نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ پڑھ کر فارغ ہوا ہوں ۔ بڑے عرصے سے ایک کردار کی تلاش تھی جو اس سٹوری میں مل گیا۔ یہ ایک ڈاکومنٹری ہے جو امریکہ کے آنجہانی سفارت کار رچرڈ ہالبروک کے بارے میں ہے اور جس کا عنوان The Diplomatہے۔ یہ ڈاکومنٹری ہالبروک کے بیٹے نے بنائی ہے اور یہ ان آڈیو ٹیپس کے بارے میں ہے جو ہالبروک نے محفوظ کر کے رکھی تھیں۔ وہ جہاں بھی جاتے وقت نکال کر اپنی آواز میں اہم واقعات اور باتوں کو اس ٹیپ میں محفوظ کر لیتے۔ ان کی موت کے بعد وہ ٹیپس ان کے بیٹے کے ہاتھ لگیں تو اس نے ڈاکومنٹری بنالی کہ ان کے والد‘ جنہوں نے امریکہ کے مختلف صدور کے ساتھ کام کیا تھا‘ زندگی کے اہم مواقع پر کیا کررہے تھے۔
جن باتوں نے مجھے اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کیا وہ دو تھیں۔ رچرڈ ہالبروک کے بیٹے نے کہا‘ اگرچہ ان کے باپ کو ٹاپ ڈپلومیٹ سمجھا جاتا ہے‘ اس لیے ڈاکومنٹری کا نام 'دی ڈپلومیٹ‘ رکھا ہے۔ تاہم اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کا نام 'نان ڈپلومیٹ‘ رکھیں کیونکہ ان کے باپ میں وہ عناصر شاید نہیں تھے جو ڈپلومیٹ میں ہونے چاہئیں۔
دوسرے ہالبروک صدر اوباما کے قریب نہیں ہوسکے تھے کیونکہ اوباما پر امریکی فوج کے کمانڈروں کا زیادہ اثر و رسوخ تھا۔ ہالبروک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی تھے جب کہ جنرل پیٹریس سمجھتے تھے کہ اس معاملے کا فوجی حل نکلے گا ۔ جب تک فوجی کارروائیوں کے ذریعے طالبان کی کمر نہیں توڑی جائے گی‘ وہ بات چیت پر راضی نہیں ہوں گے۔ تاہم ہالبروک کی اوباما کے دربار میں اس طرح شنوائی نہ ہوسکی جس کی وہ توقع رکھتے تھے اور اوباما نے ان کا ایک ایسا نک نیم رکھا ہوا تھا جو ہالبروک کو شدید ناپسند تھا‘ جب کہ ہالبروک اپنے ماضی کے کارناموں پر فخر کرتے تھے کہ انہوں نے بل کلنٹن کے دور میں بوسنیا میں سول وار کو ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس طرح کا رول وہ اب افغانستان میں ادا کرنا چاہتے تھے۔ تاہم ان آڈیو ٹیپس سے لگتا ہے ہالبروک کی دال نہیں گل رہی تھی۔ ایک اور بات جس نے مجھے ہالبروک کے بیٹے کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کیا وہ اپنے باپ کے رویوں اور اپروچ پر تنقید تھی ۔ وہ بھی ایسے باپ پر جو اب اس دنیا میں موجود نہیں تھا۔
مجھے یاد آیا ایک دن دنیا ٹی وی کے مارننگ نیوز شو میں شازیہ اکرام اور سعید قاضی نے پوچھ لیا‘ آپ کی بچوں کے حوالے سے کیا خواہش ہے؟ میں نے کہا‘ بڑی عجیب سی خواہش ہے۔ جب شازیہ نے اصرار کیا تو میں نے کہا‘ میری دو خواہشیں ہیں ۔ پہلی یہ کہ میں نے کوشش کی ہے جب میرے بچے بڑے ہوں تو انہیں میری وجہ سے شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور جب میں نہ رہوں تو میری روح کو ان کی وجہ سے تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ دوسرے جب میں زندہ نہ رہوں تو وہ کبھی میرا پبلک لائف میں دفاع نہ کریں۔ ہاں وہ میرے بچے ہیں۔ وہ مجھے ہمیشہ اچھا سمجھیں گے۔ محبت کریں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پوری دنیا کو بھی مجبور کریں‘ سب ان کے باپ کو اچھا سمجھیں اور اس سے اسی طرح محبت کریں جیسے وہ کرتے ہیں۔ میں آج جو بھی کر رہا ہوں‘ لکھتا ہوں‘ بولتا ہوں‘ ان کو اس کا علم نہیں ہے۔ میں ان سے پوچھے بغیر فیصلے کرتا ہوں ۔ پھر کل کو وہ میرے ان فیصلوں کا دفاع کیوں کریں گے یا لوگوں سے کیوں لڑتے پھریں گے کہ ان کے باپ کے بارے میں کوئی غلط بات نہ کی جائے یا ان پر تنقید نہ کی جائے؟ جن فیصلوں میں وہ کبھی شریک ہی نہ تھے وہ ان فیصلوں کا دفاع صرف اس لیے کریں گے کیونکہ وہ غلط فیصلے کرنے والا ان کا باپ تھا؟ وہ میرے مرنے کے بعد
اپنی زندگی انجوائے کریں، اچھے انسان بن کر رہیں ۔ ان کی وجہ سے لوگوں کو آسانیاں ہوں، تکلیف نہ ہو۔ ہاں اگر وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو پھر ان کے کسی ایکشن کی وجہ سے میری روح کو تکلیف نہ ہو ۔ بس اتنا چاہتا ہوں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔شاید سعید قاضی اور شازیہ کو میرے یہ الفاظ یاد ہوں۔ اس لیے جب کبھی میں بڑے آدمیوں کے بچوں یا ان کے مداحوں کو ان کے باپ یا ہیرو کے دفاع کے لیے لڑتے دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ان کی اپنے باپ یا ماں سے محبت اپنی جگہ لیکن وہ ایسے فیصلوں کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں جن فیصلوں میں وہ کبھی شریک ہی نہ تھے؟ وہ کیسے ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ان کے باپ نے ہمیشہ اچھے فیصلے کیے ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے باپ کی نیت ٹھیک ہو‘ لیکن اہم اور مشہور انسان اور اعلیٰ عہدے پر فائز لوگ جو اہم فیصلے کرتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ سب درست ہوں۔
ہر بچے کا پہلا ہیرو اس کا باپ ہوتا ہے۔ ہیرو کبھی کوئی غلط کام نہیں کر سکتا ۔ یہ خیال لے کر ہم جوان ہوتے ہیں۔ جب ہمارے ہیرو کا امیج بریک ہونے لگتا ہے تو پھر ہم توپیں اور بندوقیں اٹھا کر ان کے ناقدین پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب وہ بڑے لوگ فیصلے کر رہے تھے‘ تو آپ میلوں دور تک بھی موجود نہیں تھے۔ کیا اس لیے ساری عمر ہم ڈھول گلے میں ڈال کر بجاتے رہیں کہ کسی نے ہمیں کبھی چائے پلائی تھی‘ اُٹھ کر سلام کیا تھا یا کسی نے تعریف کر دی تھی یا چند ذاتی احسانات؟ ہم لوئر مڈل کلاس کے اپنے مسائل ہیں ۔ اپنے گائوں میں سپاہی سے واقفیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی خود ساختہ دوستیاں جب حکمرانوں اور بابوں سے ہوجاتی ہیں تو پھر ہم سے زیادہ اہم انسان اور کوئی پیدا نہیں ہوا۔ میں خود اس فیز سے گزرا ہوں‘ اس لیے مجھے علم ہے کہ بڑے لوگ کیسے اداکاری سے کام لیتے ہیں ۔ ویسے شروعات ہم لکھاری کرتے ہیں۔ سیاسی اور فوجی افسران کے حق میں کالم لکھتے ہیں۔ پھر ان کے فون کا انتظار کرتے ہیں۔ فون آتا ہے‘ تو ہم بچھ جاتے ہیں اور پھر بچھے ہی رہتے ہیں ۔ ہر بڑا آدمی آرام سے اپنے بیوی بچوں سمیت کرپشن کرے‘ اپنے ٹھیکدار بھائیوں کے ذریعے مال کمائے‘ ہم پھر بھی اس کی ایمانداری کا ڈھول پیٹتے رہیں گے کیونکہ ہم اسے اچھا سمجھتے ہیں ۔ اس کے خلاف کوئی غلط بات نہیں سن سکتے۔
شاید یہ انسانی نفسیات ہے۔ انسانی کمزوری ہے اور اس کمزوری کا فائدہ بڑے لوگ ہمارے جیسے لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کو کچھ اہمیت دے کر اٹھاتے ہیں۔ دونوں کا دھندا چلتا رہتا ہے۔ میں بڑوں سے تعلقات بنا لیتا ہوں اور اپنے سے کم تر لوگوں پر رعب ڈالتا رہتا ہوں ۔ اس سے بڑے آدمی کو فائدہ ہوتا ہے کہ میں ساری عمر اس کا دفاع کرتا رہتا ہوں۔
اس لیے جب ہالبروک کے بیٹے نے اپنے باپ کی سفارت کاری کے انداز پر تنقید کی تو مجھے بھی حیرانی ہوئی ۔کیسا بیٹا ہے جو باپ کے مرنے کے بعد بھی تنقید کررہا ہے۔ وہ باپ سے کوئی بدلہ نہیں چکا رہا ۔ وہ اپنے باپ پر فلم بنا رہا ہے لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ اس کے باپ کے رویے شاید زیادہ ڈپلومیٹ نہیں تھے جو کہ ہونے چاہئیں تھے تو اس نے ان کا اظہار کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔ شاید امریکیوں کے لیے اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی اس پر انگلیاں اٹھائے گا یا اسے طعنے دے گا کہ باپ کے مرنے کے بعد بھی اس پر تنقید کررہا ہے۔ اسے شرم نہیں آتی۔کیسا بیٹا ہے ۔شاید وہ معاشرے سمجھتے ہیں کہ سب انسان ہوتے ہیں۔ پرفیکٹ کوئی نہیں ہوتا۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز سیاسی اور فوجی افسران کتابیں لکھتے ہیں۔ آٹوبائیوگرافی لکھتے ہیں تاکہ وہ بتا سکیں کہ انہوں نے اپنے ملک اور قوم کے لیے کیا غلط یا درست فیصلے کیے۔ ہمارے ہاں الٹا ہے۔ جنرل شاہد عزیز نے کتاب لکھی۔ اکثر کالم نگار اور صحافی لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے کہ کیوں لکھی۔ اگر کسی کو ان کے لکھے یا ان کی باتوں پر اعتراض ہے تو وہ ان کا جواب ان کی زندگیوں میں ہی دے سکتے ہیں۔ امریکہ میں بحث کا کلچر ہے۔ ایک دوسرے پر تنقید کا کلچر ہے اور اسے ذاتی مسئلہ بھی نہیں بنا لیا جاتا کہ میرے ہیرو کے خلاف کس نے کیوں ایک لفظ لکھ دیا اور پھر پورا خاندان لٹھ لے کر پیچھے پڑ جائے کہ ہمارے ہیرو کی شان میں گستاخی کیوں کی؟ وہ تو دنیا کے سمجھدار ترین انسان ہیں جنہوں نے کبھی کوئی غلط فیصلہ یا غلط حرکت کی ہی نہیں۔
رچرڈ ہالبروک کے بیٹے کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے ہمیں یاد دلایا کہ ہم سب انسان ہیں ۔ عام سے انسان جو اچھے فیصلے کرتے ہیں تو غلط فیصلے بھی کرتے ہیں اور غلط چیزوں پر ایک بیٹے میں جرأت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مشہور باپ کا مرنے کے بعد دفاع کرنے کی بجائے یہ کہے اس کے باپ میں بھی کچھ خامیاں تھیں۔ خیر پاکستان میں جو بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں‘ سب فرشتے تھے ۔ ان سے تو غلط فیصلے ہو ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا تنقید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر کریں گے تو پورا خاندان آپ کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائے گا؛ تاہم تھینک یو مسٹر جونیئر ہالبروک!