جو کچھ اس وقت پاکستان میں حکمران اور بیوروکریٹس مل کر ہمارے ساتھ کررہے ہیں اس کے لیے مہذب اصطلاح 'مافیا راج‘ ہی ہو سکتی ہے۔جو بھی اس مافیا کے خلاف سر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اس کا سر ہی کچل دیا جاتا ہے‘ چاہے وہ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا ہوں، اکائونٹنٹ جنرل طاہر محمود یا اب سندھ پبلک سروس کمشن کے سربراہ آ غا رفیق۔
مال کمانے کا جنون اپنے عروج پر ہے۔
پچھلے سال ستمبر ہی سے اشارے ملنے شروع ہوگئے تھے کہ پی ایس او کا بحران شروع ہوچکا اور اب یہ ادارہ بیٹھ جائے گا ۔ پی ایس او میں کرپشن کے سکینڈلز ہر سال سامنے آرہے تھے۔ نیب اور ایف آئی اے نے کارروائی شروع کر دی تھی۔ افسران کا نام بھی ای سی ایل پر ڈال دیا گیا تھا ۔ پی ایس او کے افسران نے راتوں رات کروڑوں روپے کما لیے تھے۔ افسران کو پتہ تھا کہ اگلی صبح پٹرول مہنگا ہورہا ہے‘ لہٰذا راتوں رات اپنے پسندیدہ ڈیلرز کو فروخت کر دیا گیا ۔ اگلے دن قیمتیں بڑھیں تو ڈیلرز سے اپنا حصہ وصول کر لیا۔ اگر پی ایس او خود وہ پٹرول مہنگا ہونے پر بیچتا تو اربوں کماتا لیکن افسران نے کروڑوں کما کر ملک کے اربوں ڈبو دیے۔
ایک طرف پی ایس او میں مالی فوائد لیے جارہے تھے تو دوسری طرف کسی کو پروا ہی نہیں تھی کہ اس کا مارکیٹ شیئر کم ہورہا ہے۔ پتہ چلا پی ایس او افسران آئل امپورٹ کنٹریکٹ سکینڈل میں ملوث تھے۔ پی ایس او کا سابق ایم ڈی کینیڈا فرار ہوگیا جب کہ باقی افسران کے نام ای سی ایل پر ڈال دیے گئے۔ جس ایکٹنگ ایم ڈی جنجوعہ کو وزیراعظم نے اب معطل کیا ہے ان کا نام بھی پہلے ای سی ایل پر تھا۔ جنجوعہ صاحب کو یہ چارج ملنے کی ایک ہی وجہ تھی کہ وہ وزیرموصوف کے گائوں سے بتائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر صاحب نے اپنے ایک چہیتے کو ایم ڈی پی ایس او لگانے کے لیے تجربہ کی حد بیس برس سے کم کر کے دس برس کر دی ۔ جو دس برس پہلے پی ایس او میں بھرتی ہوا تھا وہ اب ایم ڈی لگنے کی تیاریاں کررہا تھا اور اسے پٹرولیم وزارت کی پوری حمایت حاصل تھی۔
یہ بھی سن لیں اربوں روپے کیسے لوٹے جارہے تھے۔ 2013ء میں اکائونٹنٹ جنرل طاہر محمود نے خود نیب کے دفتر میں جا کر ریفرنس جمع کرایا کہ تیل کمپنیوں کو ان کی منظوری کے بغیر چپکے سے دو سو نوے ارب روپے Price differential کا بہانہ بنا کر دیے گئے ہیں۔ طاہر محمود کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا فراڈ ہے جو اس ملک کے ساتھ کیا گیا ہے۔ قانون کے تحت اکائونٹنٹ جنرل‘ جو وہ خود تھے‘ کو ان دو سو نوے ارب روپے کے بلوں کی تفصیلات دی جانی چاہئیں تھیں۔ وہ ان کا پری آڈٹ کرتے کہ کیا واقعی وہ بل واجب ادا تھے اور کلیم درست تھے اور پھر ان کی ادائیگی اکائونٹنٹ جنرل کے دستخطوں سے ہوتی نہ کہ براہ راست ادائیگی کی جاتی۔
اس سے پہلے 2011ء میں چیئرمین نیب نے ہی یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ اکیاسی ارب روپے کے فراڈ کی تحقیقات کررہے تھے کہ کیسے تیل کی قیمتوں کا تعین کیا گیا تھا ۔ اس سکینڈل میں وزارت پٹرولیم، وزارت خزانہ اور پی ایس او کے افسران ملوث تھے۔ اس سے قبل 2009ء میں ایف بی آر نے انکشاف کیا تھا کہ آئل مارکیٹنگ اور آئل ریفائنری نے 23 ارب روپے ٹیکس کی چوری کی تھی۔ اس طرح ایف بی آر کے مطابق ان آئل کمپنیوں نے آئل امپورٹ ڈیوٹی کی مد میں چودہ ارب روپے کی چوری کی تھی۔ ایک اور سکینڈل بھی سامنے آیا‘ جب چیئرمین نیب نے میڈیا کے سامنے تصدیق کی کہ پاکستان اسٹیٹ آئل اور دوسرے جعلی دستاویزات پر تیل منگواتے رہے ہیں اور بھاری مال کمایا گیا ہے۔
اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ جب نواز حکومت اقتدار میں آئی تو راتوں رات پانچ سو ارب روپے کی ادائیگی سرکلر ڈیٹ کی مد میں کر دی گئی۔ جب اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان طاہر محمود کو اخبارات سے پتہ چلا کہ ان کی اجازت اور پری آڈٹ کے بغیر ہی براہ راست اسٹیٹ بنک سے ادائیگی کی گئی ہے تو انہوں نے آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کو خط لکھا‘ جس پر رانا اختر نے گورنر اسٹیٹ بنک کو لیٹر لکھا کہ انہوں نے کس قانون کے تحت بغیر پری آڈٹ کیے پانچ سو ارب روپے کی ادائیگیاں کر دی تھیں؟ جونہی اس فراڈ کا بھانڈا پھوٹنے کا خطرہ پیدا ہوا تو پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ممبران نے مل کر آڈیٹر جنرل کے خلاف انکوائری شروع کر دی کہ انہوں نے اپنی تنخواہ چند ہزار روپے کیسے بڑھوا لی تھی۔ ساتھ ہی اسحاق ڈار نے چپکے سے بجٹ کی منظوری کے موقع پر قومی اسمبلی سے ایک شق پاس کرالی کہ آئندہ اربوں روپے کی ادائیگی کرنے کے لیے اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان کے پری آڈٹ یا منظوری کی ضرورت نہیں ہے اور براہ راست ادائیگیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
اس کے ساتھ ہی اڈیٹر جنرل اور اکائونٹنٹ جنرل آفس کی آزادی کو تباہ کرنے اور اپنی مرضی سے ادائیگیاں کرانے کے لیے وزارت خزانہ نے آڈیٹر جنرل کے اختیارات خود استعمال کرتے ہوئے افسران کی تعیناتیاں کرنی شروع کردیںجو آج تک پاکستانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ پہلے اکائونٹنٹ جنرل اپنی مرضی کا لایا گیا اور اسے اربوں کی ادائیگیوں کے عوض انعام کے طور پر پروموشن دی گئی‘ پھر صوبوں میں وزارت خزانہ نے اپنی مرضی کے اکائونٹنٹ جنرل لگائے اور یوں سب نے مل کر اربوں روپوں کے بلوں کی ادائیگیاں کرنا شروع کردیں ۔ میٹرو بس اور دیگر اس طرح کے منصوبوں کے بلوں کو بھی اسی طرح صوبائی اے جی کے ذریعے کلیئر کرا کے ادائیگیاں کی گئیں اور آڈیٹر جنرل کا کردار بالکل ختم کر دیا گیا۔ اسی پر بس نہ کیا گیا بلکہ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کو پانچ سو ارب روپے کی براہ راست ادائیگی کرنے پر گورنر سٹیٹ بنک کی جواب طلبی کی جرأت کرنے کی سزا دینے کے لیے ان کے خلاف پی اے سی سے تنخواہ بڑھوانے کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا گیا۔ یوں آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا جو گورنر اسٹیٹ بنک کی انکوائری کررہے تھے کہ انہوں نے کیسے راتوں رات پانچ سو ارب روپے سرکلر ڈیٹ پری آڈٹ کے بغیر جاری کیے تھے‘ اب خود سپریم جوڈیشل کونسل میں پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔
اس سے پہلے اکائونٹنٹ جنرل طاہر محمود نے لاہور کی ایک پرائیویٹ پارٹی کے ایک ارب روپے کے بلوں کی ادائیگی روک دی ۔ پتہ چلا جعلی بلز بنا کر مال کمانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ جب طاہر محمود نے ان بلوں کی تفصیلات مانگیں تو انہیں پہلے سفارشیں کی گئیں۔ پیپلز پارٹی دور میں انہیں کہا گیا کہ وہ ادائیگی کر دیں۔ انہوںنے انکار کر دیا۔ تاہم پیپلز پارٹی نے مہربانی کی کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن جونہی نواز حکومت اقتدار میں آئی تو فورا دبائو ڈالا گیا کہ اس پارٹی کو ایک ارب روپے کی ادائیگی کرو۔ انکار کیا تو سخت قسم کی دھمکیاں آنا شروع ہوگئیں۔ طاہر محمود پھر بھی ڈٹا رہا ۔ اب جب وہ ریٹائر ہوا تو ان کی جگہ اسحاق ڈار نے جس کو اکائونٹنٹ جنرل لگوایا‘ اس نے انعام کے طور پر ایک ارب روپے کی وہ ادائیگی کر دی ہے۔
سندھ کی سن لیں ۔ سندھ پبلک سروس کمشن کے سربراہ آغا رفیق نے اس سال فیصلہ کیا کہ وہ مقابلے کے امتحان میں میرٹ پر نوجوانوں کا انتخاب کریں گے۔ اٹھارہ ہزار امیدواروں نے اسسٹنٹ کمشنر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسران اور لیبر افسران کی پوسٹوں کے لیے اپلائی کیا ۔ انہوں نے امتحان سے قبل سکریننگ ٹیسٹ کا فیصلہ کیا ۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ سندھ کے بڑے ان اہم پوسٹوں کے لیے نقد سودے کر چکے تھے۔ جب سکریننگ ہوئی تو انہیں ایک فہرست تھما دی گئی کہ ان نوجوانوں کو ان اہم پوسٹوں پر کامیاب قرار دیں۔ اٹھارہ ہزار امیدواروں میں سے تین ہزار کامیاب ہوئے۔ آغا رفیق کے اپنے بیٹے نے بھی اسسٹنٹ کمشنر کے لیے اپلائی کیا تو باپ نے سکریننگ ٹیسٹ سے پہلے اس کا فارم پھاڑ دیا تاکہ سب کو پیغام ملے کہ وہ سفارش نہیں مانیں گے۔ آغا کو پتہ چلا کہ سندھ سروس کمشن کے کچھ ممبران بھی بعض امیدواروں کی مدد کررہے تھے۔ انہوں نے ان کو بھی اسی طرح ڈراپ کردیا جیسے اپنے بیٹے کو کیا تھا۔ کسی لمحے آغا رفیق کا ضمیر جاگ گیا تھا۔ انہوں نے وہ سفارشی فہرست اٹھا کر پھینک دی اور سکریننگ ٹیسٹ میں کامیاب ہونے والوں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ اس طرح بہت سے غریبوں کے بچے امتحان پاس کر گئے تھے۔
اس پر سندھ کے بڑوں کا غصہ آسمان کو چھونے لگا ۔ آغا کو وزیراعلیٰ ہائوس بلایا گیا۔ بڑی دیر انتظار کرانے کے بعد اندر بلایا اور کہا گیا وہ فوراً استعفیٰ دیں۔ ان سے استعفیٰ لے کر اب نیا چیئرمین رکھا جائے گا‘ جو پہلے سکریننگ ٹیسٹ کو کالعدم قرار دے کر تمام سفارشیوں کو بھرتی کرے گا ۔
یہ کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریٹس ہر اس افسر کا سر کچل دیتے ہیں جو اربوں کی لوٹ مار کے آگے مزاحمت کرتا ہے۔ بلند اختر رانا، طاہر محمود اور اب آغا رفیق تو چند نام ہیں‘ ورنہ ایسے افسران کی فہرست طویل ہیں جنہوں نے مزاحمت کی اور پھرعبرت کا مقام بن گئے۔
اب آپ کیا کہتے ہیں کہ اس ملک پر کون راج کررہا ہے؟ جی ہاں‘ مافیا راج!