لانگ آئی لینڈ پر پاکستانی کھانوں کے شوقین تبسم بٹ ناراض تھے۔ وہ عمران خان کے پرانے دوست ہیں لیکن وہ میرے ساتھ وہ اعتراضات شیئر کرنے کو تیار نہیں تھے۔ سیالکوٹ کے دوست عارف سونی بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے پوچھا، بٹ صاحب کیا شکایت ہے؟ یاروں کے یار اور کھلی گپ کرنے والے بٹ صاحب‘ جو روایتی بٹ اور اس سے بڑھ کر روایتی لاہوری ہیں‘ بولے: شکایتیں ہیں لیکن کبھی عمران خان سے ملاقات ہوئی تو خود ان سے کہوں گا۔ میں نے کوشش کی کہ بٹ صاحب سے کچھ نکلوایا جائے مگر وہ روایتی انداز میں مسکرا کر ٹال گئے۔
تبسم بٹ کا عمران خان سے پرانا تعلق ہے۔ ان سے بہتر کھانے شاید ہی کوئی پکاتا ہو۔ عمران خان بھی کھانوں کے شوقین ہیں، سو ان کی دوستی کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کچھ لوگوں کو حیرت ہوتی ہے کہ تبسم بٹ، بٹ ہوتے ہوئے عمران خان کے قریب ہیں حالانکہ انہیں برادری کا لحاظ کرتے ہوئے نواز شریف کے قریب ہونا چاہیے تھا۔ لگتا ہے میاں نواز شریف صاحب کو تبسم بٹ کے کھانوں کا چسکا نہیں پڑا۔ تبسم بٹ نے امریکیوں کو پاکستانی کھانوں کا ایسا چسکا لگا دیا ہے کہ وہ کہیں اور جا ہی نہیں سکتے۔ ان کے ریسٹورنٹ پر بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ کھانا ختم ہوا تو بٹ صاحب نے آواز لگائی: یار زردہ لائو۔ میں نے کہا: بٹ صاحب آپ لوگ میری کمزوری سے کیوںکھیلنے لگے ہیں۔
عارف سونی ابھی پچھلے دنوں پاکستان سے لوٹے ہیں۔ سیالکوٹ میں خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ نیویارک میں بھی محنت سے نام کمایا ہے۔ بیرون ملک آباد سیالکوٹ کے بیشتر لوگ محنتی ہیں۔ اچھا خاصا کماتے اور اچھی زندگی گزارتے ہیں۔ سیالکوٹ کے محمد زبیر سے ڈیلور ریاست میں ملاقات ہوئی۔ اس بار ان کے اسی سالہ والد چودھری الیاس اور ان کی والدہ کی جدوجہد کی کہانی گم سم ہو کر سنتا رہا۔ پہلی دفعہ جی چاہا ناول لکھوں‘ جس کے کردار چودھری الیاس ہوں۔ میں اس پر سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں، خبریں بہت کر لیں، اب کہانی لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ زبیر نے امی کے ہاتھ کا بنا ہوا زردہ سامنے رکھ دیا۔ کمال کا ذائقہ تھا۔ سب کو معلوم ہو چکا ہے زردہ میری کمزوری ہے۔ میں نے بچا ہوا زردہ پیک کرا کے ساتھ رکھ لیا کہ شاید ایسا زردہ یہاں پھر نہ ملے۔
جارجیا اٹلانٹا میں اپنے ملتانی دوست اعجاز احمد کے بیٹے کی شادی نیوجرسی میں تھی۔ نیویارک سے وہاں گیا‘ تو ایک صاحب مجھے دیکھ کر پھٹ پڑے۔ دیکھیں پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ میں ایسے مواقع پر کوشش کرتا ہوں کہ خاموش رہوں، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت حکمرانوں کا غصہ مجھ پر نکالتی ہے۔ کہنے لگے: ایچی سن کالج کے پرنسپل کے ساتھ کیا ہوا؟ بڑے لوگوں کے بچوں کو داخلہ نہ ملا تو انہیں بر طرف کر دیا۔ میں چپ رہا‘ لیکن ان کے مسلسل اصرار پر بولا کہ آپ مجھے سمجھا دیں، انگریزون نے چیف کالج یا ایچی سن کالج کن لوگوں کے لیے بنایا تھا؟
اس کالج کی تاریخ پڑھیں۔ حیرت ہے کہ وہ لوگ ایچی سن کالج میں میرٹ کا رونا رو رہے ہیں‘ جن کے بچے اس کالج میں پڑھنا تو درکنار اس کے مین گیٹ کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے۔ یہ کالج انگریزوں نے برصغیر میں اپنے وفادار جاگیرداروں، وڈیروں، نوابوں اور مہاراجوں کے بچوں کے لیے بنایا تھا‘ جس میں انہوں نے برائون صاحب پیدا کرنے تھے۔ اس کالج کا میرٹ سے کیا تعلق؟ اس کا میرٹ یہی تھا کہ یہاں بڑے لوگوں کے بچے پڑھیں گے۔ میرٹ کا معیار یہ تھا کہ آپ کے باپ دادا کون ہیں، ان کی سیاسی حیثیت کیا تھی یا ہے؟ یہ سب سے الگ کالج ہے۔ میں نے دو تین برسوں سے سننا شروع کیا کہ یہاں میرٹ آ گیا ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہوتی تھی۔ جو لوگ یہاں سے پڑھ کر نکلے ہیں‘ کبھی ان کے ناموں پر غور فرمائیں۔ وہ اس ملک پر حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ بھائی، یہ بڑے لوگوں کی لڑائی ہے جسے میرٹ کا نام دیا گیا ہے۔ وہ ذرا حیران ہوئے اور بولے: آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، کیا بچوں کے داخلے میرٹ نہیں ہونے چاہئیں؟ ٹیسٹ نہیں ہونا چاہیے؟ میں نے کہا: ناراض نہ ہوں، مجھے سمجھائیں پانچ سال کے بچے کا کیا کیسا ٹیسٹ ہو سکتا ہے‘ جس سے پتا چلے کہ وہ ذہین ہے؟ آپ میری مثال لے لیں۔ 2006ء میں لندن پڑھنے گیا‘ تو اپنے دو بچوں کو سکول میں دوسری اور تیسری کلاس میں داخل کرانے کے لیے لے گیا۔ پرنسپل نے سٹاف سے پوچھا ہمارے پاس کوئی سیٹ ہے؟ جواب ملا جی ہے۔ مجھے کہا: آج سے آپ کے بچے داخل۔ کوئی ٹیسٹ، کوئی امتحان، کوئی میرٹ، کچھ نہیں۔ ٹیسٹ لیں تو صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ انگریزی کتنی سمجھ سکتا ہے۔ اگر نہیں سمجھتا تو ایک کلاس پیچھے بھیج دیا جاتا ہے کہ پہلے انگریزی سیکھ لے۔
وہ صاحب بولے: آپ کہتے ہیں کہ کوئی ٹیسٹ نہیں ہونا چاہیے اور یوسف گیلانی اور ایاز صادق جیسے بڑے لوگوں کے پوتوںکو بغیر ٹیسٹ کے او لیول میں داخلہ مل جائے۔
میں نے کہا: کس نے کہا ہے کہ ان سب کے پوتے او لیول میں داخلے کے لیے وہاں گئے تھے؟ وہ حیران ہوئے تو میں نے کہا: گیلانی صاحب کے بیٹے کی شادی 2008ء میں ہوئی تھی۔ ان کا
پوتا زیادہ سے زیادہ پانچ برس کا ہو سکتا ہے۔ ایاز صادق صاحب کا بھی اتنی ہی عمر کا ہو گا۔ آپ کیسے اتنے چھوٹے بچے کا امتحان لے کر داخلہ دیں گے۔ یہ تو مذاق ہے۔ اس عمر میں تو آپ پہلے آئیے، پہلے پائیے کے اصول پر داخلے دیں۔ سیٹیں ختم ہو جائیں تو معذرت کر لیں کہ اگلے سال کے لئے نام لکھوا دیں۔
کہنے لگے: پرنسپل صاحب آکسفورڈ کی جاب چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ میں نے کہا: مان لیتے ہیں‘ وہ اچھے انسان ہیں، قابل بھی ہوں گے‘ لیکن کیا وہ مطفر گڑھ، گھوٹکی، جیکب آباد، کرک، مانسہرہ، بنوں، لاڑکانہ، جعفر آباد، جہلم، لیہ یا رحیم یار خان کے کسی پس ماندہ سکول کے پرنسپل لگنے آئے تھے کہ وہاں کے بچوں کو جدید تعلیم دیں گے؟ وہ بھی تو حکمرانوں اور امیرزادوں کے لیے بنائے گئے کالج کے باس بننے آئے تھے۔ وہ کوئی انقلابی نہیں تھے، گائوں کے بچوں کو پڑھانے نہیں آئے تھے۔ ان صاحب نے ہتھیار نہ ڈالے اور بولے: تو آپ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں میرٹ کے بغیر کام چلے؟
میں نے کہا: میرٹ کی کہانی بھی سن لیں۔ میرے بیوروکریٹ دوست جنید مہر نے مظفر گڑھ میں اپنی تعیناتی کے دوران کا واقعہ سنایا کہ وہاں پٹواری لگانے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ سب میرٹ پر لگیں گے۔ جنید مہر کے والد کی سفارش آئی تو بھی انہوں نے کہا فیصلہ میریٹ پر ہو گا۔ جنید مہر سنا چکے‘ تو میں نے ان سے کہا: مہر صاحب ایک بات بتائیں، آپ کو برسہا برس گزر گئے، کیا جو لوگ میرٹ پر نوکری لیتے ہیں‘ کیا وہ کرپشن نہیں کرتے؟ وہ اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں؟ جنید مہر چونکے اور بولے: یار کبھی کسی نے یہ سوال نہیں کیا۔ کہنے لگے وہ بھی کرپشن کرتے ہیں اور دھڑلے سے کرتے ہیں۔ ہم نے بھی جن پٹواریوں کو میرٹ پر
بھرتی کیا تھا‘ ان میں سے کئی بعد میں کرپشن میں ملوث پائے گئے۔
میں نے کہا: پٹواریوں کو چھوڑیں، ہر سال سی ایس ایس کا امتحان میرٹ پر ہوتا ہے، دو سو بیوروکریٹس بھرتی ہوتے ہیں، وہ کوئی پیسہ خرچ نہیں کرتے، کوئی سفارش نہیں کراتے، سب کچھ میرٹ پر ہوتا ہے تو کیا ہماری یہ بیوروکریسی ایماندار ہے؟ کیا انہیں میرٹ پر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی، ڈی آئی جی، آئی جی یا سیکرٹری لگایا جاتا ہے؟ آپ مجھے سمجھا دیں، بیوروکریٹ جو امتحان دے کر میرٹ پر افسر لگتے ہیں وہ کیوںکرپشن کرتے ہیں؟
اس سے ثابت یہ ہوا کہ آپ میرٹ پر بھرتی ہوں یا سفارش سے، آپ مال بنانا چاہتے ہیں تو کرپشن کریں گے۔ اس ملک میں اب کرپشن کو بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ حکمران کرپشن کرتے ہیں تو پھر سب کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے خاندانی اور اچھی نسل کے لوگ کرپشن نہ کرتے ہوں۔ میں نے کہا، میرے بچے اسلام آباد میں پڑھتے ہیں۔ میری بہن کے بچے گائوں کے سکول میں پڑھتے ہیں۔ کیا کل کلاں دونوںکزنز کا میرٹ ایک ہو سکتا ہے؟ جس ملک میں پڑھائی میں اتنا گیپ ہو وہاں میرٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرٹ تب بنے گا کہ آپ پس ماندہ علاقوں کے بچوں کا آپس میں مقابلہ کرائیں، میرٹ کے نام پر ان کا مقابلہ لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد کے بچوں سے نہ کرائیں۔ بکری کو شیر کے آگے نہ ڈالیں۔
ان صاحب نے پھر بھی ہمت نہ ہاری، کہنے لگے: آپ بھی تو میرٹ پر آئے تھے۔ میں مسکرایا اورکہا: آپ سے کس نے کہا‘ مجھے میرٹ پر نوکری ملی تھی؟ انہیں حیران دیکھ کر میں نے کہا کہ مجھے بھی سفارش پر اخبار میں نوکری ملی تھی۔ 1996ء میں لاہور کے انگریزی اخبار میں جاب کے لیے گیا تو ٹیسٹ میں فیل ہو گیا اور مجھ سے کہا گیا آپ صحافی نہیں بن سکتے۔ اگلے روز سفارش کرا کے ایک اور انگریزی اخبار میں نوکری لی! میرا جواب سن کر ان صاحب کی آنکھوں میں پھیلی حیرانی مجھے عمر بھر نہیں بھولے گی۔