سنتے تھے ۔۔۔۔ دیکھا اور پڑھا پہلی بار ہے۔ فلموں کے سین میں اس طرح کے مناظر آتے تو سوچتے یہ سب فلم کا کمال ہے، کیمرہ ٹرک ہے۔ حقیقی زندگی میں ایسا بھلا کب ہوتا ہوگا، سب ڈرامے بازی ہے۔ فلم بنانے کے لیے کچھ تو چاہیے،کچھ تو کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔ کچھ مصالہ ، کچھ جھوٹ ، کچھ رنگین دنیا ، کچھ سہانے خواب ۔ مجھے یاد ہے، دوست فلم دیکھنے جاتے تو بہت سے مناظرکا مذاق اڑاتے کہ یار ایسا کب ہوتا ہے، کیا بکواس ہے۔ پھر اپنے آپ کو تسلی دیتے کہ نہیں یار، فلموں میں ایسا نہ ہو تو پھر کون فلمیں دیکھے گا۔ اگر فلموں میں ہی سب حقیقت ہو تو پھر زندگی کی حقیقتوں میں کیا برائی ہے۔ اس لیے کچھ خواب بیچنے ضروری ہوتے ہیں۔ ہرکوئی ہیرو کو دیکھنے جاتا ہے کہ زندگی میں جو کام وہ نہیں کر سکے کم ازکم کوئی تو ہے جو سکرین پر ان کے لیے کر رہا ہے۔ ایک عجیب سی تسلی ، ایک عجیب سا سکون، ایک کیتھارسس۔۔۔۔!
امیتابھ بچن اور ششی کپور کی فلم 'دیوار‘ بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں دو بھائی زندگی کے مختلف راستوں پر نکل جاتے ہیں۔ امیتابھ بچن جرائم کی دنیا کا بادشاہ اور ششی کپور ایک ایماندار پولیس افسر۔ اس فلم کے ڈائیلاگ جاوید اختر نے لکھے تھے جو آج بھی دلوںکوگرماتے ہیں۔
وجے : روی، تمہارے اصول ایک وقت کی روٹی نہیں دے سکتے۔کیا ہے تمہارے پاس۔۔۔۔ کرائے کا ایک کواٹر، ٹوٹی ہوئی جیپ، یونیفارم کے دو جوڑے۔ دیکھو میرے پاس کیا نہیں۔۔۔۔ بنگلہ، دولت، کار ! تمہارے پاس کیا ہے، بتائو تمہارے پاس کیا ہے۔۔۔۔کیا ہے؟
روی : میرے پاس ماں ہے۔
آج ایک عالمی اخبار میں ایک ایسی کہانی پڑھنے کو ملی۔ حیران ہوں، تقدیرکیا گل کھلاتی ہے۔ اس خبر کو پڑھے کافی وقت گزرگیا ہے، سب کام چھوڑ کر بیٹھا ہوں۔ تقدیرکیا کچھ ہمارے ساتھ نہیں کرتی ۔۔۔۔کیا کیا رنگ نہیں دکھلاتی ۔ اگرچہ ہمارے اپنے اردگرد بھی ایسی کئی کہانیاں بکھری پڑی ہیں لیکن ہم شاید غور نہیں کرتے یا کرنا نہیں چاہتے یا پھر ہمارا احساس برتری ہمیں کچھ اور کرنے نہیں دیتا۔
یہ عدالت کا سین ہے۔ جج کی کرسی پر ایک خوبصورت نوجوان لڑکی بیٹھی ہے۔ وہ شروع ہی سے قانون کی دنیا میں نام پیدا کرنا چاہتی تھی اور آج اس نے اپنی منزل پا لی۔ اس کے سامنے کٹہرے میں ایک ملزم لایا جاتا ہے۔ ملزم کا نام پوچھا جاتا ہے۔ اس کا نام آرتھر ہے۔ جج خاموشی سے اس ملزم کو دیکھ رہی ہے۔ اس ملزم کے خلاف گھر میں گھس کر چوری کرنے کا الزام ہے۔ اس ملزم کو جیل کے روایتی کپڑوں میں دیکھ کر خاتون جج بولی: آپ کبھی میامی کے ساحل پر واقع مڈل سکول میں پڑھتے رہے ہیں۔ آرتھر نے پہلی دفعہ جج لڑکی کو غور سے دیکھا اور بولا: جی، آپ نے درست فرمایا، میں اسی سکول میں پڑھتا تھا۔ ملزم حیران کہ جج کو کیسے پتا ہے کہ وہ کہاں پڑھتا تھا۔ ملزم آرتھر نے خاتون جج کو غور سے دیکھا اور سمجھ گیا کہ اس جج نے اس سے سکول کا کیوں پوچھا ہے۔ آرتھر کے منہ سے آہیں اور کراہیں نکلنا شروع ہوگئیں۔۔۔۔ او مائی گاڈ، او مائی گاڈ اور وہ کٹہرے پر ہی سر رکھ کر سسکیاں بھر کر رونے لگا۔
عدالت میں سناٹا چھا گیا۔۔۔۔سب خاموش ہوگئے۔کسی کو کچھ علم نہیں تھا کہ کیا ہوگیا۔۔۔۔ جج کو کیسے پتا تھا کہ وہ میامی سکول پڑھتا تھا اور سکول کا نام بتاتے ہی کیوں ملزم آرتھر رونے لگ گیا۔ سب کی نظریں لڑکی جج پر تھیں۔ وہ چند لمحے خاموشی سے آرتھر کو روتے دیکھتی رہے اور پھر بولی: میں اور آرتھر ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ یہ جو ملزم آپ کے سامنے کھڑا ہے۔۔۔۔ آرتھر۔۔۔۔ یہ ہمارے سکول کا سب سے اچھا، نفیس، بہترین اور پڑھائی میں سب سے بڑھ کر قابل تھا۔ پوری عدالت خاموشی سے دو سکول فیلوزکی تقدیرکی انوکھی منزل دیکھ رہی تھی ۔ دونوں نے اکٹھے ایک سکول سے آغاز سفرکیا۔ دونوں کہاں پہنچ گئے ۔ آج ایک نے دوسرے کو سزا سنانی تھی۔
خاتون جج بھی شاید آرتھرکی طرح رونا چاہتی ہوگی، لیکن جس کرسی پر وہ بیٹھی تھی وہاں اسے آنسو بہانے کی اجازت نہیں تھی۔ چلیں، اس کے سکول فیلو ملزم کے پاس اتنی آزادی تو تھی کہ وہ آنسو بہا سکتا تھا۔کتنا وقت گزر گیا تھا،کتنا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا تھا۔ خاتون جج کو یاد آیا آرتھر کتنا اچھا لڑکا تھا، ایتھلیٹ اور پڑھائی میں بھی اچھا۔ خاتون جج کو کچھ اور یاد آیا، وہ بولی: میں سکول میں آرتھر کے ساتھ فٹ بال کھیلا کرتی تھی، اب دیکھو یہ کیا ہوگیا ہے۔ وہ بولتی رہی اور سب سنتے رہے۔ آرتھر ابھی تک کٹہرے پر سر رکھے رو رہا تھا۔ مجھے یہ سب کچھ دیکھ کر شدید افسوس ہورہا ہے۔ میں صدمے کا شکار ہوں۔ جج کی اداس آواز پوری عدالت میں چھاگئی۔۔۔۔ ایک سناٹا۔۔۔۔سب خاموش۔۔۔۔ تقدیر، مڈل سکول میں فٹ بال کھیلتے دو دوستوںکو کہاں سے کہاں لے آئی تھی۔۔۔۔سب دیکھ رہے تھے کہ خاتون جج پرکیا گزر رہی ہے۔
کہانی میں ایک موڑآ چکا تھا۔ سکول کے سب سے اچھے، پڑھائی میں قابل اور ایتھلیٹ کے ساتھ کیا ہوگیا تھا ؟ یہ کہانی سب جاننا چاہتے تھے۔ پتا چلا آرتھر منشیات کا شکار ہوگیا تھا۔ وہ متعدد زبانیں سیکھ چکا تھا۔ پورے خاندان میں اسے ایک دانشور سمجھا جاتا تھا۔ پھر زندگی آرتھر کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہوگئی ۔ وہ سنبھالنے کی کوشش کرتے کرتے بھی سب کچھ کھو بیٹھا۔ ایک اچھی زندگی بیکارگئی۔
خاتون جج کے چہرے پر ابھی تک اداسی چھائی ہوئی تھی۔آخر اس نے اپنی خاموشی توڑی۔ گہرا سانس لے کر آرتھر کی طرف دیکھا اور بولی: مجھے امید ہے آپ دوبارہ اسی طرح اچھے بن سکتے ہیں جیسے سکول میں تھے۔ میری شدید خواہش ہے کہ آپ دوبارہ زندگی میں لوٹ آئیں، آپ ایک قانونی اوراچھی زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ جج بولتی رہی۔ عدالت میں خاموشی چھائی رہی اور آرتھر کٹہرے پر سر رکھ کر روتا رہا۔
اب وہ کیا کرتی۔کیا آرتھر کو دیکھ کر خاموش رہتی تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ اور آرتھر ایک سکول میں پڑھتے تھے اور اکٹھے فٹ بال کھیلتے تھے۔ اگر اس نے بتا دیا تو شاید اس کے لیے انصاف کرنا ممکن نہ رہے۔ کوئی الزام لگ سکتا ہے۔ اگر وہ اسے رہا کرتی ہے توکہا جائے گاکہ شاید اس نے قانون کے مطابق انصاف نہیں کیا اور محض جذبات میں بہہ کر آرتھرکے ساتھ رعایت کی ۔ قانون کے سینے میں بھلا کہاں دل ہوتا ہے۔ کیا بہتر نہ تھا وہ خاموش رہتی؟ اگر وہ اس کے لیے کچھ کرنا بھی چاہتی تھی تو خاموش رہ کر بھی کر سکتی تھی۔ اگر وہ خاموش رہتی تو ہو سکتا ہے آرتھر اسے پہچان لیتا۔ وہ توکٹہرے میں کھڑا ہوکر جج کی کرسی پر بیٹھی لڑکی کو یاد نہیں دلا سکتا تھا کہ وہ اکٹھے سکول میں فٹ بال کھیتے تھے۔ ایک ملزم بھلا کب جج کو اپنے پرانے تعلقات یا مشترکہ ماضی کا حوالہ بھری عدالت میں دے سکتا تھا۔ یہ بہادری اس خاتون جج کو ہی کرنی تھی۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات کیا ہوسکتی ہے کہ آپ کی زندگی میں آپ کا پرانا دوست، پرانا سکول فیلو، پرانا فٹ بالر آپ کے سامنے سزا کا منتظرہو۔۔۔! وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔ پھر اس نے ایک فیصلہ کیا اور فیصلہ کیا کہ ملزم چوالیس ہزار ڈالر کے عوض ضمانت لے سکتا ہے۔ ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ آرتھر ابھی تک جیل میں ہے۔
عظیم افسانہ نگار کافکا کا افسانہ 'فنکار‘ یاد آیا جب شہر میں لگے ایک سرکس میں بھوکے رہنے کا مسلسل ریکارڈ قائم پیدا کرنے والے فنکار سے کسی نے پوچھا تھا کہ وہ کیسے مہینوں تک بھوکا رہنے کا مظاہرہ کرتا ہے؟ فنکار نے جواب دیا تھا: میرے پاس کھانے کو ہوتا تو میں بھوکا رہنے کا مظاہرہ کرتا؟خاتون جج بھی بھول گئی تھی کہ اگر آرتھر کے پاس ضمانت کے لیے چوالیس ہزار ڈالر ہوتے تو وہ کسی کے گھر گھس کر چوری کیوںکرتا؟