"RKC" (space) message & send to 7575

پاکستان کیسے بدلے گا؟

میرے دوست سینیٹر انور بیگ کے نوجوان بھانجے کی موت پر ان سے تعزیت کرنا تھی۔ 32 سالہ خوبصورت نوجوان تین ہفتے قبل کینیڈا چھوڑ کر لاہور ماں کے ساتھ مستقل رہنے آیا تھا۔ ماں دلہن ڈھونڈ رہی تھی کہ بیٹے کو دل کا جان لیوا دورہ پڑا اور ماں کی دنیا لٹ گئی۔ انور بیگ کو اتنا افسردہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ نوجوان بھانجے کی موت نے ان پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ 
بہت لوگ موجود تھے۔ کسی نے مجھ سے روایتی سوال پوچھ لیا کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ ایک مہمان کا کہنا تھا، سیاستدان ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ نواز شریف اور زرداری کی چوبیس گھنٹے میں دو ملاقاتیں ہوئیں جو ان کے اپنے فائدے کے لیے تھیں، ملک کو درست کرنے کے لیے نہیں۔ فوج چپ چاپ سب کچھ دیکھ رہی ہے،کچھ نہیں کر پا رہی۔ 
اس موقع پر بات کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا؛ تاہم افسردہ ماحول کو بدلنے کی غرض سے میں نے بھی لب کھولے تاکہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مغرور ہے۔ میں نے کہا: ایک کام کر لیا جائے تو یہ ملک راتوں رات بدل جائے گا۔ میں ایک آئیڈیلسٹ ہوں، خوابوں کی دنیا میں رہتا ہوں، لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ سب کچھ درست ہو سکتا ہے۔ سب نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا: اس وقت نو ریٹائرڈ جرنیلوں کی کرپشن کی فائلیں جی ایچ کیو میں پڑی ہیں۔ ان فائلوں میں الزامات نہیں بلکہ عدالتوں کے احکامات ہیں کہ کارروائی کی جائے۔ انکوائریز ہو چکی ہیں، الزام ثابت ہو چکے ہیں۔ اور کچھ نہ کریں، ان جرنیلوں کے مقدمات فوجی عدالت کو بھیج دیں۔ ان سب کو زیادہ نہیں دو سے تین سال قید کی سزا اور لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کا حکم دے دیا جائے تو یہ ملک بڑی حد تک ٹھیک ہو جائے گا، سیاستدان بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ کمرے میں خاموشی سی چھا گئی۔ کسی کونے سے آواز آئی: یہ تو نہیں ہو گا۔ میں نے کہا: تو پھر ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ یہ نہیں ہو گا کہ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کو تو آپ لٹکا دیں مگر این ایل سی سکینڈل، آئی ایس آئی اصغر خان کیس اور ریلوے کے لاہور گالف سکینڈل میں ملوث نو جرنیلوں کو کچھ نہ کہا جائے۔ ان مقدمات کا فیصلہ کرنا اتنا مشکل بھی نہیں۔ این ایل سی سکینڈل میں فوجی کورٹ آف انکوائری نے تین ریٹائرڈ جرنیلوں کو چار ارب روپے سکینڈل میں مجرم پایا تھا۔ اس سے پہلے پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اپنی انکوائری میں بھی انہیں ملزم قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ چودھری نثار علی خان اس انکوائری پر پی اے سی میں کوئی حکم جاری کرتے، انہیں پیغام ملا کہ فوج خود انکوائری کرنا چاہتی ہے۔ چودھری نثار رک گئے۔ انکوائری ہوئی اور الزامات ثابت ہوئے۔ جنرل کیانی نے کارروائی شروع کی۔ ان جرنیلوں کو بحال کیا گیا تاکہ ان پر مقدمہ چل سکے۔ چودھری نثار اور شہباز شریف کی ایک درجن خفیہ ملاقاتیں جنرل کیانی سے ہوئیں۔ سب نے فیصلہ کیا کہ قومی مفاد اسی میں ہے کہ ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔۔۔۔ اور سب بھول گئے۔ چار برس گزر گئے، پھر پتا نہ چلا کہ ان تینوں کا کیا فیصلہ ہوا۔ برسوں کی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی اصغر خان کیس میں سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی پر عائد یہ الزامات ثابت ہونے پر کہ انہوں نے سیاستدانوں کو کرپٹ کیا تھا، وزارت دفاع کو حکم دیا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ وزارت دفاع نے یہ فیصلہ جی ایچ کیو کو بھجوا دیا۔ اس کے بعد آج تک اس فائل کا علم نہیں ہو سکا۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی الٹا ہمیں ٹی وی پر لیکچر دیتے رہتے ہیں کہ پاکستانی جمہوریت کے ساتھ کیا خرابیاں ہیں اور انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ 
لاہور گالف کورس سکینڈل کا بھی یہی انجام ہوا۔ سپریم کورٹ میں پرائیویٹ پارٹی نے مان لیا تھا کہ انہیں ناجائز فیورز دی گئی تھیں، وہ سولہ ارب روپے کی ادائیگی کرنے کو تیار ہیں، لیکن سکینڈل میں ملوث اُن چار جرنیلوں کو کچھ نہیں کہا گیا جنہوں نے وہ ڈیل کی تھی۔ دوسری طرف ایف آئی اے کا کمشن بنا کہ ان سیاستدانوں سے پوچھ گچھ کی جائے جنہوں نے آئی ایس آئی سے پیسے لے کر الیکشن لڑے تھے۔ ان میں دیگر کے علاوہ نواز شریف صاحب کا نام بھی تھا۔ ایف آئی اے کو جرأت نہ ہوئی کہ وزیر اعظم کا بیان تک لے سکے۔ 
سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر تمام سکینڈلز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ راتوں کو کی گئی خفیہ ملاقاتوں میں طے ہوا کہ کیوں ایک دوسرے کو بدنام کریں، آئیں قوم اور ملک کے نام پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کو بھول جاتے ہیں۔ کون سے وہ اربوں روپے ہمارے ذاتی کارخانے، فائونڈری، مل، فیکٹری، فارم ہائوس یا دودھ دہی کی دکان سے لوٹے گئے تھے۔ کراچی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے اگر جنرل مشرف کا نام لیا جائے تو سب ناراض ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایم کیو ایم اور فوجی قیادت کے درمیان کراچی کے ہر مسئلے پر اختلاف ہو، لیکن جنرل مشرف کو بچانے کے معاملے پر دونوں ایک ہیں۔ ایم کیو ایم جنرل مشرف کو اپنا محسن تو فوجی قیادت اپنا باس سمجھتی ہے جسے وہ بچانے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ کوئی مشرف سے 12 مئی 2007ء کو کراچی میں ہونے والے قتل عام پر، جس کی ذمہ داری انہوں نے اسی شام اسلام آباد کے جلسے میں لے لی تھی، بات کرنے کو تیار نہیں۔ جنرل مشرف سے کوئی یہ بھی پوچھنے کو تیار نہیںکہ کیسے 2005ء میں 35 قاتلوں کو جیل سے پیرول پر رہا کر دیا گیا تھا؛ حالانکہ عدالتیں ان لوگوں کو سزائیں دے چکی تھیں۔ جنرل مشرف سے یہ بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ کیسے ان کے دور میں کراچی کے ان 200 پولیس اہلکاروں کو چن چن کر قتل کیا گیا جنہوں نے کراچی آپریشن میں حصہ لیا تھا۔
جب ہم نے طے کر لیا کہ اپنے اپنے دوستوں اور سینئرز کو بچانا ہے‘ چاہے انہوں نے معاشرے کے خلاف کتنے ہی بڑے جرائم کیوں نہ کیے ہوں تو پھر ہم کیوں پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ جب سب کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ طاقتور لوگ اپنے عہدے اور جونیئرز کی مہربانی سے بچ جاتے ہیں تو پھر عام آدمی کو سزا دینے کا کیا فائدہ؟ یہی وجہ ہے کہ ایک سو کے قریب قاتلوں کو اب تک پھانسی دی جا چکی ہے لیکن قتل پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ سب کہتے تھے کہ صولت مرزا کی پھانسی سے کراچی کے حالات پر اچھا اثر پڑے گا، لیکن کیا ہوا؟ اگلے روز پچاس کے قریب اسماعیلوں کو بس میں چھ قاتلوں نے بھون ڈالا۔ روزانہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ ایس ایس پی اعجاز حیدر کو قتل کیا گیا۔ کیا ان قاتلوں کو علم نہیں کہ صولت مرزا کی طرح وہ بھی پھانسی لگ سکتے ہیں۔ اخبارات پڑھ لیں، روزانہ پھانسیاں لگ رہی ہیں اور روزانہ قتل بھی ہو رہے ہیں۔ دنیا کے 150 ملکوں میں پھانسی کی سزا نہیں ہے لیکن وہاں روزانہ قتل نہیں ہو رہے۔ مسئلہ کہاں ہے؟ پھانسیاں بھی جرائم روکنے میں کیوں ناکام ہو رہی ہیں؟
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قانون کا احترام اور ڈر ختم ہو چکا ہے۔ معاشرے میں جب تک جرائم کی وجہ موجود رہے گی، قتل ہوتے رہیں گے چاہے روزانہ درجنوں پھانسیاں دی جائیں۔ جن ملکوں نے پھانسیاں ختم کی ہیں انہوں نے معاشرے کو خوشحال بنانے پر زور دیا۔ وہاں کے حکمران میٹرو، موٹر ویز، ایل این جی ڈیل یا پاور پلانٹس میں مال پانی نہیں بناتے۔ ان کی توجہ معاشرے کو بہتر بنانے پر رہی جس سے معاشرے بدلے، انسانی نفسیات بدلی اور جرائم کم ہوئے۔ کبھی لندن میں جیب کترے کو بھی پھانسی دی جاتی تھی اب وہاں پھانسی نہیں ہے، لیکن پھر بھی وہاں شاید سال میں کچھ ہی قتل ہوتے ہوں گے۔
ہم معاشرہ بدلنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم نے اپنی اولادوں کا مستقبل بدلا، انہیں بیرون ملک جائدادیں لے کر دیں، باہر سیٹل کیا۔ ایسے میں معاشرہ کیسے بدلے گا۔ گزشتہ شب سی این این پر امریکی جنرل اسٹینلے میکرسٹل کا انٹرویو تھا۔ ان سے پہلا سوال یہ ہوا: جنرل آپ نے کیا کیا؟ افغانستان اور عراق میں امریکی عوام کے اربوں ڈالر خرچ کیے، 4500 امریکی فوجی مروائے، ہمارے ساتھ وعدے کیے کہ عراق بدل جائے گا، کیا عراق بدلا؟ الٹا آپ عراق میں نئے دہشت گرد پیدا کر کے لوٹے ہیں، آپ کو نہیں لگتا آپ ہر جگہ ناکام ہوئے؟ جنرل میکرسٹل کی حالت دیکھنے والی تھی۔ یہی سوال اگر پاکستان میں پوچھ لیا جائے تو قیامت آ جاتی ہے۔ جرنیلوں کے خود ساختہ ترجمان توپیں لے کر پل پڑتے ہیں کہ کس گستاخ نے سوال کرنے کی جرأت کی۔ امریکہ اس لیے بڑا ملک ہے کہ وہاں جرنیلوں سے بھی عام امریکی کی طرح کا سلوک ہوتا ہے۔ جنرل میکرسٹل کا یہی انٹرویو دیکھ لیں یا جنرل پیٹریس کا مقدمہ پڑھ لیں کہ اسے کیوں تین برس کی سزا سنائی گئی۔
میں سمجھا شاید میرے طویل بھاشن کا کچھ اثر ہوا ہو گا مگر اچانک کوئی بولا: چلیں چھوڑیں ان باتوں کو، یہ بتائیں پاکستان کیسے درست ہو سکتا ہے؟ میں نے پوچھنے والے صاحب کی طرف حیرت سے دیکھا اور کچھ کہے بغیر انور بیگ سے تعزیت کر کے لوٹ آیا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں