سب پوچھتے ہیں امریکہ میں تین ماہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے لیکن امریکہ کے بارے میں زیادہ کیوں نہیں لکھتا ۔ دوسرے کالم نگار اور صحافی بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں کی کہانیاں‘ اچھی باتیںاور طریقہ زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں۔
ان سب کا خیال ہے کہ اگر میں امریکہ کے بارے میں لکھوں تو شاید اس کا پاکستانیوں پر اچھا اثر پڑے گا۔
شاید عمر بڑھنے کے ساتھ میں سنکی ہورہا ہوں لیکن میرا ان باتوں سے اب ایمان اٹھ گیا ہے کہ ہم پاکستانی دوسروں سے کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ شاید ہم ایک ملک یا قوم کے طور پر عمر کے اس حصے سے گزر گئے ہیں جہاں کوئی قوم یا بندہ سیکھ سکتا ہے۔ میں ایسے جغادری دانشوروں کو جانتا ہوں جو دن رات قوم کو اپنے علم کی روشنی سے منور کرتے رہتے ہیں لیکن عمر بھر درسی کتب کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا۔جب ہم نے خود فیصلہ کر لیا ہے کہ اب کچھ نہیں سیکھنا یا پڑھنا تو پھر ہمارا ذہن کیسے بدل سکتا ہے یا پھر ہم کوئی نئی بات کیسے سیکھ سکتے ہیں ؟
تو آپ کو کیا بتایا جائے جس کا حکمرانوں یا آپ کو پہلے سے پتہ نہیں ہے؟
چلیں مان لیتے ہیں عام پاکستانیوں کو حج یا عمرے کے علاوہ شاید پاکستان سے باہر جانے کا موقع نہ ملا ہو۔ لیکن کسی سیاستدان یا سرکاری افسر کا نام بتائیں جو پاکستان سے باہر کسی ترقی یافتہ ملک میں نہ گیا ہو(وہ بھی عوام کے خرچے پر) یا اس نے وہاں نہ پڑھا ہو یا اور کچھ نہیں تو جلاوطنی نہ گزاری ہو؟
کیا کسی فیڈرل سیکرٹری کو نہیں پتہ کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں ترقی کیسے ہوئی یا ہورہی ہے ؟ کیا ان کے اپنے بچے باہر نہیں پڑھتے یا پھر جب وہ ''پرائوڈ فادر‘‘ بن کر اپنے بچوں کے یونیورسٹی کانووکیشن میں جاتے ہیں تو وہ ان ملکوں کی سڑکوں پر سفر نہیں کرتے یا پھر ان کے قوانین اور ان پر عمل ہوتے نہیں دیکھتے یا پھر اپنی آنکھوں پر پٹی اور کانوںمیں روئی ڈال کر آتے اور چلے جاتے ہیں لہٰذا انہیں کچھ علم نہیں!
کیا وزیراعظم نواز شریف یا وزیراعلیٰ شہباز شریف لندن میں نہیں رہے کہ انہیں کچھ علم نہیں ہے کہ مہذب قوموں نے کیسے ترقی کی ہے یا پھر سابق صدر آصف زرداری تین برس نیویارک نہیں ٹھہرے اور انہیں علم نہیں کہ کبھی کراچی کی طرح نیویارک بھی دنیا میں جرائم پیشہ مشہور تھا اور کیسے اسے جرائم سے تقریبا صاف کر دیا گیا ہے؟
باقی چھوڑیں‘ ہمارے ہر سپیکر قومی اسمبلی کا سب سے بڑا خرچہ بیرون ملک دورے ہوتے ہیں۔ اکیلے تو جائیں سو جائیں، درجنوں کے حساب سے پارلیمانی وفود بھی جاتے ہیں اور ایک ایک دورے پر سالانہ کروڑوں خرچ ہوتے ہیں ۔ اس وفد میں شامل ایک ایک ایم این اے کو بیرون ملک سفر کا مفت ہوائی ٹکٹ، پانچ سے لے کر دس دن تک پانچ ستارہ ہوٹل اور روزانہ کا دو تین سو ڈالر خرچ علیحدہ ملتا ہے۔ پاکستانی سفارت خانے کی گاڑیاں، ڈرائیورز اور دیگر اہتمام اس کے علاوہ ہوتا ہے۔
