"RKC" (space) message & send to 7575

اور اب روسی قرض

ڈاکٹر ظفر الطاف ماشاء اللہ بہتّر برس کے ہوچکے ہیں ۔ کبھی ان کے منہ سے ایسی بات نہ سنی تھی ۔ زندگی میں جن چند انسانوں کا بہت احترام کرتا ہوں‘ ان میں ایک وہ ہیں۔ وہ بیوروکریسی میں متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور ان افسران میں سے ہیں‘ جن سے یا تو محبت کی جاتی ہے یا پھر سخت تنقید ۔
ان پر سب سے بڑا الزام لگتا تھا کہ وہ رولز کی پروا نہیں کرتے۔ لوگوں اور دوستوں پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں ۔کئی نے دھوکے دیے، مال بنایا لیکن ڈاکٹر صاحب اپنے افسروں اور دیگر لوگوں پر اعتماد کرنے سے باز نہیں آئے۔ جب وہ سیکرٹری تھے تو ایک دوست نے مجھے بھی مشورہ دیا تھا کہ تم بھی کوئی فائدہ اٹھا لو۔ میں نے کہا جو فائدہ مجھے چاہیے وہ مل رہا ہے۔ وہ بولے آپ سمجھے نہیں... کچھ مال پانی بنا لو۔ میں نے کہا‘ کیسے؟ بولا ایک دو فائلیں کلیئر کرادو۔ کراچی کی پارٹیاں سفارش ڈھونڈ رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تم پر اعتبار کرتے ہیں، وہ کوئی سوال پوچھے بغیر دستخط کر دیں گے۔ میں حیرانی سے منہ تکتا رہا‘ ایسے بھی ہوتا ہے؟ ایک انسان دوستوں پر اندھا اعتماد کرتا ہو کہ وہ اس سے کوئی غلط کام نہیں کرائیں گے اور دوست...! میں نے جواب دیا کہ مجھے علم ہے‘ ڈاکٹر صاحب کا یہ انداز انہیں کسی دن مشکل میں ڈالے گا اور میں نہیں چاہتا کہ کسی رات جب وہ مشکل کا شکار ہوں تو ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آئے کہ دیگرکے علاوہ میں نے بھی ان سے وہ فائدے اٹھائے تھے جن کی وجہ سے وہ مشکل کا شکار ہوئے ہیں۔ دوست فائدے اٹھانے کے لیے نہیں بنائے جاتے‘ مشکل میں کام آنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ 
وہی ہوا۔ جنرل مشرف دور میں ان پر نیب نے دبائو ڈالا کہ بینظیر بھٹو کے خلاف ٹریکٹر امپورٹ ریفرنس میں وعدہ معاف گواہ بن جائو۔ بولے جیل ڈال دو۔ ان کے خلاف جنرل مشرف نے بیس مقدمات بنوائے۔ ایک ایک کو انہوںنے کلیئر کرایا۔ وہ کہتے تھے ایک خاتون کے خلاف کبھی گواہی نہیں دوں گا کیونکہ اس ڈیل میں انہوں نے کوئی غلط نہیں کیا تھا۔ ایک بار کہنے لگے کہ تین دفعہ وفاقی سیکرٹری رہا‘ ڈٹ کر کرپشن کرتا تو آج چھوٹے چھوٹے بچوں کے مالی مسائل کی وجہ سے پریشان نہ ہوتا۔ اپنے ایک سابق وزیر کے بارے میں کہنے لگے کہ اس کی فلاسفی آج سمجھ آتی ہے۔ ڈٹ کر مال بنایا اور وزارت سے بنایا۔ کسی نے اس کا کیا بگاڑ لیا‘ آج کل عیاشی کر رہا ہے۔ میں خاموش رہا‘ کیونکہ مجھے علم تھا کہ وہ کس قدر تکلیف میں ہیں۔ 
جنرل مشرف دور میں ڈاکٹر ظفر الطاف سیکرٹری زراعت تھے تو ان سے غیرملکی ادارے کے لوگ ملنے آئے۔ پاکستانی زراعت کے لیے قرض کی پیشکش کی گئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے پیشکش مسترد کر دی اور کہا کہ قرض سے زراعت نہیں چلتی۔ ہم افسران چند قیمتی گاڑیاں لے لیں گے، کوئی نیا پراجیکٹ بنا کر پراجیکٹ الائونس، چند نوکریاں، چند برس کا گریس پیریڈ اور کچھ نوٹ بیرون ملک اکائونٹس میں ٹرانسفر ہوں گے‘ مگر قوم برسوں قرض اتارتی رہے گی۔ کسانوں کو اپنانا پڑتا ہے۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے۔ میں نے کہا‘ ڈاکٹر صاحب کیوںاپنی نوکری خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ شوکت عزیز کا معاشی نظریہ یہی ہے کہ جی بھر کر قرضہ لو تاکہ دکھایا جائے کہ ملک کے ڈالرز کیسے اوپر جارہے ہیں۔ وہی ہوا ۔ وزارت فنانس نے کہا‘ ہم نے ہر صورت یہ قرضہ لینا ہے اور وزارت زراعت کو کوئی اعتراض نہیں کرنا ۔ کچھ دن بعد ڈاکٹر صاحب کی چھٹی ہوگئی۔ 
انہی دنوں ایشیائی ترقیاتی بینک سے تین سو ملین ڈالرز سے زائد کا قرضہ لیا گیا ۔ مقصد بتایا گیا تھا کہ اس سے عدالتی نظام درست کریں گے۔ وزارت قانون نے جو حشر اس قرضے کا کیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ تیس ارب روپے سے زائد کھو کھاتے۔ کچھ عمارتیں کھڑی کی گئیں، کچھ کمپیوٹر، باقی بیرون ملک کے دورے، سرکاری گاڑیاں، سیمینار، ورکشاپس، افسران کے ٹی اے ڈی اے اور قصہ تمام۔ نظام وہیں کا وہیں کھڑا ہے اور ہم آج بھی خیر سے تیس ارب روپے سود سمیت ادا کررہے ہیں۔ 
جنرل مشرف دور میں چولستان اور بلوچستان میں خشک سالی نے حملہ کیا۔ چلتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو روک دیا گیا ۔ اس کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک سے قرضے لیے گئے۔ وہ قرضہ خشک سالی کے لیے شفٹ کیا گیا۔ بارہ ارب روپے پلاننگ ڈویژن کو دیے گئے۔ پھر چکر چل پڑا۔ زکوٹا جن لنگوٹے کس کر میدان میں اترے۔ ایک آڈٹ آفیسر کو اکائونٹس معاملات سنبھالنے کے لیے بھیجا گیا ۔ اس نے پورا پراجیکٹ ہی سنبھال لیا۔ سب سے پہلے تیس قیمتی گاڑیاں لی گئیں ۔ پھر اسلام آباد میں ایک سو لوگوں کو ملازمتوں پر رکھ لیا گیا، دفاتر کی نئے سرے سے آرائش کی گئی، نئے نئے سمارٹ فونز کی خریداری، لیپ ٹاپ۔ ڈپٹی چیئرمین نے اپنے دفتر کی وہ آرائش کرائی کہ بندہ وہاں سے اٹھنے کا نام ہی نہ لے۔ دفتر میں راکنگ چیئر خشک سالی کے فنڈز سے لی گئی۔ پلاننگ ڈویژن کا جو بھی سیکرٹری لگتا‘ اس کی بیگم کو فوراً نئی گاڑی لاہور جی او آر بھیجی جاتی۔ پانچ برس میں پانچ وفاقی سیکرٹریز کی لاہور میں رہائش پذیر بیگمات کو پانچ نئی گاڑیاں ملیں۔ پٹرول، ڈرائیور سب کچھ خشک سالی کے بجٹ سے خرچ ہوتا۔ ایک آڈٹ افسر‘ جسے خشک سالی کے نام تک کا علم نہ تھا، پانچ برس تک خشک سالی کا بارہ ارب روپے کا منصوبہ چلاتا رہا اور مال پانی سب مل کر کھاتے رہے۔ چولستان سے ایک دن خبر آئی کہ وہاں بھوک سے تیس عورتیں اور بچے مر گئے۔ مرتے کیسے ناں؟ جب ان کے حصے کا پیسہ اسلام آباد میں زکوٹا جنوں پر خرچ ہورہا تھا۔ اور تو اور بلوچستان میں آئی جی پولیس کا دفتر بھی خشک سالی کے لاکھوں روپے سے بنایا گیا۔ 
برسوں بعد جب اس پراجیکٹ کی آڈٹ رپورٹ پبلک اکائونٹس کے سامنے پیش ہوئی تو چوہدری نثار کو پتہ چلا کہ آڈٹ آفیسر کی سفارش اس بندے نے کی ہے جس کے ان کے حلقے میں ہزاروں ووٹرز ہیں۔ ووٹ جیت گیا اور آڈٹ آفیسر مسکراتا ہوا، بلکہ سب کے منہ چڑاتا ہوا پبلک اکائونٹس کمیٹی سے صاف نکل گیا۔ یہ انجام ہوا بارہ ارب روپے کے قرضے کا۔ 
اسی طرح جنرل مشرف دور میں جنون اٹھا کہ ریلوے کو ٹھیک کیا جائے ۔ تین ریٹائرڈ افسروں کو ذمہ داری سونپی گئی۔ چین سے اربوں روپے کا قرضہ لیا گیا اور انجن پاکستان لائے گئے۔ پتہ چلا کہ ہمارے پلیٹ فارم چھوٹے اور انجن بڑے ہیں۔ سب پلیٹ فارموں کو توڑا گیا۔ انجنوں اور بوگیوں میں کریک ابھرے اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ آج بھی قرض اتر رہا ہے۔ 
گیلانی دور میں حاجی بلور صاحب کو پھر شوق اٹھا ۔ پھر ایک پڑوسی ملک سے اربوں روپے کا قرضہ لیا گیا۔ پتہ چلا پھر گھپلے ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی ریلوے کمیٹی نے تحقیقات شروع کر دی۔ ریلوے کو کہا گیا کہ آپ نے ابھی اس ڈیل پر کام نہیں کرنا۔ کون سنتا۔ اسی ملک سے پھر پندرہ ارب روپے کا قرضہ۔ ایڈوانس پندرہ ملین ڈالرز پاکستان نے ادا کرنے تھے۔ دس ملین ڈالرز کی انشورنس بھی دی گئی۔ یوں پچیس ملین ڈالرز پاکستان سے اس ملک میں بھیجے گئے۔ وہ قرضہ استعمال نہ ہوسکا تو اس ملک کے بینک نے پاکستان کو ہر روز چودہ سو ڈالرز کا جرمانہ شروع کیا۔ دو لاکھ ڈالرز جرمانہ ادا ہوچکا تھا اور سود اس کے علاوہ ادا ہورہا تھا۔ ریلوے وہیں کی وہیں کھڑی ہے اور قرض ابھی ادا کرنا ہے۔ 
رحمن ملک کے سیف سٹی پراجیکٹ پر اتنی دفعہ بات ہوچکی ہے کہ اب کچھ نیا نہیں رہا۔ پہلے 142 ملین ڈالرز کا منصوبہ بنایا گیا۔ پتہ چلا بیس ملین ڈالرز تو صرف کمیشن تھا۔ سپریم کورٹ میں کیس گیا تو منصوبہ ایک سو بیس ارب روپے کا ہوگیا۔ اتنی دیر میں ایک پڑوسی ملک کے بینک سے قرضہ لے کر ستر ملین ڈالرز اسی ملک کی کمپنی کو ایڈوانس دیے گئے۔ کمپنی نے چوبیس سکینرز دینے تھے، چار بھیجے اور چاروں ناقص۔ پھر اس کمپنی کا کسی نے نام نہیں سنا۔ ایک سو بیس ملین ڈالرز قرضہ پر سود آج بھی ادا ہورہا ہے۔ ستر ملین ڈالرز وہ کمپنی لے گئی۔ پچاس ملین قرض استعمال نہ کرنے پر جرمانہ بھی ادا ہورہا ہے۔ نیب کے پاس فائل چار برس سے پڑی ہے جب کہ رحمن ملک آج کل عمران خان اور نواز شریف کے درمیان صلح کرانے کے مشن پر نکلے ہوئے ہیں۔ 
ایک طرف قرضوں کی یہ ہوش ربا کہانیاں‘ دوسری طرف قومی اسمبلی میں انکشاف ہوا ہے کہ وزیراعظم نے ایک سال میں تیس کروڑ روپے بیرون ملک دوروں پر خرچ کیے ہیں‘ جب کہ اس سال بیرون ملک دوروں کا ٹارگٹ ڈیڑھ ارب روپے ہے۔ صدر مملکت کے بیرون ملک دوروں کے لیے چالیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ 
اب خبر آئی ہے کہ روس سے قرضہ لیا جارہا ہے۔ کبھی ہم روس کو تباہ کرنے کے مشن پر کام کر رہے تھے۔ آج کل اسی روس سے قرض لے کر زندہ رہنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب سمجھ آتی ہے کہ جو دو سو ارب ڈالرز پاکستانیوں کے بیرون ملک پڑے ہیں‘ وہ کہاں سے آئے تھے اور ہم دھڑا دھڑ قرضے کیوں لیتے ہیں‘ جن کا استعمال پاکستان سے زیادہ دوسرے ملکوں کے بینکوں میں ہوتا ہے! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں