"RKC" (space) message & send to 7575

نیویارک کا لاہوری بٹ

اگر نیویارک میں برپا ہونے والی محفل میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ ہمارے دوست سہیل وڑائچ اور آفاق خیالی کے آنے سے پوری ہوگئی ۔
دونوں کینیڈا سے مسلسل سفر کر کے نیویارک پہنچے تھے۔ ان کا مقصد بھی میاں مشتاق جاوید کی بیٹی کی شادی میں شرکت تھی۔ پاکستان سے دور اس شادی میں شرکت ایک زبردست تجربہ ثابت ہوئی۔ بہت سارے لوگوں سے ملاقات ہوئی اور بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ۔ سابق سینیٹر طارق چوہدری سے کچھ سیاست سیکھنے کی کوشش کی ۔ خالد صاحب سے چارلس ڈیگال کی اب تقریباً نایاب کتاب Silence of the sword پر خوبصورت گفتگو سنی۔ پنجاب کے وزیر صنعت چوہدری شفیق انور سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ وہی چوہدری شفیق ہیں جنہوں نے چوری کا الزام لگنے پر عابد شیر علی کو ٹی وی چینلز پر کھری کھری سنائی تھیں۔ مجھے ان سے ہمدردی محسوس ہوئی کیونکہ وہ نواز لیگ کے اکیلے وزیر تھے جبکہ ہر طرف عمران خان کی تحریک انصاف کے جیالے ان کی جان کو آئے ہوئے تھے؛ تاہم داد دینا پڑے گی چوہدری شفیق انور کو کہ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور بڑی دیر تک وہ سارے معاشی نقصانات گنواتے رہے جو ان کے خیال میں نواز شریف کی حکومت کو گرانے کی شکل میں ہوسکتے تھے۔ 
شادی کے گھر سے کچھ فاصلے پر نیویارک کے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے معزز پاکستانی کاروباری عارف سونی کے گھر پر بھی ایک میلہ سا لگا ہوا تھا ۔ عارف سونی نے کاروبار اپنے بیٹے احمد سونی کے ذمے لگا کر چھٹی لی ہوئی تھی تاکہ وہ مہمانوں کو اٹینڈ کر سکیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی عارف سونی نیویارک میں چونتیس برس سے زیادہ رہ رہے ہیں لیکن ابھی تک انہوںنے امریکی شہریت نہیں حاصل کی تھی ۔ 
جناب مجیب الرحمن شامی ، میں، وڑائچ صاحب،آفاق خیالی اور عارف سونی‘ ہم سب پاکستانی سیاست پر سینگ اڑا کر بیٹھ گئے تھے۔ شامی صاحب زیادہ تر مسکرا نے پر ہی اکتفا کر رہے تھے۔ سہیل وڑائچ کے آنے پر توپوں کا رخ ان کی طرف ہوگیا کہ وہ چودہ اگست کے بارے میں کچھ بتائیں۔ سہیل وڑائچ آگ پر پانی ڈالنے کا فن ڈالتے ہیں اور مشکل سے مشکل صورت حال پر نئی بات کرنے کی صلاحیت ان کے اندر موجود ہے ۔انہوں نے امریکہ آنے سے پہلے لاہور میں اپنی چوہدری پرویز الٰہی سے ہونے والی ملاقات کی جو تفصیلات بتائیں‘ اس سے اندازہ ہوا کہ معاملات خاصے آگے بڑھ چکے ہیں اور صورت حال کو کنٹرول کرنا اتنا آسان نہ ہوگا جتنا نواز شریف کے حامی سمجھ رہے ہیں ۔ عارف سونی کے گھر کے باہر کا منظر اتنا دلفریب ہے کہ کسی کا وہاں سے اٹھنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔ رہی سہی کسر عارف سونی کی بیگم مسز فوزیہ سونی اور بہو مبشرہ احمد سونی کے پکائے ہوئے لذیذ پاکستانی کھانوں نے پوری کر دی تھی۔ عارف سونی کا کہنا ہے کہ نیویارک آنے والے اگر لانگ آئی لینڈ پر واقع تبسم بٹ کے ریسٹورنٹ کا کھانا نہ کھائیں تو ان کا آنا‘ نہ آنا برابر ہے۔ 
تبسم بٹ سے ملنا بھی زندگی کا ایک نیا تجربہ ثابت ہوا۔ اگر نیویارک میں کسی روایتی لاہوری سے ملنے کو دل چاہے تو پھر تبسم بٹ سے ملنا چاہیے۔ بٹ صاحب مسلسل قہقہے بکھیرتے رہتے ہیں۔ میرا ، شامی صاحب اور سہیل وڑائچ کا مشترکہ خیال یہ تھا اتنا لذیذ کھانا ہم سب نے زندگی میں بہت کم کھایا تھا‘ جتنا تبسم بٹ نے اپنے ریسٹورنٹ پر اپنے ہاتھوں سے پکا کر کھلایا ۔ میٹھے میں گجریلا اور کھیر آئی تو کہنے لگے کہ یہ کھیر سپین کی ایک لڑکی نے بنائی ہے‘ جسے انہوں نے خود تربیت دی۔ گوشت کی چانپیں بن کر آئیں تو بتانے لگے یہ بھی سپین کے کُک نے بنا کر بھیجی ہیں۔ بولے کہ انہوں نے اب سپین کے کک اپنے پاس رکھ لیے ہیں اور انہیں پاکستانی کھانوں کی تربیت دی گئی ہے۔ سپین کے ورکرز کے محنتی اور وفادار ہونے کی تعریف کرتے رہے۔ میں نے کہا: بٹ صاحب! ویسے آپ کی شخصیت، اندازِ گفتگو اور ہاتھوں کی لذت دیکھنے اور محسوس کرنے کے بعد میرے جیسے بندے کا الٹا آپ کو کچھ پیسے دے کر یہاں نوکری کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس پر قہقہہ پڑا ۔
باتوں کا رخ گیارہ ستمبر کی طرف مڑ گیا‘ تو تبسم بٹ بتانے لگے کہ جس دن حملے ہوئے‘ اس روز پورے نیویارک میں خوف اور دہشت کی فضا تھی؛ تاہم ان کے امریکی گاہک‘ جو ان کی دکان پر کھانا کھاتے تھے‘ مسلسل فون کر کے انہیں تسلی دیتے رہے۔ اسی طرح کی بات نیو جرسی میں رہائش پذیر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے المان چوہدری نے بھی بتائی کہ میڈیا کی تمام تر الزام تراشیوں کے باوجود امریکی عوام نے بہتر طرزعمل کا مظاہرہ کیا تھا‘ اکا دکا واقعات یقینا ہوئے تھے لیکن جس پیمانے پر میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کیا گیا‘ اس کے بعد کوئی اور ملک ہوتا تو شاید پاکستانیوں اور مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوجاتا۔
البتہ یہ بات تمام لوگ مانتے ہیں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد ان کی زندگیاں بدل گئی تھیں۔ وہ اعتماد اور آزادی‘ جو سب کو حاصل تھی‘ وہ کسی کے پاس نہ رہی ۔ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی کہانی ہے‘ اپنی اپنی تھیوری‘ کوئی اس کو مسلمانوں کے خلاف سازش سمجھتا ہے تو کوئی اسے امریکیوں کی آزادی سلب کرنے کا ہتھیار گردانتا ہے۔ میں نے میاں مشتاق احمد جاوید سے یہی بات کہی۔ وہ کہنے لگے: اس دن وہ خود نیویارک شہر میں اپنے دفتر موجود تھے اور اپنی آنکھوں سے ٹاورز جلتے ہوئے دیکھتے رہے۔ میں نے کہا: بٹ صاحب! کیا بات ہے‘ لوگ پاکستان میں دہی بڑے یا سکاٹ لینڈ کے اپنے ہوٹلوں سے کھلا کر اسلام آباد اور لاہور میں بڑے بڑے عہدوںپر پہنچ گئے اور آپ لاہور ی بٹ ہوتے ہوئے بھی حکمرانوں کی نظر کرم سے دور رہے۔ بٹ صاحب نے کہا: جب میں خود کھانا بناتا تھا تو دوست تعریف کرتے تھے۔ میں سوچتا‘ یہ سب مجھے بیوقوف بناتے ہیں تاکہ میں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر کھلاتا رہوں؛ تاہم 
جب انہوں نے نیویارک میں پاکستانی کھانوں کا ہوٹل کھولا اور پہلے دن ایک امریکی خاتون نے انہیں بلا کر بے پناہ تعریف کی تو انہیں احساس ہوا کہ ان کے دوست غلط نہ کہتے تھے کہ اس خاتون نے پہلے کھانے کا بل ادا کیا تھا اور پھر میرے کھانے کی تعریف کی تھی۔ میں نے کہا: بٹ صاحب! لاہور چھوڑنا آسان کام نہیں‘ آپ کیسے نیویارک لینڈ کر گئے۔کہنے لگے‘ وہ جب 1980ء کے شروع کے برسوں میں امریکہ آئے تھے تو ان کی جیب میں ڈاکٹر سعید باجوہ کے نام ایک رقعہ تھا اور باجوہ صاحب نے ان کا بڑا خیال رکھا ۔ بٹ صاحب نے بتایا کہ انہیں امریکہ میں تیس برس سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے ڈاکٹر سعید باجوہ سے بڑا پاکستانی یہاں نہیں دیکھا ۔
میں خود چوٹی کے نیورو سرجن ڈاکٹر سعید باجوہ سے مل چکا ہوں اور یقینا اُن سے متاثر ہوا تھا ۔ میں نے میاں مشتاق احمد جاوید سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر باجوہ پاکستان سے آنے والے لوگوں اور مریضوں کے لیے دل بڑا اور جیب کھلی رکھتے ہیں؟ میاں مشتاق احمد جاوید کہنے لگے: ان کے بوڑھے والد نے انہیں نصیحت کی تھی کہ تم اتنے مہنگے ڈاکٹر نہ بن جانا کہ کوئی مریض صرف اس وجہ سے تمہارے کلینک سے واپس چلا جائے کہ وہ تمہاری فیس ادا نہیں کر سکتا تھا ۔ ڈاکٹر باجوہ اپنے باپ کے حکم کو آج تک سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اس پر عمل کر رہے ہیں۔ برسوں گزر گئے لیکن آج بھی کوئی پاکستانی مریض ان کے پاس آتاہے تو ڈاکٹر باجوہ کے سامنے ان کا بوڑھا باپ آن کھڑا ہوتا ہے... سعید پتر خیال کریں! کوئی مریض اس وجہ سے واپس نہ چلا جائے کہ وہ تمہاری فیس ادا نہیں کر سکتا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں