لاکھوں قبائلی آسمان تلے بیٹھے ہیں ۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیں اور وہ ہمارے اندر رہ کر ہم سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لیتے رہیں یا پھر اس بحران سے فائدہ اٹھا کر ہم ان قبائل کی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں اور ان کے بچوں کو وہی ماحول فراہم کریں جو ہم اپنے بچوں کے لیے پسند کرتے ہیں ؟ ایک تو وہی بات جو صدر زرداری نے ایک امریکی اخبار کو کہی تھی کہ وہ چاہتے تو سوات میں لاکھوں لوگوں کو گھروں سے نکالے بغیر بھی آپریشن کیا جا سکتا تھا لیکن اس وقت سوچا گیا کہ سوات کے لوگوں کو بھی تھوڑی سی سزا ملنی چاہیے کہ وہاں کی عورتیں ''ملا ریڈیو‘‘ پر زیوارت نچھاور کرتی تھیں کہ وہ شریعت لائے گا ۔ وہ بے گھرہوں گے، لوگوں کی خیرات پر جئیں گے تو انہیں پتہ چلے گا کہ اپنے گھر کو آگ نہیں لگانی چاہیے ورنہ سب کچھ اپنا ہی جل جاتا ہے۔ شاید زرداری کی بات درست نکلی کہ بے چارے سواتیوں نے سبق سیکھ لیا اور طالبان کے ختم ہونے پر شکر کیا اور اب پانچ سال ہونے کو ہیں، سوات میں پھر طالبان کی تحریک نے جنم نہیں لیا۔ اس لیے ایک حل یہ ہے کہ ان قبائل کو دربدر پھرنے دیا جائے تاکہ انہیں امن کا احساس ہو۔
یا پھر محمود اچکزئی کی اس پرانی تقریر کا حوالہ دیا جائے جو وہ قومی اسمبلی میں دہراتے رہتے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ان قبائلیوں کے کندھوں کو افغانستان میں پراکسی جنگوں کے لیے استعمال کیا ۔ انہیں پہلے امریکہ اور یورپ سے اسلحہ اور ڈالر دلائے، روس سے لڑایا اور جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے دبائو ڈالا تو اپنے جہادیوں کو افغانستان سے نکال کر قبائلی علاقوں میں یہ سوچ کر بسایا کہ امریکہ واپس جائے گا تو اپنے ان ہتھیاروں کو پھر استعمال کریں گے۔ جب امریکہ کا دبائو بڑھا تو انہی کی مخبریاں کر کے اور انہیں گرفتار کر ا کے ڈالر کمائے گئے؛ تاہم اس سارے منظر نامے میں اہم سوال یہ ہے کہ قبائلیوں نے اپنے کندھے کیوں استعمال ہونے دیے؟ انہوں نے ڈالرز اوربندوق دوسروں سے کیوں لی ۔ جب ڈالر مل رہے تھے تو سب کا کام چل رہا تھا جب ڈالر بند ہوئے تو کھیل شروع ہوا اور پھر دہشت گردی کا کھیل کھیلا جانے لگا ۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ہی دنیا بھر کے دہشت گرد قبائلی علاقے میں اکٹھے کیے تھے تو سوال یہ ہے کہ قبائل نے کیوں انہیں اپنے گھروں میں پناہ دی‘ جن کے پیچھے دنیا کے ملک ڈرون لے کر پڑے ہوئے تھے۔ کیوں اپنے بچوں اور عورتوں کی زندگیوں کو تباہ کیا گیا ؟ کیسے وہ غیرملکی ان علاقوں کے مالک بن بیٹھے جو دوسروں ملکوں پر حملہ کر کے یہاں چھپنے کے لیے آتے تھے۔ قبائلیوں کو کبھی بی ایریاز سے اے ایریاز لانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ بلوچستان میں جنرل مشرف کے دور میں بارہ ارب روپے لگا کر نئے تھانے تحصیلیں، سکول بنائے گئے، فورسز بھرتی کی گئیں تاکہ قبائل کو متمدن شہریوں میں بدلا اور قانون کے تابع کیا جائے۔ 2008ء کے بعد جونہی جمہوریت لوٹی تو سرداروں کے حکم پر اے ایریاز کو دوبارہ بی ایریاز میں بدل دیا گیا۔ یوں بارہ ارب روپے ضائع گئے اور قبائل پھر سے جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبورہو گئے۔ یہی کچھ فاٹا میں کیا گیا ۔ اسے بھی اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا۔۔ہم نے یہ سمجھ لیا قبائل کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کرنی۔ یہ جیسے چاہتے ہیں اپنی زندگی گزاریں ۔ اور تو اور انگریزوں کے دور کے ایف سی آر قانون تک کو بدلنے کی زحمت نہ کی گئی۔ یوں ہم نے خود ہی وہ راستے کھول دیے جن پر چلتے ہوئے ازبک، تاجک، چیچن اور دیگر‘ ان علاقوں میں گھس آئے۔ انہوں نے علاقے کے ملکوں کو‘ جو معزز لوگ کہلاتے تھے‘ ایک ایک کر کے‘ قتل کرنا شروع کیا۔ ریاست کی رٹ پہلے ہی نہ تھی ملک کو مارنے کے بعد کوئی بھی نہ رہا جو ان کا راستہ روکتا۔ ہماری سمجھ دار اسٹیبلشمنٹ کو قبائلیوں پر پھر بھی ترس نہ آیا کیونکہ ان کا خیال تھا‘ وہ ان سب کو افغانستان کی پراکسی جنگوں میں لڑائیں گے۔ پختون کو ہوا بھری جاتی رہی کہ وہ بہادر ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس بہادری کا انجام یہ نکلا کہ وہ آج بیوی بچوں کو لے کر دربدر ہورہا ہے۔سب نے ان قبائل کو استعمال کیا ۔ قبائل کو بھی مال کھلایا اور خود بھی ارب پتی بن بیٹھے۔ مارنے اور مرنے والے دونوں پختون تھے۔ بینک بیلنس کسی اور کے بھرتے رہے۔
اس صورتحال کو اس طرح بھی سود مند بنایا جا سکتا ہے کہ فاٹا اور قبائلی علاقوں کو گلگت بلتستان کی طرح نئے صوبے کی شکل دی جائے۔ نئے صوبے کی فوری تشکیل کر کے اسے اپنی اسمبلی اور سیکرٹریٹ تعمیر کرنے کے لیے این ایف سی میں سے دو سو ارب روپے دیئے جائیں۔ دوسرے صوبوں کی طرح اس کے بھی اپنے سرکاری ملازمین، پولیس، سول ایجنسیاں ہوں۔ یوں در بدر قبائلیوں کے لیے فاٹا صوبہ میں ہزاروں نوکریاں نکل سکتی ہیں ۔ اس علاقے کو دس برس کے لیے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بیروزگاری کا معاملہ فوری طور پر حل ہوسکتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ قبائلی جو اس وقت پاکستان کے مختلف حصوں میں پھیل چکے ہیں وہ فوراً اپنے علاقوں میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں گے کہ ان کے اپنے صو بے میں ہزاروں نئی نوکریاں انہیں مل سکتی ہیں۔ جاپان‘ امریکہ اور یورپ سے کہہ کر‘ جو پہلے ہی تیار ہیں‘ فاٹا کے علاقوں میں نئے جدید شہر بسائے جائیں ۔ آٹھ لاکھ لوگوں کے لیے نئے شہر بسانا جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کوئی مشکل کام نہیں۔ ملک ریاض ایک لاکھ قبائلیوں کا دوران جنگ خیال بھی رکھیں اور اس دوران وہ ایک لاکھ خاندانوں کے لیے فاٹا میں ایک شہر بھی تیار کر کے دیں اور وہ کر بھی سکتے ہیں۔ ایک ایک لاکھ کی آبادی کے آٹھ شہر فاٹا میں مختلف مقامات پر بنائے جا سکتے ہیں۔ ان شہروں میں ضلعی حکومتوں کے ذریعے مقامی لوگوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر خود حکمرانی کریں۔ وہ اپنے نمائندے خود چنیں۔ ان کا اپنا وزیراعلیٰ، گورنر ہو، ان کے نمائندے ہماری قومی اسمبلی، اور سینٹ میں براہ راست منتخب ہوں۔
دوسرا حل یہ ہے: جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر جو کچھ ہے‘ اسے چلنے دو۔ ملک کے دوسرے حصوںکا حال کون سا اچھا ہے کہ قبائل کو ہم اربوں روپے سے اچھی زندگی دینے کی کوشش کریں ۔ ٹھیک ہے جس قبائلی کا سر جہاں سما گیا ہے اسے وہیں رہنے دیں۔ کراچی میں ہزاروں قبائلی خاندان داخل ہوگئے ہیں ۔ وہ جس ماحول سے نکل کر کراچی گئے ہیں اس میں اور کراچی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کچھ عرصے بعد یا تو یہ قبائل خود کراچی کے رنگ میں ڈھل جائیں گے۔ ان کے بچے بھی پولیو کے قطرے پئیں گے‘ سکول جائیں گے‘ کاروبار کریں گے تو ان کے اندر سے روایتی سختی اور تشدد ختم ہوجائے گا۔ یہ ہر وقت بندوق بدست نہیں گھومیں گے اور نہ ہی چاند ماری ہوگی۔ ہوتے ہوتے یہ بھی ایک دن ہم باقی پاکستانیوں کی طرح اچھے برے شہری بن جائیں گے۔
کس کا جی چاہے گا کہ وہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی چھوڑ کر دوبارہ پہاڑوں میں جا بسے جہاں کیاپتہ پھر کسی دن ہماری اسٹیبلشمنٹ کو پھر افغانستان میں نئی پراکسی جنگ کی ضرورت پڑجائے اور پھر ان کے گھروں پر گولے گرنے شروع ہوجائیں۔
ایک اور خوفناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ قبائلی لوگ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں کوئی بہتر نوکری نہیں ڈھونڈ سکیں گے کیونکہ ان کے پاس تعلیم نہیں ہے۔ وہ کاروبار کریں گے تو مقامیوں کے ساتھ معاشی تصادم شروع ہوگا ۔ جب انہیں بہتر ملازمت نہیں ملے گی تو شہروں میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ بڑے شہروں اور قبائلیوں کے کلچر میں فرق اتنا زیادہ ہے کہ خونی تصادم میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ شہروں میں جرائم مزید بڑھیں گے۔ مقامی اور ان قبائلیوں میں کچھ عرصے بعد معیشت پر قبضے کے لیے ایسی خونی لڑائیاں ہوں گی جیسے کراچی‘ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں افغانوں کے آنے کے بعد مختلف نسلی اور لسانی گروہوں میں ہوئیں۔
تو اب کیا حل ہوسکتا ہے؟ میری رائے یہی ہے کہ فاٹا میں آٹھ نئے شہر بسا کر وہاں آٹھ لاکھ لوگوں کو نئی زندگی دی جائے۔ ایسا کرنا ملک کے مستقبل کے مفاد میں سرمایہ کاری کرنے کے مترادف ہوگا۔ انہیں بھی پرسکون زندگی گزارنے کا حق اور موقع ملنا چاہیے۔ ہم نے ان قبائل کو استعمال کرتے ہوئے بہت کچھ کما لیا ہے۔ انہیں ایک نئے نظام زندگی، نئے سکول، سڑکیں، کارخانے، اسمبلی سیکرٹریٹ، دفاتر اور کارخانوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دنیا سے اپیل کریں تو اربوں ان کے لیے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ اگر کہیں سے پیسے نہیں ملتے تو اپنے پاکستانیوں سے اپیل کر کے دیکھیں۔ ان بے گھر قبائلیوں کو آپ پہلے سے جرائم اور بڑھتی آبادی کا شکار شہروں میں بسانے کی بجائے نئے شہر بسا کر دیں اور وہیں بنا کر دیں جس ماحول میں وہ رہتے ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہیں میں جنگ و جدل کے اس ماحول میں در بدر بے گھر قبائلیوں کے لیے علیحدہ فاٹا صوبہ ، ان کا گورنر، وزیراعلیٰ، سیکرٹریٹ، ہزاروں نوکریوں اور ایک ایک لاکھ کے آٹھ نئے شہر بسانے کی جو ضلعی حکومت کے تابع ہوں، باتیں کر کے کسی لاڈلے کی طرح کھیلن کو چاند تو نہیں مانگ رہا۔ کیونکہ ان قبائلی علاقوں میں جاری شورش اور افغانستان میں پراکسی جنگوں کے کھیل کی وجہ سے ہی ہم میں سے بہتوں کا مال پانی چل رہا ہے؟