ڈیئر شکیل صاحب!
اس وقت جناب مجیب الرحمن شامی، سہیل وڑائچ، میں اور آفاق خیالی نیویارک میں لانگ آئی لینڈ میں عارف سونی کے گھر کے لان میں بیٹھ کر پچھلے ایک گھنٹے سے آپ کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ۔
پتہ چلا ہم سب ''سب رنگ‘‘ اور آپ کے عاشق ہیں۔ آپ نے جس طرح کئی نسلوں کو متاثر کیا تھا‘ اس کا اظہار یہاں ہورہا ہے۔ سب کے پاس اپنی اپنی کہانی اور اپنا اپنا ناسٹلجیا اور سب سے بڑھ کر مشترکہ بے بسی کا احساس۔ آپ کو کوئی راضی نہ کر سکا کہ آپ ''سب رنگ‘‘ دوبارہ شروع کریں۔ پچھلے سال میرے دوست سابق سیکرٹری وزارت تجارت ظفر محمود نے کراچی سے فون کر کے کہا‘ رئوف کیا خیال ہے تمہیں احساس کمتری کا شکار کیا جائے۔ اس وقت شکیل عادل زادہ کے ساتھ بیٹھ کر لنچ کر رہا ہوں۔ قہقہہ لگا کر انہوں نے فون بند کردیا اور میری شکیل عادل زادہ سے بات تک نہ کرائی۔ یقین جانیں میں واقعی جیلیس ہوا۔
آپ مجھے نہیں جانتے لیکن میں آپ کو اس وقت سے جانتا ہوں جب میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ پنجاب کا دوردراز گائوں۔ لیہ شہر سے بارہ کلومیٹر دور‘ جہاں ابھی بجلی کا نام تک نہیں تھا۔ گھر میں مٹی کے تیل کے دیے جلائے جاتے جن کی روشنی میں ہم پڑھتے ۔ پھر لالٹین خرید لی گئی۔ شام گئے اماں مجھے لالٹین پکڑا دیتی کہ جائو دکان سے چار آنے کا مٹی کا تیل ڈلوا کر لائو۔ اماں رات کو جلدی جلدی ہمیں سلا دیتی تاکہ تیل بچ جائے۔ تاہم مجھے رات کو نیند دیر سے آتی اور بور ہوتا تو مجھے سمجھ نہ آتی کیا کروں ۔ چپکے سے اٹھتا ۔ بڑے بھائی سلیم کے بستر کے قریب جاتا ۔ احتیاط سے رسالے اٹھاتا اور بلی کی طرح چلتا ہوا اپنے بستر پر لوٹ جاتا کہ کوئی میری آواز سے اٹھ نہ جائے ورنہ ڈانٹ پڑے گی۔دور پڑی لالٹین کو اٹھا کر اپنے بستر کے قریب لاتا اور چھپ کر رسالے پڑھنا شروع کرتا۔ انہی دنوں میرا ''سب رنگ‘‘ کے
''بازی گر‘‘ سے تعارف ہوا۔ اماں اس بات کے سخت خلاف تھی کہ سکول جاتے بچے رسالے پڑھیں لہٰذا اگر وہ کبھی دیکھ لیتیں تو غصے ہوتیں ۔ سلیم بھائی ایک نہیں بلکہ ہر ماہ پانچ مختلف ڈائجسٹ گھر لاتے اور ہم سب بھائی بہن پڑھتے۔ سلیم بھائی نے لیہ شہر میں نثارعادل صاحب کی نیوز ایجنسی پر کھاتہ کھول رکھا تھا ۔ وہ روزانہ اخبار، میگزین اور رسائل لیتے رہتے اور ہر ماہ کے آخر پر تنخواہ ملنے پر انہیں یک مشت بل ادا کر دیتے۔ ایک دن ہائی سکول سے واپسی پر میں نے ان کی ایجنسی پر سب رنگ کا تازہ شمارہ دیکھا تو نہ رہا گیا ۔ مجھے علم تھا سلیم بھائی کا کھاتہ چلتا تھا ۔ میں نثار عادل کے پاس چلا گیا اور کہا مجھے رسالہ چاہیے۔ انہوں نے دے دیا اور انتظار کیا کہ میں انہیں پیسے بھی دوں گا۔ میں نے کہا میں سلیم کا چھوٹا بھائی ہوں آپ لکھ لیں۔ انہوں نے میرے ہاتھ سے رسالہ واپس لے لیا اور کہا سلیم نے ہمیں نہیں کہا ہوا۔ پتہ نہیں نثار عادل کو کیا ہوا کہ میرے ہاتھ میں دوبارہ دے دیا۔ شایدمیرے چہرے پر پھیلی اداسی سے انہیں ترس آگیا تھا ۔ تاہم جس دن نثار عادل کے بزرگ والد دکان پر ہوتے تو وہ کبھی رسالہ نہ دیتے۔غصے سے ڈانٹتے کہ یہ رسالے پڑھنے کی عمر نہیں۔ اس دن ان کا چھوٹا بیٹا جسے سب پیار سے ''کاکا‘‘ کہتے مجھے چپکے سے رسالہ پکڑا دیتا کہ باپ کو پتہ نہ چلے۔ برسوں بعد جب میں اسلام آباد میںصحافی بن چکا تھا تو نثار عادل کی ایک حادثے میں موت کا علم ہوا تو دل اداس رہا اور وہی دن یاد آئے جب ان کی دکان پر ان سے سب رنگ لینے جاتا تھا اور وہ کبھی ڈانٹ کر رسالہ نہ دیتے۔
ایک دن میں نے سلیم اور نعیم بھائی سے پوچھا کہ انہیں سب رنگ اور دیگر رسالوں کا چسکا کیسے پڑا؟ انہوں نے یہ سارا کریڈٹ ماموں ظفر کو دیا جو انہیں ہر ماہ کہتے کہ کوٹ سلطان سکول سے واپسی پر نیوز ایجنسی سے رسالے لیتے آنا اور وہ بس میں بیٹھ کر پڑھتے آتے۔
اس دوران اماں نہ رہی تو خوف بھی نہ رہا ۔ لیہ سے ملتان یونیورسٹی اور پھر اسلام آباد۔
تاہم سب رنگ میں وقفہ پڑنے لگا۔ پہلے دو ماہ‘ پھر تین ماہ‘ چھ ماہ‘ ایک سال اور پھر دو سے تین سال کا وقفہ ہونے لگا۔ تاہم ایک امید بندھی رہتی اور پہلی دفعہ مجھے اندازہ ہوا کسی کا انتظار کرنا کیا ہوتا ہے... سب رنگ سے بھی ہمارا عاشق اور محبوب والا تعلق بن چکا تھا۔ بازی گر، جانگلوس، ناخدا جیسی کہانیوں نے ہمیں ایسی دنیائوں کی سیر کرائی تھی جن سے نکلنے کو جی نہ چاہتا ۔ اردو اور انگریزی کے اعلیٰ ادیبوں کی کہانیوں نے طلسم طاری کر رکھا تھا ۔ مجھے یاد ہے بازی گر کی ہر قسط کے آخری چند صفحات میں چھوڑ دیتا تاکہ اس اذیت سے بچ سکوں کہ پھر پتہ نہیں کب اگلی قسط پڑھنے کو ملے گی۔ کچھ دن اداسی میں گزرتے اور پھر وہ قسط پڑھ ہی لیتا اور ایک نا ختم ہونے والا انتظار شروع ہوجاتا۔
شوکت صدیقی کے جانگلوس کا لالی ہو یا پھر بازی گر کے بٹھل کا لاڈلا یا پھر امربیل‘ کچھ ایسے کردار تھے جو ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئے تھے۔ ہم اپنے آپ کو ان کرداروں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے۔ کچھ برس قبل جب آپ نے سب رنگ کو اپنے دوست کے ہاتھ ٹرانسفر کیا کہ اب یہ مستقل شائع ہوگا تو میں خوش ہوا ۔ یہ خوشی اس وقت غارت ہوگئی جب اسے مال بنانے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔
یقین کریں سب رنگ کو بند ہوئے کچھ برس ہوگئے ہیں ۔ لگتا ہے زندگی میں کچھ کمی باقی ہے۔ میرے اندر سب رنگ کی اداسی بڑھی تو ایک دن راولپنڈی کے فٹ پاتھوں پر ڈھونڈنے لگا ۔ لڑکے کو ایڈوانس پیسے دینے کی کوشش کہ کوئی نئی نسل کا لالچی بچہ اپنے باپ کے پرانے سب رنگ ردی میں بیچے تو مجھے فون کردینا ۔ مسٹر بکس اسلام آباد کے یوسف بھائی سے درخواست کر کے بازی گر اور جانگلوس کے کتابی حصے خریدے اوراپنے آپ کو یہ سمجھا کر پڑھنا شروع کیا کہ میں پہلی بار پڑھ رہا ہوں ۔ میں اپنے ساتھ امریکہ بھی بازی گر لایا ہوں تاکہ یہ نشہ پورا ہوتا رہے۔
شکیل صاحب! اب ہم سب یہاں نیویارک میں بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ آپ سے کون بات کرے کہ دوبارہ سب رنگ شروع کریں ۔ ہمیں احساس ہے اب اتنی محنت نہیں ہوسکتی۔ آپ درست کہتے ہیں اب نئی کہانی نہیں لکھی جاتی۔ نہ ادب رہا نہ ادیب۔ اب ادیب سیاسی کالم نگار بن گئے ہیں کہ اس سے جلدی شہرت، تعلقات اور پیسہ ملتا ہے۔
آفاق خیالی کہنے لگے ‘سب رنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے آپ کو پچاس لاکھ روپے چاہیے ہوں گے۔ میں اپنی ایک ماہ کی تنخواہ میں دینے کو تیار ہوں۔ مجیب الرحمن شامی نے دس لاکھ روپے کی ہامی بھر لی۔ کچھ اور دوست بھی تیار ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے آپ کو راضی کون کرے؟ سہیل وڑائچ خاصی دیر چپ رہے اور آخر بولے وہ آپ سے بات کریں گے...
پتہ چلا تھا آپ کو کچھ قرض ادا کرنا تھا جس وجہ سے سب رنگ کسی دوست کو بیچنا پڑ گیا تھا ۔ مجھے سب رنگ میں پڑھا ہوا ایک افسانہ ''بادل‘‘ یاد آیا کہ کیسے ایک نواب کی بیٹی کی شادی ہونے لگی تو لڑکے والے جہیز میںنواب صاحب کا چہیتا ہاتھی بادل مانگتے ہیں اور نواب صاحب جواب دیتے ہیں بادل تو ان کا بیٹا ہے اوربیٹے جہیز میں نہیں دیے جاتے۔
شاید ''سب رنگ‘‘ بھی اس طرح کی کوئی قیمتی چیز تھی جسے بادل کی طرح کسی اور کے حوالے نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
سب رنگ صرف آپ کا نہیں تھا ۔ ہم سب مالک تھے۔ ہمارا بہت کچھ اس میں شامل تھا ۔
ہوسکتا ہے آپ کو محسوس ہوتا ہو کہ اب کیا نیا لکھا جائے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بوریت دنیا کے ہر بڑے ادیب پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے اس کی تخلیقی موت ہوگئی ہو۔ اس حالت میں ادیب دوسرے لکھاریوں کے ناولز اور کہانیوں کا ترجمہ شروع کردیتے ہیں۔ گیبرئیل گارشیا آخری دم تک لکھتا رہا ۔ کئی ادیب ایسے ہیں جنہوں نے ستر برس کے بعد اچھا ادب لکھا۔ آپ کے لکھنے کی عمر تو اب شروع ہوئی ہے۔
شکیل صاحب! آپ کو ایک بات بتائوں ۔
2005ء میں حج پر سعودی عرب گیا تو پتہ چلا آپ ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ لوگ اپنے لیے حج عمرہ کرتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں۔ میں نے آپ کے لیے دعائیں کیں اور یہاں تک خدا کے گھر میں کہا اگر میرا حج قبول کرنا ہے تو پھر شکیل عادل زادہ کو صحت عطا فرمائیں کیونکہ ابھی بٹھل کے لاڈلے کی کہانی باقی ہے۔ یقینا آپ کے حوصلے، ڈاکٹروں کی محنت اور پیاروں کے علاوہ شاید خدا نے میری دعا بھی سنی ہوگی کہ اب آپ ماشاء اللہ تندرست ہیں ۔
آپ سے بہت دور نیویارک میں لانگ آئی لینڈ میںجھیل کے کنارے ڈوبتے سورج کی اداس اور تنہا شام کے درمیان مجھے آپ سے اتنا کہنا ہے... آپ کی زندگی پر اب کچھ قرض اپنا بھی بنتا ہے۔ ہو سکے تو کسی دن ادا کر دیجیے... ہم سب کو ہمارا ناسٹلجیا، ہمارا رومانس‘ سب رنگ لوٹا دیجیے!