سے ان کا سال بھر کا غصہ نکل جاتا تھا ۔ جنرل مشرف تک بھی پولیس کا کام چلتا رہا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ورکرز کو ٹھوکتے رہتے تھے۔ اللہ بھلا کرے اپنے زرداری صاحب کا انہوں نے سب کو ساتھ ملالیا۔ سب پارٹیاں تو اقتدار میں بیٹھ گئی ہیں اور اپوزیشن کرنے کوئی نہیں بچا لہٰذا پولیس کس پر تشدد کرے؟ کس پر اپنی بھڑاس نکالے۔ لہٰذا بچ بچا کے پولیس کے ہاتھ طاہر القادری کے نہتے ورکرز لگ گئے۔ انہوں نے اپنے اندر برسوں کی چھپی بھڑاس نکال لی۔
میں نے پوچھا پولیس‘ مقابلوں میں بندے کیوں مارتی ہے؟ عدالتوں کو فیصلے کیوں نہیں کرنے دیتی۔ کہنے لگے عدالت نے کس بنیاد پر ان مجرموں کو سزائیں دینا ہوتی ہیں؟ وہ ثبوت تو ہم پولیس نے فراہم کرنے ہوتے ہیں۔ کس کا دل چاہتا ہے وہ اپنے ہاتھ سے گولیاں مار کر بندے ہلاک کرے۔ جب عدالتیں قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیں گی کہ ثبوت پورا نہیں ہے یا دہشت گرد سے ڈر جائیں گی تو پھر پولیس کیا کرے؟ ایک طرف عوام اور میڈیا کا دبائو اور دوسری طرف حکمرانوں کا اور آگے سے وہ ملزمان دھمکیاں دے کر ضمانتیں کرا لیتے ہیں یا بری ہوجاتے ہیں۔
ان کی باتیں سنتے ہوئے مجھے ڈیڑھ برس قبل روزنامہ دنیا میں فائل کی گئی سٹوری یاد آگئی کہ کیسے رحمن ملک نے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کو بریفنگ دی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کراچی میں کئی دہشت گردوں نے ججوں کو دھمکیاں دے کر رہائی پالی تھی ۔
وہ بولے جب پولیس کے علم میں ہوتا ہے کہ فلاں نے ریپ اور قتل کیے ہیں تو پھر وہ کیا کریں‘ اسے جانے دیں۔ جب ان کے پاس شواہد ہیں تو پھر وہ کیوں جج کی طرح فیصلہ نہیں کر سکتے؟ جج نے بھی پولیس کے شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دینا ہوتا ہے۔ بتانے لگے 2008ء سے پہلے کی بات ہے اشتہاری انتظاربلوچ نے بہاولپور کے کچھ اہم سیاستدانوں کو قتل کی دھمکی دی تھی ۔ ایک حکومتی سیاستدان کا لاہور سے فون آیا کہ اس کا کچھ کریں۔مطلب تھا بندہ پار کریں ۔ اس کے ساتھی کو تین لاکھ روپے دے کر خریدا گیا جس نے بتایا وہ کس ہوٹل میں مل سکتا ہے؛ چنانچہ پولیس مقابلہ کر کے اسے مار دیا گیا۔ ہر پولیس مقابلے کے بعد عدالتی انکوائری ہوتی ہے۔ انکوائری افسر نے ایک لاکھ روپے مانگے‘ بصورت دیگر مدعا پولیس پر ڈالنے کی دھمکی دی۔ ہم نے پچھتر ہزار روپے کی پیشکشں کی لیکن وہ نہ مانا۔ اسے ایک لاکھ روپے دینا ہی پڑے۔ اب بتائیں کہ ہم کیا کریں۔ ڈاکٹر احتشام نے میری اور میں نے اُس کی طرف دیکھا ۔