ایک خبر کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے اس سال بیرون ملک دوروں کابجٹ تقریباً ڈیڑھ ارب، صدر ممنون حسین 35 کروڑ‘ جب کہ جنرل مشرف کے آخری تین سالوں پر دو ارب روپے اور وزیراعظم گیلانی نے بھی ایک ارب سے زیادہ ہی خرچ کیا تھا۔ تو کیا پاکستان بدل گیا ان سب کے بیرونی دوروں سے؟
شروع میں، میں ان دوروں کے حق میں تھا کہ ان پارلیمنٹرینز کو بیرون ملک سرکاری خرچ پر جانا چاہیے کہ جتنا باہر جائیں گے انہیں احساس ہوگا کہ ہم نے پاکستان کو بھی ویسا بنانا ہے۔ باہر کی دنیادیکھیں گے، اشاروں پر رکیں گے، قطاروں میں لگیں گے، وی آئی پی سلوک نہیں ملے گا تو شاید ملک لوٹ کر وہی انداز حکومت متعارف کرائیں گے کہ اگر وہ لندن میں قطار میں لگ کر ٹکٹ لے سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں کیا ہرج ہے؟ ہمارے ایم این ایز اور وزیر وہاں ہر ایک سے ملتے ہیں اور انہیں پتہ چلتا ہو گا ملک کیسے چلتے ہیں ۔ کیسے قانون کی حکمرانی ہی سپریم سمجھی جاتی ہے۔ وہاں ایک وزیراعظم کی بیوی بھی ٹرین پر بغیر ٹکٹ سفر کرے گی تو دھر لی جائے گی اور جرمانہ ہوگا...
تو کیا فرق پڑ گیا ان سب کے بیرون ملک دوروں اور ان پر کروڑوں روپے سالانہ کے اخراجات سے؟ کیا پاکستان میں مہذب ملکوں کی گورننس اور انداز حکمرانی نظر آتا ہے؟
اس طرح کرپٹ بیوروکریسی نے ضلعی نظام کو ناکام کرنے کے لیے ضلعوں میں ڈی سی او لگنے سے انکار کیا اور ورلڈ بینک سے دوارب روپے کا قرض لے کر سب بابوئوں نے امریکہ، لندن، یورپ اور آسٹریلیا تک کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے لے لیے اور سارا قرضہ عوام نے واپس کیا ۔ چلیںمیں خوش ہوا ہمارے بابو باہر سے پڑھ کر لوٹیں گے اور اپنے ملک کے گورننس سسٹم کو بہتر کریں گے اور جو دو ارب روپے ان کی اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہوئے‘ اس سے اعلیٰ نسل کے بیوروکریٹ تیار ہو کر لوٹیں گے۔
یہ بات 2001-2002ء کی ہے۔ تو کیا ہوا؟ یہ سب بابو لوٹ آئے۔ اپنے بچوں کے لیے اچھی اچھی یونیورسٹیاں تاڑ کر لوٹے۔ کیا دو ارب روپے ان بابوئوں کی اعلیٰ تعلیم پر خرچ ہونے سے پاکستان کے سول سروس سٹرکچر کا ڈھانچہ بہترہوگیا؟ ان بابوئوں کی ایمانداری اور اپنے کام سے کمٹمنٹ بڑھ گئی؟ ان افسروں نے اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھنا شروع کر دیا؟
پتہ چلا یہ تمام بابو تو وہاں عیاشی کرنے گئے تھے نہ کہ عوام اور ملک کی خدمت سیکھنے۔ ان سے کسی نے نہیں پوچھا آیا انہوں نے وہاں اپنی ڈگریاں بھی حاصل کی تھیں یا نہیں؟
پاکستان میں عوام کا پیسہ کس بے دردی سے خرچ ہوتا ہے‘ اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش ہوئی جس میں پوچھا گیا‘ پچھلے پانچ برسوں میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے افسران اور دیگر آفیشلز نے کتنے بیرون ملک دورے کیے، اور فوائد کیا حاصل ہوئے؟ ان افسران کے ناموں کی ایک طویل فہرست پیش کی گئی کہ کون کہاں گیا‘ لیکن ان میں سے ایک نے بھی لوٹ کر کوئی رپورٹ نہیں لکھی کہ اس دورے سے کیا فوائد انہیں یا ادارے کو ہوئے تھے۔ جہاں اس دورے کے نتائج لکھنے تھے وہ خانہ خالی تھا۔
یہ ہے ہمارے سیکھنے کی صلاحیت اور ہمارا کردار...
ابھی بھی کچھ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں لکھوں کہ امریکہ میں کیا ہوتا ہے ، کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ میں جس سے بھی امریکہ میں ملتا ہوں، مجھے اس موضوع پر اس کی طویل اور بوریت سے بھرپور باتیں سننا پڑتی ہیں کہ یہاں امریکہ میں یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے... اور کیا کیا ہوتا ہے جو پاکستان میں نہیں ہوتا۔ کئی دفعہ جی چاہتا ہے اگلے کو ٹوک دوں کہ جانے دو یار جو یہاں ہوتا ہے وہ ہونے دو۔ ہمیں اس سے کیا غرض۔ اگر ہمیں پتہ چل جائے کہ امریکہ کیسے سپر پاور بنا اور کیسے یہ دنیا کو چلاتا ہے یا یہاں کیا اچھی اچھی مثالیں ہیں تو اس سے پاکستان یا اس کے عوام کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ حالت یہ ہو چکی ہے کہ میں نے ہلیری کلنٹن کی کتاب پر کالم لکھ دیا تو بھی مجھے سننی پڑیں کہ میں امریکیوں سے متاثر ہوگیا ہوں ۔ کسی نئی کتاب کا ذکر کر دیں تو کچھ قارئین لڑنے پر آجاتے ہیں کہ میں کتاب کی مشہوری کررہا ہوں ۔ ہم ایسے دانشور بن چکے ہیں جو کوئی کتاب پڑھے بغیر سب کچھ جانتے ہیں ۔
امریکہ میں ایسی ایسی چیزیں بتانے کو ہیں لیکن اب جی نہیں کرتا۔ میں خود یہاں ملنے والے ہر دوسرے بندے سے یہ کہانیاں سن کر تھک گیا ہوں۔ میں کہتا ہوں جب آپ لوگ پاکستان میں تھے تو یہ تیر خود کیوں نہ مار لیے جو آپ ہم سے توقع رکھ کر بیٹھے ہیں۔
ہمارے لیڈروں اور بیوروکریٹس کو اچھی طرح علم ہے کہ انہوں نے یورپ اور امریکہ جیسا نظام یا طریقہ کار پاکستان میں متعارف نہیں کرانا ۔ وہ صدر اوباما کی طرح ایک برگر شاپ کے سامنے قطار میں نہیں لگناچاہتے۔ میں نے اس خبر کو ٹویٹ کیا کہ اوباما نے برگر شاپ پر رک کر برگرز خریدے اور تین سو ڈالرز کا بل جیب سے ادا کیا۔ اوباما سے آگے قطار میں دو گاہک اور کھڑے تھے۔ ان سے معذرت کی اور ان دونوں کا بل بھی جیب سے ادا کیا کہ وہ جلدی میں تھے ۔ میرے اس ٹویٹ پر بھی کچھ پاکستانیوں کا تبصرہ تھا کہ اوباما اب اپنی گرتی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے اب اوباما نے تیسری دفعہ صدر نہیں بننا کہ اسے مزید مقبولیت کی ضرورت ہو۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ امریکہ میں قطار میں کھڑے ہونا ایک کلچر ہے اور یہ تصور تک نہیں ہے کہ کوئی قطار پھلانگ کر آگے پہنچ جائے۔ ہمارے نزدیک یہ بھی امریکیوں کی ڈرامہ بازی ہے۔
اس لیے ان دوستوں سے معذرت جو مجھ سے یہ توقعات لگائے بیٹھے تھے کہ میں امریکہ کے بارے میں مسلسل کالموں میں کچھ اچھی باتیں بتائوں گا۔ ہمارے مغل بادشاہ اور ان کے ذاتی غلاموں جیسے سرکاری ملازم ان ملکوں میں رہ چکے ہیں اور سب جانتے ہیں۔
ہم پاکستانی جتنے اچھے خود ہیں، اتنے اچھے ہی ہمارے حکمران اور بابو ہیں۔ ہم جس سلوک کے مستحق ہیں، ہمارے لیڈرز اوربابوز وہی ہمارے ساتھ روا رکھتے ہیں کیونکہ اتنا تو یہ مغل شہزادے بھی جانتے ہیں کہ روم میں وہی کچھ کیا جاتا ہے جو رومن کرتے ہیں !!