آج ایک سنگل کالم خبر مجھے سات برس پیچھے لے گئی‘ جب 2007ء میں لندن سے اپنی زندگی کا پہلا کالم اس وقت کے اپنے اخبار کے لیے لکھا تھا۔
اس کا عنوان تھا: ''ایک پاکستانی ڈاکٹر کی موت‘‘۔ یہ ایک ڈاکٹر کی داستان تھی‘ جسے پاکستان میں نوکری نہ ملی تو اس کی بہنوں نے اپنے زیور بیچ کر اسے لندن بھیج دیا تاکہ وہ اپنی اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنا سکے‘ لیکن کئی ماہ تک بیروزگار رہنے کے بعد‘ اس نوجوان ڈاکٹر نے لندن میں خود کشی کر لی تھی کہ وہ پاکستان واپس جا کر بہنوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ لندن کے ایک اخبار میں چھپی وہ خبر سات برس بعد بھی آج تک میرا پیچھا کرتی ہے‘ جس میں اخبار نے برطانوی وزیر صحت پر شدید تنقید کی تھی کہ حکومت کی تبدیل شدہ صحت پالیسی کی وجہ سے اس پاکستانی ڈاکٹر کو جاب نہ ملی اور اس نے اپنی جان لے لی۔
اسی طرح کی ایک اور خبر میرے ملتانی دوست جمشید رضوانی نے چند برس پہلے اپنے ٹی وی چینل کے لیے فائل کی تھی۔ ایک باپ نے چھ بچوں کو قتل کر دیا تھا۔ جمشید رضوانی نے لاک اپ میں بند اداس آنکھوں سے فضا میں دور کہیں مسلسل گھورتے باپ سے روایتی سوال پوچھا تھا: اپنے بچوں کو کیوں قتل کیا؟ جواب روایتی نہ تھا۔ اس نے الٹا جمشید سے اذیت بھرے انداز میں سوال کیا: ''سائیں! ایک باپ سے پوچھتے ہو، اس نے اپنے بچوں کو کیوں قتل کیا؟‘‘ ایک باپ کے اس سوال کی گہرائی میں جا کر ذرا سوچیں۔ برسوں سے جمشید رضوانی سے ایک قاتل باپ کے پوچھے گئے اس سوال کے بارے میں سوچتا ہوں اور جتنا اس کی گہرائی میں جاتا ہوں، اتنا ہی دم گھٹنے لگتا ہے۔
آج برسوں بعد اسی طرح کی ایک اور خبر نے دہلا کر رکھ دیا ہے۔
سنگل کالم کی یہ خبر اخبار کے اندرونی صفحات پر چھپی ہے۔ کسی کی قسمت اگر پڑھ لے۔ لندن ہوتا تو شاید یہ فرنٹ پیج کی لیڈ اسٹوری بنتی اور حکومت سے لے کر کونسل تک کے افسران پر قیامت آ چکی ہوتی یا شاید برطانوی وزیر صحت یا وزیر سوشل ویلفیئر یا ہو سکتا ہے وزیر اعظم تک مستعفی ہو چکا ہوتا۔ اس خبر کے مطابق لاوہ کے نواحی علاقے ڈھرنال میں ایک ماں نے اپنے دو سالہ معذور بچے کے ساتھ ڈھرنال ڈیم میں چھلانگ لگا لی۔ اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ پولیس نے اقدام خودکشی کا پرچہ درج کر لیا ہے۔
اس معاشرے میں اگر تین بچوں کی ماں اور باپ کو آگ میں جلا دیا جائے تو انصاف تو نہیں‘ لیکن پچاس لاکھ روپے مل جائیں گے۔ وہاڑی میں چار بچے مر جائیں تو بھی والدین کو پانچ پانچ لاکھ روپے مل جاتے ہیں‘ لیکن سزا کے طور پر وہاڑی چلڈرن ہسپتال کا انتہائی نگہداشت وارڈ بند کر دیا جائے گا‘ جہاں داخل ہونے والے سو میں سے ساٹھ بچے بچ جاتے تھے۔ وہاڑی ہسپتال کے ڈاکٹروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی دوا، علاج میسر نہیں۔ جس نے اپنے بچے کو بچانا ہے وہ پرائیویٹ کلینک پر لے جائے‘ جہاں روزانہ پانچ سے چھ ہزار روپے ای سی یو کا خرچہ ہے۔ وہاڑی کے بچے مر رہے ہیں‘ لیکن میڈیا خاموش ہے کیونکہ مقصد ہسپتال کا انتہائی نگہداشت کا وارڈ بند کرانا تھا‘ وہ پورا ہو گیا۔ اب اللہ کی رضا کوئی مرے یا بچ جائے۔ وہاڑی کے ایم این ایز بھی شاید یہ وارڈ دوبارہ کھلوانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ تھر سندھ میں بھی یہی حالت ہے۔ کس کو پروا ہے؟ منظور وسان خواب دیکھتے ہیں اور صبح اٹھ کر اسے رپورٹ کی شکل دے دیتے ہیں کہ تھر کے بچوں کی موت کا کون کون قصوروار ہے۔ آج فرماتے ہیں کہ وہ رپورٹ جعلی تھی۔
واپس لوٹتے ہیں‘ اس معذور بچے اور اس کی ماں کی خودکشی کی طرف۔
کیا آج تک کوئی سروے کرایا گیا ہے کہ ملک بھر میں کتنے معذور بچے ہیں اور ان کی کیا ضروریات ہیں؟ ان کے لیے کوئی بجٹ؟ والدین کو ان بچوں کو ہینڈل کرنے کی تربیت؟ والدین کے اس بوجھ کو کبھی اپنا بوجھ سمجھا گیا؟ دو برس قبل ڈیرہ غازی خان میں سات سو معذور بچوں کے سکول کی گیارہ استانیوں کو تخت لاہور کے سرکاری زکوٹا جنوں نے یہ کہہ کر برطرف کر دیا تھا کہ ان کے پاس تنخواہوں کا بجٹ نہیں ہے۔ اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی سے لے کر پنجاب کے چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ تک ہر سطح پر میں نے ذاتی کوشش کر کے دیکھ لی۔ سب نے کہا‘ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ انہی دنوں وزارت فنانس لاہور کے زکوٹا جنوں نے گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کو پچاس لاکھ روپے دیے کہ وہ جا کر والٹن اکیڈمی کی تقریب میں عطیہ کا اعلان کریں۔ مخدوم صاحب کو بھی سرائیکی علاقوں کی ان گیارہ استانیوں سے زیادہ وہ زکوٹا جن ٹائپ بابو عزیز تھے‘ جو تنخواہ تو عوام سے لیتے ہیں لیکن غلامی سیاسی ماسٹرز کی کرتے ہیں۔ سعودی عرب سے ایک نیک دل انسان نے پیشکش کی اور ان استانیوں سے کہا کہ اپنا کام جاری رکھیں‘ وہ انہیں سعودی عرب سے تنخواہ بھجواتے رہیں گے۔ انہوں نے چند ماہ اپنا یہ وعدہ پورا بھی کیا۔ پنجاب‘ جو ہر سال نو سو ارب روپے این ایف سی سے لیتا ہے‘ ڈیرہ غازی خان کی ان گیارہ استانیوں کے لیے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے نہ نکال سکا‘ جو معذوروں کو پڑھا رہی تھیں۔
وزیر اعلیٰ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ لندن میں اگر کسی گھر میں کوئی معذور بچہ ہو تو وہاں کی کونسل کیا کیا اقدامات کرتی ہے۔ اس بچے کی ماں کو نرس کا درجہ دے کر ہر ہفتے اس کی دیکھ بھال کے نام پر تنخواہ دی جاتی ہے اور خرچہ الگ دیا جاتا ہے۔ سکول میں بچوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ اپنے کلاس فیلو معذور بچوں کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔ کونسل کے نمائندے باقاعدگی سے اس گھر کے وزٹ کرتے ہیں۔ وہ والدین کو یہ پیشکش بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کا باقاعدہ خیال نہیں رکھ سکتے تو بچہ کونسل کے حوالے کر دیں۔ بجائے اس کے کہ لندن کی طرز پر لوکل کونسلز کو مضبوط بنایا جاتا‘ انہیں اختیارات اور پیسے دیے جاتے اور سرکاری زکوٹا جنوں کو سمجھایا جاتا کہ ملک ڈوب رہا ہے‘ اس لیے اسے نہ لوٹیں بلکہ اس کے وسائل عام آدمی کی فلاح پر خرچ کریں، الٹا کونسلز کا گلا ہی گھونٹ دیا گیا کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ نوے ہزار منتخب کونسلرز کو گھر بھیج دیا گیا‘ کیونکہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو ہر ضلع میں ایک زکوٹا جن بیوروکریٹ اور ایک کرپٹ پولیس افسر سوٹ کرتا
ہے‘ جو ان کو سرکاری زمینیں الاٹ کر کے دے یا پھر تھانوں میں ان کے مخالفوں کو چھتر مارے۔ ضلعی حکومتیں ختم کی گئیں۔ پانچ سال سے اعلیٰ عدالت صوبوں سے الیکشن کی تاریخیں مانگتی ہے اور سندھ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ تیار نہیں ہوتے۔ بلوچستان میں انتخابات ہوئے لیکن آ ج تک بلدیاتی چیئرمین کا انتخاب نہ ہو سکا کیونکہ مختلف پارٹیوں کا کوٹے پر اتفاق نہیں ہو پا رہا۔ یہ وہ جدید جمہوریت ہے جو ہمارے سیاسی شیروں نے متعارف کرائی ہے۔
یہ لیڈر اب کسی کے آگ میں جلائے جانے کا انتظار کرتے ہیں یا پھر اس دن کا جب ایک ماں اپنے معذور بچے کی بے بسی اور ریاست کی مجرمانہ عدم دلچسپی کے سبب ڈیم میں چھلانگ لگا لے۔ اس کے بعد یہ لوگ کیمرے اور میرے جیسے طبلچی صحافی ساتھ لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے چہرے پر سنجیدگی اور دکھ کی چادر اوڑھ کر تصویریں کھنچواتے ہیں، امداد کا اعلان کرتے ہیں اور پھر اگلے دن ایک خبر خصوصی طور پر چھپوائی جاتی ہے کہ موصوف کی ورثا سے تعزیت کرتے ہوئے آواز بھرا گئی اور وہ گلوگیر لہجے میں بولتے رہے۔ اس خبر سے لوگوں پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے کہ ہمارے حکمران کتنے اچھے ہیں کہ لوگوں کے دکھوں کا سن کر ان کی آواز بھرا جاتی ہے۔ ان کو سب پتہ ہے کہ کیسے لوکل لیول پر یہ سب کام ہو سکتے تھے۔ نو سو ارب روپے ہر ضلع میں انصاف سے بانٹے جا سکتے تھے۔ لوگوں کو تربیت دی جا سکتی تھی۔ زکوٹا جنوں کی لوٹ مار روکی جا سکتی تھی۔ معذور بچوں اور ان کے والدین کا دکھ سمجھا جا سکتا تھا۔ گوجرانوالہ کی ایک ماں کا ایک پیغام یاد آرہا ہے‘ جو آج کل خود شدید مشکل کا شکار ہے کہ آپ حکمران اور صحافی کیوں مائوں کا اپنے بچوں کو اذیت میں دیکھ کر مرنے کا انتظار کرتے ہیں اور مائوں کے مرنے کے بعد یکدم آپ دونوں کے اندر جھوٹی انسانیت جاگ اٹھتی ہے؟