ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کرپشن ایک درجہ کم ہوئی ہے۔
2007ء میں لندن میں ایک دن ہمارے پروفیسر نے برٹش ہسٹری کی کلاس میں پڑھاتے ہوئے دو سروے بانٹے۔ ایک سروے میں دکھایا گیا تھا کہ 1920ء کی دہائی میں برطانیہ میں کون سی بیماریاں تھیں اور کتنے لوگ بیمار ہوئے تھے۔ دوسرا سروے 1990ء کے بارے میں تھا۔ 1990ء کے سروے سے لگتا تھا کہ بہت بڑی تعداد میں بیماریاں برطانیہ پر حملہ آور ہوگئی تھیں ۔ لوگ زیادہ بیمار ہونے لگ گئے تھے جب کہ ستر سال قبل دنیا میں بہت آرام تھا۔
پروفیسر نے پوچھا: کیا وجہ ہے 1990ء میں بیماریوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، نئی نئی بیماریاں سامنے آگئی ہیں اور لوگ زیادہ بیمار ہونے لگ گئے ہیں‘ جبکہ پہلے دنیا میں یہ بیماریاں نہیں تھیں۔ ان برسوں میں ایسا کیا ہوگیا تھا کہ دنیا بیماریوں کا گھر بن گئی ہے۔
ہم سب کلاس فیلوز نے جو دانشوری ممکن تھی‘ فرمائی لیکن پروفیسر صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ آخر وہ بولے: ستر سال قبل اور اب کے سروے میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ بیماریاں وہی ہیں جو اس وقت بھی موجود ہوں گی۔ لوگ اس وقت بھی بیمار ہوتے ہوں گے۔ فرق یہ پڑا ہے کہ اب بیماریوں پر تحقیق ہونا شروع ہوگئی ہے۔ برطانوی لوگ اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہوگئے ہیں ۔ میڈیکل سائنس کی ترقی نے شعور عطا کر دیا ہے۔ ستر سال قبل یہ شعور نہیں تھا۔ اس وقت یہ بیماریاں رپورٹ نہیں ہوتی تھیں، اب رپورٹ ہوتی ہیں ۔ لوگ اس وقت بھی انہی بیماریوں کے ہاتھوں مرتے تھے جن کی وجہ سے آج مرتے ہیں۔ فرق یہ پڑا ہے کہ آج ہمیں بیماری کا نام معلوم ہے، اس وقت نہیں تھا۔
تو کیا یہی کچھ کرپشن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں الٹا ہوا ہے اور اب کرپشن رپورٹ ہونا کم ہوگئی ہے وگرنہ کرپشن کل بھی اتنی ہی تھی جتنی آج ہے؟ یا پھر پیپلز پارٹی دور میں کرپشن میڈیا اور عدالتوں کے ذریعے رپورٹ زیادہ ہوتی تھی۔ پیپلز پارٹی دور میں سیدھی کرپشن کی جاتی ہے جو سب کو نظر آتی ہے۔ ٹرانسفر یا پوسٹنگ میں مال بنا لو۔ حج سکینڈل میں مال کھرا کرو۔ ایل این جی ڈیل مار لو۔ سابق مشیر پٹرولیم کی طرح میڈیکل کی تعلیم بیچ دو۔ آخری دن نئے سی این جی اسٹیشن لائسنس مال لے کر جاری کردو۔ ایک دو کروڑ روپے کا فنڈ لکی مروت میں بیچ دو۔ نوکری کے پیسے لے لو۔ پروموشن پر مال بنا لو۔ یہ وہ کرپشن ہے جو سب کو نظر آتی ہے اور ہر بندہ اس سے متاثر ہوتا ہے؛ تاہم موجودہ حکمران زیادہ سمجھدار ہیں۔ ان کے دور میں وائٹ کالر کرائمز بڑھ جاتے ہیں۔ عام آدمی کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا ہورہا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان میں رپورٹروں کی فوج بھرتی نہیں کررکھی‘ جو اسے پاکستان میں ہونے والی کرپشن کی پل پل رپورٹس دے۔ وہ زیادہ تر پاکستانی میڈیا پر انحصار کرتے ہیں اور پاکستانی میڈیا آج کل دھرنوں اور جلسوں کو کور کرنے میں اتنا مصروف ہے کہ اس کے پاس کرپشن کی خبریں کور کرنے کے لیے وقت ہی نہیں رہا۔ لگتا ہے کہ میڈیا نے بھی عوام، عدالتوں، ایف آئی اے اور نیب کی طرح کرپشن کے ساتھ سمجھوتہ کر لیاہے۔
آپ نے کبھی سنا ہے کہ پنجاب میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں آڈٹ پیروں کو سامنے لایا گیا ہے؟ ان کو بدستور دیمک کھا رہی ہے ۔ پنجاب حکومت کے ہزاروں آڈٹ پیرے 2008ء کے بعد سے ابھی تک کمیٹی کے سامنے نہیںلائے گئے جن میں بڑے پیمانے پر سکینڈلز کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ان میں ایسی ایسی داستانیں بے نقا ب کی گئی ہیں کہ بندے کے ہوش اڑ جائیں۔ بڑا صوبہ ہونے کے ناتے پنجاب کا کرپشن میں بھی حصہ بڑا ہے۔ لیپ ٹاپ، میٹرو، سستی روٹی جیسے سکینڈلز کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں روپوں میں ہیںجو کسی رپورٹر نے نہیں بلکہ آڈیٹر جنرل نے خود رپورٹ کیے ہیں ۔
آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کو لاہور میں بلا کر باقاعدہ سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی تھی کہ بہتر ہوگا وہ اس طرح کا آڈٹ نہ کریں جیسا اسلام آباد میں بیٹھ کر کرتے آئے ہیں ۔ کرپشن چھپانے کا ایک اور طریقہ یہ ڈھونڈا گیا کہ پنجاب کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا کبھی اجلاس ہی نہیں ہونے دیا گیا ۔ موجودہ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو قائم ہوئے ڈیرھ برس ہوئے ہیں اور اس کی کارگردگی سب کے سامنے ہے۔ یہی عمل سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہرایا گیا ۔ وہاں بھی صوبائی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا ادارہ کوئی اہم کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔ سیاستدانوں نے جان بوجھ کر آڈیٹرجنرل کے ادارے کو تباہ کرنا شروع کیا ۔
بلند اختر رانا کو سبق سکھانے کا کام شروع ہوا جب انہوں نے ایک طرف پیپلز پارٹی دور میں دیے گئے اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کا آڈٹ کر کے ہوشربا داستانیں شائع کرنی شروع کیں کہ کیسے ملک کے خزانے کو تباہ کیا گیا۔ اور بقول میرے ایک دوست کے ٹھیکیداروں اور فرینڈلی سیاستدانوں نے کیسے لوٹ مچائی اور فنڈز بیچے۔ پہلے پیپلز پارٹی ناراض ہوئی اب موجودہ حکومت ناراض ہوگئی جب بلند اختر رانا نے گورنر اسٹیٹ بینک کی اس بات پر انکوائری شروع کی کہ اس نے بغیر پری آڈٹ اور اے جی پی آر کی کلیئرنس کے پانچ سو ارب روپے کی براہ راست ادائیگی کیسے آئی پی پی ایز کو راتوں رات کر دی۔ قانون کے تحت اسٹیٹ بینک یہ ادائیگیاں براہ راست نہیں کر سکتا تھا۔ اب یہ تبدیلی کی گئی کہ آئندہ اربوں روپے کسی بھی پارٹی کو ادا کرنے کے لیے پری آڈٹ اور اے جی پی آر کی کلیئرنس کی ضرورت نہیں بلکہ صرف صدر پاکستان سے رسمی منظوری لی جائے گی کہ فلاں پارٹی کو اتنے ارب ادا کیے جارہے ہیں۔ اب بتائیں جب ایسی بھاری رقومات کا حساب کتاب ہی اے جی پی آر کے پاس نہیں آئے گا تو پھر کہاں کی کرپشن اور کہاں کی ٹرانسپیرنسی ۔ پھر تو سب یہی سمجھیں گے کہ کرپشن کم ہوگئی ہے۔ یوں اوپر اوپر ہی سب معاملہ طے کر لیا گیا ہے۔ کرپشن جاری رہے گی لیکن اب کرپشن کو کوئی پکڑ نہیں سکے گا اور نہ ہی آئندہ کوئی آڈیٹر جنرل گورنر اسٹیٹ بینک کو خط لکھ کر انکوائری شروع کرے گا کہ تم نے کیسے پانچ سو ارب روپے چند پارٹیوں کو ان کے بلز کلیئرنس کے بغیر ادا کیے۔
ہاں کرپشن میں یہ فرق ضرور پڑا ہوگا کہ پہلے بلز کی کلیئرنس کرانے کے لیے اے جی پی آر کے اہلکار مال بناتے تھے۔ اپنا حصہ لیے بغیر وہ چند روپوں کا بل بھی کلیئر نہیں کرتے تھے۔ اب جب وزارت خزانہ اربوں روپے کے بلز براہ راست اسٹیٹ بینک سے کلیئر کرائے گی تو پھر وہ کمشن کچھ اور لوگ ہی کھائیں گے جس کا شاید کسی کو کبھی پتہ نہ چلے۔
یوں وہ تمام ادارے جو واچ ڈاگ کہلاتے ہیں اور ان کا کام کرپشن اور کرپٹ عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہے‘ ان کی دلچسپی ماند پڑ گئی۔ آڈیٹرز کہتے ہیں کہ بہتر ہے نچلے لیول پر ہی مک مکا کر کے پیسے کھرے کر لو کیونکہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا کردار تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ سب پارٹیوں کے نمائندے کمیٹی میں بیٹھے ہیں اور انہی کی حکومتوں کی کرپشن کی داستانیں ان کے سامنے بکھری پڑی ہیں۔ کون ہاتھ ڈالے گا اور کیوں ڈالے گا؟ انہیں اپنے ملک اور اپنے دوست سیاستدانوں اور وزراء میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور وہ سب بڑے آرام سے دوستوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ جب آڈیٹر جنرل نے شور مچانے کی کوشش کی کہ جناب پبلک اکائونٹس کمیٹی اپنا کردار ادا نہیں کررہی تو فرمایا گیا
کہ آپ چُپ رہیں کیونکہ اپ پر یہ الزام ہے کہ آپ نے تیس ہزار روپے اپنی تنخواہ بڑھائی ہے۔ سیاستدانوں کی کرپشن کھوکھاتے اور آج کل آڈیٹر جنرل عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کہ آپ کی تنخواہ تیس ہزار روپے کیسے بڑھ گئی تھی ۔
اب بتائیں کرپشن کیسے کم نہ ہو‘ جب رپورٹ کرنے والے ہی نہ رہیں۔ آڈیٹرز نے نوکری کرنی ہے تو پھر خاموش رہنا ہوگا۔ پانچ سو ارب روپے کا آڈٹ روکنا ہوگا۔ میٹرو اور دیگر آڈٹ نہیں کرنے ہوں گے۔ بڑے بڑے منصوبوں میں کلین چٹ دینا ہوگی اور اس کا نتیجہ کرپشن فری پاکستان۔ سبحان اللہ!
وائٹ کالر کرائمز کی ایک اور مثال وہ اہم ریگولیٹری ادارے ہیں جو بغیر سربراہ کے چل رہے ہیں جن میں سکیورٹی ایکسچینج کمشن آف پاکستان شامل ہے۔ جس بڑی فرم کا جی جو چاہے لوٹ مار کرتا رہے‘ کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا ۔
ایف آئی اے ہو یا نیب‘ سب ادارے اب اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔ وہ اب ریاست کے ملازم نہیں رہے بلکہ وہ سیاسی ماسٹرز کے غلام ہیں ۔ سیاستدانوں کے مفادات میں ہی ان کا مفاد ہے۔ ان اداروں کے افسران بھی اپنی چونچ گیلی کرلیتے ہیں۔ سب کا گزارہ ہورہا ہے۔ ملک سے کرپشن کم ہورہی ہے، سب کا بھلا ہورہا ہے، ملک کا نام بہتر ہورہا ہے‘ اس سے زیادہ اچھی کیا بات ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی وائٹ کالر کرائم کرنے پر دھیان دیتی تو شاید بدنام نہ ہوتی۔ وہ بھی چوہدری نثار علی خان ایسا چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی نہ لگاتی بلکہ ایسا چیئرمین لگاتی جس کے اپنے اوپر سکینڈلز ہوتے اور وہ نیب میں مقدمات لڑ رہا ہوتا تو شاید اجلاس ہی کبھی منعقد نہ ہوتے‘ جیسے آج کل نہیں ہوتے۔ پہلے نیب اور ایف آئی اے ختم ہوئے، پھر پبلک اکائونٹس کمیٹی، اب آڈیٹر جنرل عدالتوں میں خوار ہوتا پھر رہا ہے، تو بتائیں کرپشن کیسے کم نہ ہوتی؟
بہرحال ایف آئی اے، اینٹی کرپشن، نیب اور پبلک اکائونٹس کمیٹی نے دن رات کی محنت کے بعد ملک سے کرپشن کم کرہی دی ہے! عوام کو مبارک ہو۔