وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو 19جنوری 2009ء کی اس صبح حیرت ہوئی جب ان سے فاٹا قبائل کے سیاستدانوں پر مشتمل وفد ملنے آیا اور خلاف توقع ایک درخواست کی۔ ان حضرات نے جہاں اپنے لیے ترقیاتی فنڈز کے لیے اچھا خاصا مال ان سے لیا جو فاٹا میں اگر درست طریقے سے خرچ ہوتا تو شاید تقدیر بدل جاتی، وہیں ان میں سے ایک نے گیلانی صاحب سے فرمائش کر دی کہ وہ فاٹا کے لیے کوہاٹ میں یونیورسٹی بنا دیں؛ کیونکہ بیچارے پشتونوں کو ملک کی دیگر یونیورسٹیاں میں داخلہ ملنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
گیلانی صاحب ہر ملنے والے سے اپنے بزرگوں کی ایک خوبی کا ذکر ضرور کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ان کے والد نے اپنے دور میں ملتان میں کچھ اچھے سکول کالج بنوائے‘ جن پر وہ ہمیشہ فخر کرتے ہیں۔ ملتان میں خواتین یونیورسٹی کے لیے بھی انہوں نے کام کیا تھا ۔ لہٰذا فاٹا یونیورسٹی کی تجویز سن کر ان کے ذہن میں یہی خیال آیا کہ انہیں بھی باپ دادا کی روایت آگے بڑھاتے ہوئے فاٹا یونیورسٹی بنانا چاہیے۔ یوں گیلانی صاحب نے ہاں کر دی ۔ بات زبانی کلامی ہورہی تھی لہٰذا فیصلہ ہوا کہ ان کی فاٹا کے معاملات چلانے والی وزارتِ سیفران سمری بنا کر گیلانی صاحب سے باقاعدہ منظوری لے ۔ پہلے اس کی منظوری اس وقت کے گورنر خیبر پختون خوا سے لی گئی۔ پھر اس پر ہائر ایجوکیشن کمشن کے کمنٹس لیے گئے اور پھر باقاعدہ قانونی شکل کے لیے اسے وزارت قانون کے پاس بھیجا گیا۔ جب یہ سب مرحلے مکمل ہوگئے تو پھر ایک اور سمری بنائی گئی اور وزیراعظم گیلانی کو بھیجی گئی کہ وہ اب پشتونوں کے لیے ایک نئی یونیورسٹی کی منظوری دیں ۔ اس یونیورسٹی کا نام فاٹا یونیورسٹی تجویز کیا گیا اور کوہاٹ کے مقام پر اسے بننا تھا۔ اس دوران وزیراعظم گیلانی کو برطرف کر دیا گیا، نئے وزیراعظم تشریف لائے۔ معاملہ نئے سرے سے چلانا پڑا؛ اس دوران 2013ء آچکا تھا۔ ملک میں نئے انتخابات کا وقت۔
اس پورے عمل کو تقریباً تین برس گزر گئے اور ابھی یونیورسٹی کی منظوری ہونا باقی تھی ۔ اس دوران گیلانی صاحب کے بعد راجہ پرویز اشرف بھی جا چکے تھے لیکن یونیورسٹی کا کچھ پتہ نہیں تھا؛ تاہم نگران وزیراعظم نے 20مئی 2013ء کو تقریباً چار برس بعد یہ سمری منظور کر کے صدر زرداری کو بھیجی جس کی انہوں نے رسمی منظوری دے دی۔ اس پر فاٹا سیکرٹری اور فاٹا کے سیاستدانوں کا کام شروع ہوگیا۔ انہوں نے مل کر یونیورسٹی کے لیے 266 کنال زمین خریدی‘ جس کی قیمت 13 کروڑ روپے ادا کی گئی۔ لیکن پتہ چلا ہے کہ اب تک فاٹا سیکرٹریٹ نے یونیورسٹی کے لیے خریدی گئی اس زمین کی ملکیت کے کاغذات ہائر ایجوکیشن کمشن کو پیش نہیں کیے جس سے اندازہ ہو کہ واقعی یہ یونیورسٹی کی زمین ہے۔
اس دوران یہ فیصلہ ہوا کہ اس پراجیکٹ پر کام شروع کیا جائے۔ کل دس کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا ۔ تاہم پتہ چلا کہ یہ دس کروڑ روپے صرف اس پراجیکٹ پر کام کرنے والوں کی تنخواہوں، ماسٹر پلاننگ اور آپریشنل اخراجات پر ہی خرچ ہو جائیں گے۔یونیورسٹی بنا نے کے لیے ضروری تھا کہ پہلے دو اہم عہدوں پر تعیناتی کی جائے۔ ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دوسرے یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری؛ تاہم اس وقت جھگڑا کھڑا ہوگیا جب یہ فیصلہ ہونے کا وقت آیا کہ اس یونیورسٹی کے پراجیکٹ کا سربراہ کسے لگایا جائے۔ اس طرح وائس چانسلر کے لیے بھی ایک سرچ کمیٹی بنائی گئی جس نے انٹرویوز کے بعد کچھ نام سابق گورنر خیبر پختون خوا کو بھیجے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو وائس چانسلر لگا دیں۔ سابق گورنر خیبر پختون خوا نے انکار کر دیا اور حکم صادر فرمایا کہ ان کا اپنا بندہ ہی وائس چانسلر لگے گا۔ اس وقت کے گورنر نے اپنا بندہ جنوری 2013ء میں وائس چانسلر لگا دیا۔ پھر اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی‘ جب سابق گورنر نے اپنے ہی لگائے گئے اس وائس چانسلر کی تقرری دو ماہ بعد ختم کر کے ایک بیوروکریٹ کو لگادیا ۔ اس پر پروفیسر شفیق نے عدالت میں اپنی برطرفی کو چیلنج کر دیا اور گزشتہ مئی میں انہیں سٹے مل گیا ۔ یوں معاملہ ٹھپ ہوگیا۔
لڑائی اس بات پر چل نکلی کہ وائس چانسلر لگانے کا اختیار کس کو ہے اور کون لگا سکتا ہے۔ گورنر کا کہنا ہے کہ وہ یہ اختیارات رکھتا ہے کیونکہ وہ یونیورسٹی کا چانسلر ہے؛ تاہم دیگر کہتے ہیں کہ قانون کے تحت اسے وفاقی حکومت کے مشورے سے تعیناتی کرنا ہوتی ہے۔ سیفران کہتی ہے کہ وہ کسی بھی وائس چانسلر کو لگانے کے لیے سمری بھیجتی ہے اور یہ اختیار اس کے پاس ہے۔ یوں ان سرکاری ہاتھیوں کی لڑائی میں فاٹا یونیورسٹی کا بیڑا غرق ہوگیا۔
فاٹا یونیورسٹی کے لیے کوئی پراجیکٹ ڈائریکٹر نہ لگ سکا جو اس منصوبے کو مکمل کرتا اور فاٹا اور دیگر علاقوں کے طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دیگر صوبوں میں دربدر نہ ہونا پڑتا۔ دوسری طرف وائس چانسلر کا مسئلہ بھی حل نہ ہوسکا۔ گورنر انہیں برطرف کر چکے جب کہ وہ مئی سے حکم امتناعی لے کر بیٹھے ہیں ۔
دوسری طرف وفاقی حکومت کے کمالات ملاحظ فرمائیں کہ فاٹا یونیورسٹی بنانے کے لیے کل چار ارب ستر کروڑ روپے کا منصوبہ بنایا گیا اور جب پیسے دینے کا وقت آیا تو صرف ایک کروڑ روپے جاری کیے گئے۔۔کہاں چار ارب ستر کروڑ روپے کا منصوبہ اور کہاں صرف ایک کروڑ روپے...!
کیا مجھے اب بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ صدیوں سے اس خطے میں جاری جنگ و جدل، تشدد، مار دھاڑ، قتل و غارت کا شکار پشتونوں کے اصلی دشمن کون ہیں۔ ہمارے پاس دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے اربوں روپے ہیں، اسلام آباد میں میٹرو کے لیے بھی جس کی ہرگز ضرورت نہ تھی‘ تیس ارب روپے ہیں، وزیراعظم کے لیے دو بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کے لیے کروڑوں ہیں، بیرونی ملک دوروں کے لیے وزیراعظم کے لیے ڈیڑھ ارب اور صدر کے لیے چالیس کروڑ روپے اور تو اور وزیراعظم ہائوس کی حفاظت کے لیے کتے خریدنے کے لیے بھی چوبیس لاکھ روپے موجود ہیں لیکن اگر نہیں ہیں تو فاٹا یونیورسٹی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
اندازہ کریں‘ ساڑھے چار برس سے زائد کا عرصہ گزر گیا جب وزیراعظم گیلانی نے فاٹا یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دی تھی۔ گزشتہ پچاس ماہ میں جو حشراس یونیورسٹی کا ہوا‘ سو ہوا اور اب پتہ چلا ہم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر چار ارب روپے ستر کروڑ روپے کے پراجیکٹ کے لیے صرف ایک کروڑ روپے نکال کر دیے ہیں!! ذرا ان ساڑھے چار برسوں میں ہماری آنیاں جانیاں اور پھرتیاں تو ملاحظہ فرمائیں اور رج کر داد دیں۔ ہماری پلاننگ اور سب سے بڑھ کر تعلیم کے ذریعے دہشت گردی کو شکست دینے کی کمٹمنٹ کو...! ویسے سوچیں۔ جو سیاستدان، حکمران اور بیوروکریٹس مل کر بھی ان ساڑھے چار برسوں میں کوہاٹ میں فاٹا کے پشتونوں کے لیے صرف ایک یونیورسٹی نہیں بنا سکے وہ اس ملک کو کیا بنائیں گے۔ کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ ہم ان پشتون بچوں کے ہاتھوں سے بندوق اور خودکش جیکٹ چھین کر ان کے ہاتھ میں قلم دینے کے لیے کتنے بے چین ہیں...!
خواتین و حضرات پلیز!! ان سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کے لیے‘ جو چار برس میں کوہاٹ میں فاٹا یونیورسٹی تک نہیں بنا سکے‘ تالیاں...!