میں نے کہا یہ تو پھر جنگل کا قانون ہے۔ پھر معاشرے تو ختم ہوجائیں گے۔ جو کہانی آپ سنا رہے ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہم جنگل میں رہتے ہیں ۔ اگر یہ کام ہورہا ہے تو پھر عدالتیں کس لیے ہیں۔ وہ بولے آپ ہی کوئی حل بتا دیں ۔ رات گئے واپس لوٹنے لگے تو میں نے ڈاکٹر احتشام سے کہا حل تو آسان ہے لیکن حکمرانوں کے لیے مشکل ہے۔ ہم روتے تھے کہ بارہ کروڑ والے صوبے کے حکمران لاہور میں بیٹھ کر راجن پور، صادق آباد اور رحیم یار خان کے دور دراز اضلاع کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تو ان سے لاہور نہیں چل پارہا‘ باقی صوبہ تو دور کی بات ہے۔ شہر بہت پھیل گئے ہیں۔ آبادیاں بڑھ گئی ہیں۔ شہروں میں سہولتیں اگر دس لاکھ انسانوں کے لیے بنی تھیں تو اب ایک کروڑ لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ ملتان کو ہی دیکھ لیں وہاں پچاس برس سے زیادہ گزر گئے لیکن وہی ایک نشتر ہسپتال۔
مسلمان ملکوں میں یہ کیسی جمہوریت ہے‘ جو بھی اقتدار میں آتا ہے اپنے گھر میں ہی بندر بانٹ شروع کردیتا ہے۔ عراق کے وزیراعظم مالکی کو ہی دیکھ لیں‘ تیسری دفعہ وزیراعظم بن کر اپنے خاندان‘ رشتہ داروں اور ہم مسلک لوگوں کو نوازا۔ اور آج اسے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان میں ہورہا ہے۔ جب جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنی ہو تو عام آدمی خون میں نہاتا ہے لیکن جب اقتدار ملتا ہے تو اس وقت خاندان اور برادری کے افسران ہی انعام پاتے ہیں۔ اگر آپ پولیس اور طاہرالقادری کے ورکرز کو دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ وہ دونوں ایک جیسی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کا ایک ہی بیک گرائونڈ ہے۔ کچھ سرکاری ملازم ہوگئے ہیں تو کچھ طاہرالقادری کے مرید بن گئے۔ پولیس اب ریاست سے زیادہ حکمرانوں کی نوکر بن گئی ہے۔ جن کے ٹیکسوں سے تنخواہ ملتی ہے انہیں ہی قتل کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر گولیاں نہ چلائیں تو تنخواہ بند ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے پولیس ہو یا پھر طاہرالقادری کے پیروکار‘ دونوں اپنے سے بہتر کلاس اور طبقے کی حفاظت کے لیے ایک دوسرے کا لہو بہا رہے تھے۔
حکمرانوں کے طبلچی اور قصیدہ گو کچھ بھی کہتے رہیں لیکن یہ جمہوریت نہیں۔ جمہوریت میں سبھی اپنے آپ کو اس کا حصہ سمجھتے اور فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ جمہوریت وہ نہیں ہوتی جہاں ایک خاندان اپنے بیس افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کردیتا ہے۔ ایسی جمہوریت پاکستان کو کمزور کررہی ہے۔ جمہوریت کے نام پر مغل حکمرانوں کا دور لوٹ آیا ہے۔ ہمیں مغلوں کی بادشاہت کا ماڈل اچھا لگتا ہوگا لیکن شاید بہادر شاہ ظفر کے انجام کو بھول گئے ہیں۔ میں نے کہا چھوڑیں ڈاکٹر صاحب! کوئی میوزک ہی سنا دیں۔ اپنے پورے خاندان کو قتل کرانے کے بعد رنگون کے قلعے میں فرنگیوں کے قیدی ہندوستان کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی‘ صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئی ہزاروں میل دور‘ اس رات کی تاریکی میںدل کو چیرتی ہوئی دکھی آواز‘ اداس پھول کی زرد پتیوں کی طرح چاروں اطراف بکھرنے لگی:
لگتا نہیں ہے دل میرا، اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
بلبل سے کوئی شکوہ نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں