"RKC" (space) message & send to 7575

اک ذرا میانوالی تک

شعیب بٹھل لندن سے اپنے گائوں آیا ہوا ہے۔ فون آیا‘ یار آجائو‘ بیٹھ کر کچھ یادیں تازہ کرتے ہیں۔ میانوالی سے کچھ کلومیٹر میانوالی ملتان روڈٖ پر واقع گائوں بالا شریف مجھے اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہ اس کے قریب سے ایک بڑی نہر گزرتی ہے۔ اس نہر کے اوپر سے گزرتے ہوئے جب دائیں بائیں دیکھتا ہوں تو نہر کے کناروں پر لگے درختوں اور سرسبز جھاڑیوں کے درمیان حد نظر تک بہتے ہوئے پانی کا منظر کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ شعیب سے ملنے سے زیادہ لالچ اس کا تھا کہ ایک دفعہ پھر اس نہر کے اوپر سے گزروں گا جو میں نے پہلی دفعہ 1992ء میں دیکھی تھی۔ میں آج تک اس منظر سے نکل نہیں سکا‘ جب ملتان یونیورسٹی سے میں اور مختار پارس اور کبیروالا سے ریاض شاہد شعیب کے والد کی وفات پر تعزیت کرنے اس کے گائوں گئے تھے اور اس نہر کے اوپر سے گزرے تھے؛ تاہم مجھے پتہ نہیں تھا کہ پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی سے گزرنے کا بھی اپنا ایک رومانس ہے۔ موٹروے پر جب آپ پوٹھوہار کی دھرتی سے گزریں اور اپنے دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ سین کسی ویسٹرن اورکائو بوائے ٹائپ فلم کے ہیں۔ سرخ مٹی کے چھوٹے پہاڑ اور ان کے دامن میں اگا ہوا سبزہ اور دور کہیں سرجھکائے گھاس چرتے جانور‘ خوبصورت موسم میں اڑتے پرندے‘ پھر پہاڑوں کے درمیان دور سے دکھائی دیتی پانی کی جھیلیں جن پر آج تک کسی کی نظر نہیں پڑی کہ انہیں ڈیم کی شکل دے کر وہاں سے بجلی پیدا کی جائے۔
موٹروے سے اتریں تو آپ کو تلہ گنگ اور میانوالی کی طرف جاتے کسان نظر آتے ہیں جو گندم کی فصل کاٹ رہے ہوتے ہیں ۔ کٹی ہوئی سنہری فصل کے گٹھے بڑے سلیقے سے کھیتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور دور کسی پرانے درخت کے نیچے کسان مرد اور عورتیں کھانا کھاتے نظر آتے ہیں۔ مجھے اچانک بھوک محسوس ہوئی۔ جی چاہا گاڑی روک کر ان کے پاس جا کر ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھائوں۔ دیہاتی ہاتھوں سے بنے ہوئے دیسی کھانے کی خوشبو محسوس کروں ۔ ایک بڑی بالٹی سے نمکین لسی کے گلاس پیوں اور پھر اسی درخت کی چھائوں میں کچھ دیر کے لیے سو جائوں۔ مگر میں سوچتاہی رہ گیا اور دور تک مڑ مڑ کر انہیں دیکھتا رہا کیونکہ یہ وہ مناظر تھے جو میں بچپن سے اپنے گائوں میں دیکھتا آیا تھا ۔
گندم کی کٹائی اور اس کے بعد بیلوں کی مدد سے بابا سارا دن گندم کے گٹھوں کی تھریشنگ کرتے۔ جوان بیلوں کی جوڑی آنکھوں پہ کھوپے چڑھائے سارا دن گندم کے ان گٹھوں کو اپنے سموں تلے کچلتی رہتی۔ بابا بھی پیچھے پیچھے چلتے رہتے ۔ دن ڈھلے بیلوں کی جان چھوٹتی اور کئی دن ایسے ہی گزر جاتے۔ میں سکول سے واپس آتا تو اماں کے ساتھ بابا اور مزدوروں کو کھانا دینے جاتا ۔ آخر ان بیلوں کی محنت رنگ لاتی اور ایک دن ایسا آ جاتا‘ جب گندم بھوسے سے علیحدہ کر کے ایک جگہ اکٹھی کر لی جاتی اور اسے بوریوں میں ڈالنے کا عمل شروع ہوجاتا۔ یہ بوریاں اونٹوں پر لاد کر گھر لائی جاتیں۔ وہ جشن کا دن ہوتا ۔ مجھے بھی گندم ملتی جو میں دکان پر بیچ کر من پسند چیزیں لیتا اور مزے اڑاتا۔ میں اکثر ان اونٹوں پر سوار ہوتا ۔ پہلے کئی کلومیٹر کھیت سے گھر اور پھر واپس کھیت۔
