امریکہ میں پچھلے برس چند ماہ رہنے کا ایک فائدہ ہوا ہے۔ وہاں میں نے ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھر netflix پر بڑی تعداد میں کائوبوائے اور ویسٹرن فلمیں دیکھی ہیں کہ اب مجھے پاکستان لوٹ کر کچھ پرانا نہیں لگتا ۔ میں بڑے سکون میں ہوں ۔
اب مجھے یہاں سیاستدانوں کی جاری لوٹ مار، لاقانونیت، نہ ختم ہونے والا تشدد ، مار دھاڑ، اداروں کی ناکامی، حب الوطنی کے نام پر شروع کیے گئے کھیل، عوام کی بربادی، قتل عام ، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بات بات پر انسانوں کو قتل کردینا، گھیرائو جلاو، ہڑتالیں۔گندگی، غنڈہ گردی یا کرپٹ پولیس ،کچھ بھی برا نہیں لگتا ۔ سب کچھ اپنا اپنا لگتا ہے۔ اب تو ایک خوف ہے کہ اگر کسی نے پاکستان کے ماحول کو درست کرنے کی کوشش کی تو شاید یہاں رہنے کو جی نہیں چاہے گا ۔ اب تو یہ سب کچھ اپنا ہے۔ اپنا ناسٹلجیا ہے، اپنا سرمایہ ہے۔
مجھے لگتا ہے میں بھی اب انہی فلموں کا ایک کردار ہوں جو Wild West پر ڈیڑھ دو سوسال پہلے کے امریکی معاشرے پر بنائی گئی ہیں اور میں بھی دو سوسال پہلے کے امریکہ جیسے کسی معاشرے میں رہتا ہوں جہاں جس کے ہاتھ میں بندوق اور پائوں تلے گھوڑا ہے‘ وہی بادشاہ ہے اور وہی زندہ رہنے کا فن جانتا ہے یا اسے زندہ رہنے کا حق ہے۔ کمزور کو مار ڈالو ۔ لوٹ سکتے ہو تو لوٹ لو...طاقتور کے آگے یا تو جھک جائو یا پھر اس کے ساتھی اور خوشامدی بن جائو۔
مجھے فلموں میں سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ہو سکتا ہے امریکیوں کے نزدیک پچھلے سال بننے والی فلم Million Ways to Die in the West ایک فلاپ فلم ہو کہ وہ اچھا بزنس نہ کر سکی‘ میں نے ڈاکٹر عاصم صہبائی کے ساتھ لیوس شہر کے سینما ہائوس میں وہ فلم پندرہ دنوں میں پانچ دفعہ اس لیے دیکھی کہ اس میں کوئلے پر چلنے والی ٹرین کی چھک چھک کی مدھر سریلی آوازیں،بوڑھے انجنوں سے نکلتے ہوئے سفید دھوئیں اور ان کے پس منظر میں سرخ پہاڑوں کے درمیان سے سرپٹ دوڑتے، ناک سے غصیلی انداز میں ہنہناتے گھوڑے اور دھول اڑاتے سموں کی ردھم کے ساتھ ابھرتی ہوئی تیز آوازیں ایک صحرائی میوزک کی طرح مجھ پر سحر طاری کر کے کسی اور دنیا میں لے جاتیں۔ میں نے مسحور کردینے والے سین دیکھنے کے لیے وہ فلم پانچ دفعہ دیکھی۔ عاصم نے میرے ساتھ یہ فلم ایک دفعہ دیکھی تھی اور ہم دونوں بعض مناظرپر تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے تھے۔ میں نے کہا‘ بھائی جان میں نے تو بار بار دیکھنی ہے۔ مروت کا مارا پیارا عاصم مجھے بار بار سینماہائوس ڈراپ اور رات گئے پک بھی کرتا یا عاصم ہسپتال ہوتا تو یہ ڈیوٹی عائشہ بھابھی ادا کرتیں ۔
اسی فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ قصبے کے میئر کی لاش تین دن سے گلی میں پڑی ہے۔ اسے دفنانے والا کوئی نہیں۔ کتا میئر کی لاش گھسیٹ کر لے جاتا ہے۔ جو میئر اپنے قصبے کی حالت بہتر نہیں کر سکا تھا اسے کتوں نے ہی کھانا تھا۔ ایک اور سین میںدو بھوکے جونہی پیٹ بھر کر کھا چکے ہوتے ہیں اور بل دینے کا وقت آتا ہے تو دونوں ڈکار لے کر گرتے ہیں اور وہیں مرجاتے ہیں۔
ایک اور سین میں ایک رہزن ایک بوڑھے کو کہتا ہے‘ تمہارے پاس سونا ہے؟ مجھے دے دو۔ وہ بوڑھا کہتا ہے‘ نہیں ہے۔ اس پر وہ رہزن بندوق نکال لیتا ہے جس پر بوڑھا اسے کہتا ہے کہ گولی نہ مارو‘ میں سونا دیتا ہوں۔تاہم رہزن کہتا ہے‘ تم نے پہلی دفعہ نہ دے کر میرا وقت ضائع کیا ہے۔اب تو میں تمہیں گولی ماروں گا۔تاہم اچانک رہزن کو اپنی عزت کا خیال آتا ہے اور بوڑھے کو کہتا ہے کہ اپنی گن نکالو۔تین فائر کریں گے اور جو بچ گیا سونا اس کا...وہ دو پر ہی بوڑھے کو گولی ماردیتاہے اور بولتا ہے‘ تم سمجھتے ہو،میں بھکاری ہوں جو تمہارا سونا چرا رہا تھا؟
اب رہزن کے خیال میں اس نے وہ سونا اس بوڑھے سے مانگا یا چرایا نہیں تھا بلکہ بہادروں کی طرح جیتا تھا۔
اس لیے پہلے جب Gangs of New York دیکھی تھی تو بھی کچھ دل کو تسلی ہوئی تھی کہ ساری دنیا میں ایسے ہی ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ کیوں اپنا دل جلائیں کہ ہمارا ملک جل رہا ہے۔
جس نے بھی وہ فلم دیکھی ہے وہ مجھ سے اتفاق کرے گا کہ لگتا ہے وہ فلم ڈیڑھ سو سال پہلے کے نیویارک پر نہیں بنائی گئی بلکہ آج کے کراچی پر بنی ہے۔ اس فلم میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنک، کرپٹ سیاستدان، قاتل، الیکشن فراڈ، گینگ وارز، لوگوں کو زندہ جلانا، یا ڈنڈوں اور اینٹوں سے کچل کر مارنا،یہ سب کچھ آپ کو اس فلم میں ملے گا۔
یہ فلمیں دیکھنے کے بعد میں نے طویل عرصے تک اپنی نفسیاتی کونسلنگ کی۔ اپنے آپ کو سمجھایا کہ جو کچھ ہمارے ہاں ہورہا ہے وہ کوئی ایسا نیا بھی نہیں جو دنیا میں اور کسی جگہ نہیں ہوا‘ لہٰذا میں پریشان ہوگیا تھا کہ ہمارے ساتھ ہی کیوں؟
پھر میرے ذہن نے ایک اور مشکل سوال مجھ سے پوچھا جس کا جواب میں نے محنت کے بعد تلاش کر کے اپنے دماغ کو دیا ۔ سوال یہ تھا کہ اگر یہ لوجک مان لی جائے تو پھر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اس وقت وہاں کھڑا ہے جہاں آج سے دو سوسال قبل کا امریکہ وائلڈ ویسٹ کھڑا تھا۔میں کافی دن اس سوال کو لے کر پریشان رہا کہ اگر میں مانتا ہوں تو پھر بھی بہت سبکی ہے اور اگر نہیں مانتا تو بھی میں اپنے آپ کو کیسے جھوٹی تسلی دے کر زندگی گزار سکوں گا۔
اللہ بھلا کرے ڈارون اور ابن خلدون کا۔ ان دونوں کی تھیوریز کو لے کر میں نے اپنا علاج کیا کہ راتوں رات کوئی بچہ ساٹھ برس کا نہیں ہوجاتا۔ پورے ساٹھ برس لگتے ہیں۔ اس طرح معاشرے ہوتے ہیں۔ وہ بھی ایک رات میں میچور اور اچھے نہیں ہوجاتے۔ ان کی بھی ایسے گروتھ ہوتی ہے جیسے ایک بچے کی ہوتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ کچھ معاشروں پر یہ وقت پہلے آگیا تھا۔ چاہے وہ یورپ ہو جہاں ایک ہزار سال قبل ڈارک ایجز کا دور آیا اور وہ اپنے حصے کی قربانیاں دے کر آگے نکل گئے یا پھر امریکہ میں دو سوسال قبل یہ حالت دیکھنے میں آئی تھی جو آج کل پاکستان میں نظر آرہی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہم یورپ سے ایک ہزار برس پیچھے ہیں اور امریکہ سے دو سوسال برس۔ ہم انہی راستوں پر ہی چل رہے ہیں جہاں سے کبھی یورپ اور امریکہ گزرے تھے‘ لہٰذا ٹینشن کس بات کی ہے۔ مزے کرو۔
تاہم ایک بات مجھے عجیب لگتی ہے۔ ان فلموں سے پتہ چلتا ہے کہ چاہے حالات وہاں کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں،کوئی نہ کوئی اتھارٹی کام کررہی تھی‘ کچھ ایماندار افسران بھی تھے‘ خطرناک مجرم جو مطلوب تھے انہیں پکڑے جانے پر لٹکایا جارہا تھا‘ باقی مفرور ہونے والوں کے سر پر انعام رکھا جاتا تھا اور اکثر فلموں کا عنوان وہی Bounty Hunters ہی تھا جو ان مجرموں پر رکھا گیا جو پچاس‘ سو ڈالر کے انعام کے لالچ میں جنگلوں کا رخ کرتے۔ ایک فلم میں تو چند مجرم مل کر مختلف کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے مطلوب ساتھی کو پولیس اسٹیشن پر مردہ ظاہر کر کے لے جاتے یا پھر اسے زندہ پیش کرتے اور اپنا انعام لے کر چلتے بنتے۔ رات کو اسی تھانے پر حملہ کر کے ساتھی کو چھڑا لے جاتے اور کسی اور قصبے کے پولیس اسٹیشن پر جا کر یہی کام دہراتے۔
یہ فلم مجھے چوہدری نثار علی خان کے اس انکشاف سے یاد آئی کہ پاکستان کے برطانیہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کو کیسے تین قیدیوں کو رہائی دلوانے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ برطانیہ سے لائے گئے مجرموں کو پاکستانی جیلوں سے جعلی دستاویزات پر رہا کر دیا گیا اور اب برطانیہ نے جب چیک کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو کب کے قانونی طور پر رہا بھی ہوچکے۔برطانیہ میں دی گئی برسوں کی سزائیں وہ تین ماہ میں پوری کر کے نکل گئے تھے۔
سو پاکستان میں بھی ایسے کردار موجود ہیں جو ویسٹرن فلموں میں پائے جاتے تھے جو ایک ڈالر کے لیے ہر کام کرنے کو تیار تھے۔ ایک فلم میں ایک کردار ایک ڈالر جیب سے نکالتا ہے تو پورے مجمع کی سانس رک جاتی ہے کہ ان میں سے اکثریت نے زندگی بھر ایک ڈالر تک نہیں دیکھا ہوتا۔
ماڈل ایان علی کے سکینڈل سے‘ جس میں ایک بڑے سابق وفاقی وزیر اور اس کے بھائی کا نام آرہا ہے، مجھے میری سب سے پسندیدہ فلم The Maverick یاد آگئی ہے۔ میں یہ فلم دیکھ کر ہی میل گبسن کا فین ہوا تھا ۔ اس فلم میں ایک باپ بیٹا جواریوں کا سالانہ میلہ لوٹنے کے لیے ایک طویل سفر کرتے ہیں اور جس طرح وہ لوٹتے ہیں‘ ایک کمال ہے؛ تاہم اس سے بڑا کمال یہ ہے کہ آخر دم تک وہ پتہ نہیں چلنے دیتے کہ وہ باپ بیٹے ہیں۔ ویسے جس نے یہ فلم نہیں دیکھی‘ میرے خیال میں اس نے بھی کچھ نہیں دیکھا۔
اس لیے اگر ہمارے سابق وزیر اور ان کے بھائی نے بھی آخر وقت تک پتہ نہیں چلنے دیا کہ وہ دونوں بھائی ایان علی کے ذریعے کیا کچھ بیرون ملک بھیج چکے ہیں اور یہ دھندا کب سے جاری ہے تو پھر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایسے لوگوں کا نہ کوئی ملک ہوتا ہے، نہ زمانہ اور نہ ہی اخلاقیات۔ وہ ڈیڑھ سو سال پہلے کے امریکہ سے لے کر آج کے پاکستان تک ہر ملک، زمانے اور دور میں پائے جاتے ہیں۔یہ وہ کردار ہیں جو ہر جگہ پیداہوتے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے۔مقام و زماں انہیں ختم نہیں کر سکتے !
دل کو تسلی دیں اور میری طرح کمبل اوڑھ کر سو جائیں!