یہ سب مناظر ایک لمحے میں آنکھوں سے گزرگئے۔ میں نے سر کو جھٹکا دیا اور دھیان سڑک کی طرف کیا۔ پوٹھوہار اور سرائیکی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جو زیادتی ہورہی ہے‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ موٹروے سے اترنے کے بعد ایک طویل سڑک تلہ گنگ سے میانوالی کو جاتی ہے۔ اس کے بعد میانوالی سے ملتان کی طرف جاتی ہے۔ اس سڑک کی جو بدترین حالت ہے وہ ایک المیہ ہے۔ اس سڑک پر سے سنٹرل پنجاب، جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا کے لیڈر بھی گزرتے ہیں ۔ یہ سڑک ڈیرہ اسماعیل خان اور ملتان تک کو لنک کرتی ہے۔ مگر مجال ہے کبھی کسی ایم این اے نے قومی اسمبلی میں اس کی بابت بات کی ہو۔ کبھی چیئرمین این ایچ اے کے خلاف تحریک استحقاق پیش کی ہو کہ وہ پانچ سو کلومیٹر طویل سڑک کو نظرانداز کیے ہوئے ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ اب تک تلہ گنگ، میانوالی اور ملتان روڈ کو موٹروے بنادیا جاتا ۔ یہ سڑک شمالی، سنٹرل اور جنوبی پنجاب کو لنک کرتی ہے۔ ون وے سڑک کی وجہ سے یہاں حادثاث ہوتے رہتے ہیں۔ نیٹو کنٹینرز چودہ برس اس سڑک سے گزرتے رہے ہیں اور سب کچھ تباہ کردیا ہے۔ میانوالی سے پہلے پہاڑیوں میں نمل یونیورسٹی کے سامنے سڑک کی جو حالت ہے وہ ایک اور المیہ ہے۔ ایک بھی ٹرک اور کنٹینر رک جائے تو آپ گھنٹوں وہاں پھنسے رہتے ہیں۔اس پانچ سو کلومیٹر لمبی سڑک پر آپ کو کوئی ہسپتال نہیں ملے گا جہاں ایمرجنسی یا حادثے کی صورت میں میڈیکل مدد مل جائے۔ کوئی پولیس نہیں ملے گی جو کسی کی مدد کر سکے۔ ہزاروں لوگ روزانہ ذلیل ہورہے ہیں مگر نہ پولیس، نہ این ایچ اے‘ نہ ہسپتال۔
شعیب بٹھل کے ہاں سرائیکی کے بڑے گلوکار عطااللہ عیسیٰ خیلوی بھی موجود تھے۔ وہ بھی یہی رونا رورہے تھے کہ ان کے علاقے کا کوئی والی وارث نہیں۔ بولے‘ باقی چھوڑیں ابھی جو چین کی مدد سے اکانومک کوریڈور بن رہی ہے اس کا دور دور تک ان علاقوں سے تعلق نہیں ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کو ملاتی سیدھی ملتان سے جا نکالی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان، میانوالی، بھکر، لیہ، ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ تک طویل پٹی پس ماندہ ہی رہے گی۔ انہوں نے اپنے موبائل فون میں سے اس اکنامک کوریڈور کا نقشہ نکالا اور مجھے دکھانے لگے کہ کیسے سرائیکی علاقے جو ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہوتے ہیں اور ایک ہزار کلومیٹر کے بعد ملتان سے جا ملتے ہیں‘ ان کو اس اکنامک کوریڈور سے لنک نہیں کیا گیا۔
سب سے بڑی زیادتی ان علاقوں کے پچاس ایم این ایز اور ایک سو آٹھ ایم پی ایز خاموش رہ کے کر رہے ہیں۔ میانوالی سے ایم این اے امجد خان نیازی، میرے مرحوم دوست ڈاکٹر شیر افگن کے بیٹے ہیں۔ ان سے امید تھی کہ اپنے باپ کی طرح ان ایشوز پر شور مچائیں گے‘ لیکن انہوں نے دیگر ایم این ایز کی طرح قومی اسمبلی میں خاموشی کو ترجیح دی۔ کروڑ لعل عیسن کے ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن سے ملاقات ہوئی۔ ان سے درخواست کی کہ خاموشی کا روزہ توڑیں‘ نواز لیگ انہیں کچھ نہیں کہے گی۔ لیہ کے ثقلین بخاری بھی آٹھ برس سے قومی اسمبلی میں بیٹھے ہیں‘ مجال ہے قومی اسمبلی میں ایک لفظ بھی منہ سے نکالا ہو۔ اپنے علاقے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بات کی ہو۔ سلطان ہنجرا کوٹ ادو سے ہیں ۔ وہ بھی خاموش۔ کبھی نہیں بولے کہ سرائیکی علاقوں کو کیوں محروم رکھا جارہا ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے لغاری برادران خوش قسمت نکلے۔ اویس لغاری کو نواز شریف نے گلے لگایا تو جمال لغاری شہباز شریف کی قسمت میں آئے۔ دونوں بھائیوں کو سیاست میں جگہ مل گئی۔ اس کے بعد اپنے علاقے کی بات انہوں نے بھول کر کبھی نہیں کی۔ ملتان سے جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کی توہین ہوتی تھی کہ وہ سرائیکی علاقوں کی پس ماندگی اور غربت پر بات کرتے اور ملتان میانوالی روڈ کی حالت‘ جہاں روزانہ حادثے ہوتے ہیں‘ پر شور مچاتے۔
یہی حال بہاولپور کے ایم این ایز کا ہے۔ وہاں سے ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ جیتے تھے۔ چیمہ صاحب کی بہاولپور میں اس لیے عزت ہے کہ جب وہ ناظم تھے‘ انہوں نے کافی کام کیے تھے۔ تاہم چیمہ صاحب بھی بہاولپور کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر قومی اسمبلی میں کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ بھی سرائیکی ایم این ایز کی طرح خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تلہ گنگ کے ٹمن سردار بھی خاموش۔ بھاڑ میں جائے سارا علاقہ۔ شجاع آباد سے ایک پیر گھرانے کے ایم این اے نے شکایت کی کہ انہیں نواز لیگ میں گھاس نہیں ڈالی جاتی۔ میں نے کہا‘ حضور جب تک آپ خوشامدی تقریریں کرتے رہیں گے‘ کچھ نہیں ملے گا۔ قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر اپنے علاقے سے روا رکھے جانے والے سیاسی اور مالی رویے کے خلاف تقریرکریں‘ پھر دیکھیں کیسے توجہ ملتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ لوگوں کی قیمت اتنی ہے جتنی لیہ کے ایک ایم این اے کی‘ کہ مفت کی گاڑی پٹرول مل جائے‘ بہت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر سرائیکی اور جنوبی پنجاب کے ایم این ایز گونگے بن گئے ہیں اور قومی اسمبلی میں آواز نہیں اٹھاتے تو کیا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو بھی ان علاقوں کی ترقی کو نظر انداز کر دینا چاہیے؟ کیا تلہ گنگ ، میانوالی، لیہ، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاولپور کے علاقے اس لیے موٹروے یا اکنامک کوریڈور کے ثمرات سے محروم رہیں گے کیونکہ انہوں نے گونگوں کو ووٹ دے کر قومی اسمبلی میں بھیجا تھا جو ہر ماہ صرف تنخواہ اور الائونس لینے اسلام آباد آتے ہیں؟
گیا تو میانوالی شعیب بٹھل کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کی پرانی یادوں کا بوجھ ہلکا کرنے تھا لیکن ان علاقوں اوران کے عوام کے ساتھ ہونے والی مسلسل زیادتیوں کا بھاری بوجھ اٹھائے، رات گئے ایک بدھو کی طرح اسلام آباد لوٹ آیا ہوں ، جہاں میٹرو بس پر اب تک پچاس ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں