پچھلے ہفتے اپنے دوست اینکرافتخاراحمدکا حکم ملا، لاہور حاضر ہو، ان کے دنیا ٹی وی کے نئے پروگرام ''بدل دو‘‘ کی ریکارڈنگ ہے۔ میں ٹھہرا سست انسان، میرے نزدیک ویک اینڈ بچوں کے ساتھ کھیلنے، فلمیں، کتابیں اور لمبی تان کر سونے کا نام ہے، لیکن دبنگ افتخار احمدکا خوف میری روایتی سرائیکی سستی پر غالب آگیا۔ ہم سرائیکی ویسے ہی تخت لاہورکے خوف اور دبدبے میں رہتے ہیں، لہٰذا لاہور چل پڑا۔
واپسی پر ایک پبلشنگ ہائوس پر نظر پڑی تو رک گیا۔ ایک نفیس انسان اور خوبصورت کالم نگار محمد ساجد خان اور خوبصورت کتابیں چھاپنے کے ماہر افضال نیاز سے ملاقات ہوئی۔ چائے پی، سیر حاصل گفتگو کی ادب اور ادبی کتابوں پر۔افضال صاحب کے پاس ہی نئی کتاب 'حاصل محبت‘ کے مصنف کیپٹن ریٹائرڈ لیاقت سے ملاقات ہوئی۔ لاہور کے اس نوجوان پولیس افسرکی کتاب بھی اپنی جگہ کمال ہے۔کیا تحریر پرگرفت ہے۔ کسی دن اس پر لکھوں گا۔ افضال نیاز نے کمال چائے پیش کی۔ اسلام آباد پہنچ کر ابھی تک اس کا ذائقہ برقرار ہے۔ ویسے کیا کیا کمال کتابیں چھپ رہی ہیں۔
جس کتاب نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرالی وہ الطاف گوہرکی شاندارکتاب ایوب خان کے دس سال تھی۔ اس کا ترجمہ مشہور شاعر شعیب بن عزیز نے کیا ہے۔ ویسے جتنا شاندار ترجمہ اس مشکل کتاب کا انہوں نے آسان انداز میں کیا وہ ایک اعلیٰ پائے کا شاعر ہی کر سکتا تھا۔ اس کے بعد شعیب بن عزیزکے سارے سرکاری گناہ معاف ہوجانے چاہئیں جو ان کے کھاتے پرویزالٰہی سے لے کر شہباز شریف تک کی گئی طویل نوکری میں ڈالے جاسکتے ہیں۔
ویسے اس کتاب میں جوکچھ 1965ء کی جنگ کے بارے میں الطاف گوہر نے لکھا،وہ لکھ دوں تو دوست شرمندہ ہوںگے، لہٰذا بہتر ہے انہوں نے جوکچھ درسی کتب میں پڑھا اور جس کے سہارے دانشوری فرماتے رہتے ہیں، وہ قوم کو بیوقوف بنانے کا کام جاری رکھیں۔کسی نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے، اب مجھے آپ حقائق سے کنفیوز مت کریں۔ پاک بھارت جنگ کی اصل کہانی جو ایوب خان کے قریبی بیوروکریٹ الطاف گوہر نے اپنی اس کتاب میں لکھی ہے، اسے یہیں رہنے دیتے ہیں کہ ہمارے اندر سچ سننے کا حوصلہ نہیں ہے۔ ہم جھوٹ پر معاشرے اور قوم کو تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ بھانبڑ مچ جائے گا۔کچھ لوگوںکا ایمان اور حب الوطنی خطرے میں پڑ جائے گی۔ جو درسی کتب میں پڑھا ہے وہ ہمیشہ دماغ کو ڈستا رہے گا۔ لہٰذا اس پر پھر کبھی قلم اٹھائیں گے، جب ستمبر گزر جائے گا اورکچھ جذبات ٹھنڈے پڑ جائیںگے۔
ویسے اس کتاب میں ایک واقعے نے مجھے شدید متاثرکیا۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں:
شیر بنگال کا لقب بنگالیوں نے اے کے فضل الحق کو دے رکھا تھا۔ یہ وہی شیر بنگال ہیں جو1944ء میں متحدہ بنگال کے وزیراعلیٰ تھے۔ قائداعظم لاہور میں قرارداد پاکستان کے جلسے کی صدارت کر رہے تھے۔ جب فضل الحق پنڈال میں داخل ہوئے تو سامعین میں جوش پھیل گیا اور پورا پنڈال نعروں سے گونج اٹھا۔ جب قائداعظم نے اپنی آواز عوام کے نعروں میں ڈوبتی دیکھی تو وہ یہ کہہ کر بیٹھ گئے کہ جب شیر آجائے تو پھرکسی میمنے کا کیا کام۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں، پاکستان بننے کے بعد وہ ڈھاکہ میں نوکری کرتے تھے۔ چیف منسٹر فضل الحق اپنی بیگم کے ہمراہ میری رہائش گاہ دیکھنے آئے۔ یہ ایک کشادہ بنگلہ تھا جس کے سامنے وسیع لان میں برگد کا ایک بہت بڑا پیڑ تھا۔ تجویز یہ تھی، اس مکان کو چیف منسٹر ہائوس میں تبدیل کر دیا جائے۔ وزیراعلیٰ کوگھر بہت پسند آیا مگر جب وہ کار میں سوار ہوکر واپس جانے لگے تو ان کی نظر میرے بچوں پر پڑی جو برگد کے پیڑ کے نیچے کھیل رہے تھے۔بولے، اگر تم کسی اپارٹمنٹ میں منتقل ہوگئے تو یہ بچے کہاں کھیلیںگے۔اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، فضل الحق فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ بچوں کو ان کے برگد سے محروم نہیں کریںگے۔ وہ تمام عرصہ اپنے پرانے گھر میں رہے۔ بعد میں اس گھر کو ایوان صدر میں تبدیل کر دیا گیا۔ ایوب خان جب بھی ڈھاکہ جاتے اسی گھر میں ٹھہرتے۔
پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم نے بھی اپنی کتاب ''ہم بھی وہیں موجود تھے‘‘ میں ایک ایسا واقعہ لکھا کہ بعض دفعہ کیسے کیسے انسان ہمارے معاشرے میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ لکھتے ہیں، اسلم اظہر بہت با اصول اورانتظامی معاملات میں سخت، لیکن اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا بہت خیال کرتے تھے۔ پی ٹی وی کے ایم ڈی بنے تو کچھ دنوں بعد میرا تبادلہ اسلام آباد کردیاگیا۔ اسلم اظہرکے ساتھ اچھا تعلق بن گیا تھا۔ ایک دن فیاض الحق نے مجھ سے کہا، آئندہ جب اسلم اظہر سے ان کے گھر ملنے جائو تو بتانا ایک ضروری کام ہے۔ میں نے پوچھا کام کیا ہے؟ فیاض صاحب نے ایک عرضی تھمائی اور بولے محمد صادق ہمارے کیمرہ مین تھے،کسی وجہ سے ٹی وی کی ملازمت چھوڑ دی، آج کل بیروزگار ہیں اور بہت پریشان۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اسلم صاحب سے کہہ کر اسے دوبارہ ملازمت دلوا دو۔ میں نے عرضی لے لی، انہیںکہا‘ صادق کوگیارہ بجے اسلم اظہر کے گھر بھیج دیں،کوشش کرکے ملاقات کرادوںگا۔ ملاقات ہوئی۔ صادق کے حالات سن کر اسلم اظہر نے فوراً رضامندی کا اظہارکر دیا کہ نئی نوکری مل جائے گی۔ صادق چلے گئے۔ کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی تو دیکھا صادق اپنی برقع پوش بیوی اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ بولے، میں بیوی بچوں کو ساتھ لایا تھا، یہ باہر انتظارکر رہے تھے۔ انہیں ملازمت ملنے کا بتایا تو میری بیوی اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنے پر اصرار کرنے لگی، اس لیے دوبارہ آگیا۔ بچے چھوٹے اوربہت پیارے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک بچہ اسلم اظہر اور دوسرا بیگم اظہر کی گود میں تھا۔ اسلم اظہر نے کچھ مالی امداد کی کوشش کی لیکن خود دار لوگ تھے، انکارکر دیا۔ نوکری صادق کو مل گئی۔ میں لاہور چلا گیا۔ عرصہ گزرگیا،ایک دن فیاض کا فون آیا کہ یار تمہاری پھر ضرورت پڑگئی ہے۔ اسلم اظہر سے بات کرو۔ صادق نے میڈیکل بل میں چار پانچ سو روپے کا گھپلا کر لیا ہے۔ انتظامیہ نے تحقیق کر کے اس کی فائل ملازمت سے برخاستگی کی سفارش کے ساتھ ایم ڈی کو بھجوائی ہے۔ تم اسلم اظہر سے کہہ کر اس کی جان بخشی کرا دو۔ میں نے معذرت کر لی کہ نوکری کے لیے اسلم اظہر سے بات کر سکتا تھا لیکن اس موضوع پر مشکل ہوگا۔ وہ با اصول انسان ہیں۔ چار روز بعد فیاض کا فون آیا کہ بات ہوئی؟ میں نے کہا یار ہمت نہیں ہوئی۔ وہ بولے، صادق کا معاملہ بہت اچھا ہوگیا تھا۔ اس کی فائل پر، جو صادق کو نوکری سے برخاستگی کے لیے بھیجی گئی تھی،ایم ڈی اسلم اظہر نے لکھ کر واپس کر دی ہے کہ یہ شخص بے ایمان نہیں بلکہ ضرورت مند ہے۔ اس نے یہ کام انتہائی مجبوری اور ضرورت کے تحت کیا ہے، اس لیے اسے نوکری سے برخاست کرکے معاشرے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے بھیجنے کی بجائے نوکری پر برقرار رکھا جائے اور تنخواہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔
ایک اور واقعے کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ دو ہزارکی بات ہے۔ میں اس وقت کے سیکرٹری زراعت ڈاکٹر ظفر الطاف کے کمرے میںبیٹھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی جاوید الطاف بھی موجود تھے۔ایک افسر فائل لائے۔ ڈاکٹر صاحب کی عادت تھی وہ اپنے افسروں پربھروسہ کرتے اور دستخط کردیتے تھے ( اس عادت کا انہیں نقصان بھی بہت ہوا لیکن وہ باز نہیں آئے۔) اس دن پتا نہیں انہیں کیا ہواکہ فائل پڑھنی شروع کر دی۔ اچانک غصے میں آئے اور بولے تم سے کس نے کہا تھا اس بندے کو نوکری سے برخاست کردو؟ وہ افسر بولے، سر! اس شخص نے پاکستان ایگری ریسرچ کونسل میں آپ کے خلاف فاروق لغاری کی نگران حکومت کو ریفرنس بنانے میں مدد کی تھی اور آپ کے لیے بے پناہ مسائل پیدا کیے تھے۔ اب یہ خود ایک انکوائری میں پھنس گیا ہے، سارے قانونی تقاضے پورے ہیں۔ بس اس فائل پر دستخط کردیں تو ابھی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے چہرے کا رنگ سرخ ہوا اور بولے تم جانتے ہو یہ شخص کون ہے؟ میں جانتا ہوں۔اس کے بچے اور بچیاں سکول اورکالج میں پڑھتے ہیں۔ یہ نوکری اس کا واحد ذریعہ ہے۔ مجھے اس کی وجہ سے بہت تکالیف ہوئیں، لیکن میں اس کے بچوںکو اس کی سزا نہیں دے سکتا۔اس افسر نے خوشامدی انداز میں اصرارکیا تو جاوید الطاف جو اب تک خاموش بیٹھے تھے بولے، آپ جائو، ظفر ٹھیک کہہ رہا ہے!
وہی ڈاکٹر ظفر الطاف آج کل پنجاب اینٹی کرپشن جج کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ انہوں نے پنجاب کے شاہی خاندان کے ادارہ، جس کے وہ اعزازی چیئرمین ہیں، کے دودھ کے برانڈ پر پولیس کے ذریعے کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہاں کے گرفتار ملازمین کی ضمانتیں کرانے کی کوشش کی۔ حکم ملا ہٹ جائو۔ نہ ہٹے تو ان پر بھی مقدمے بنا دیے گئے۔ یوں آج 74 برس کی عمر میں بھی ان گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں جو انہوں نے نہیں کیے۔ زمینی خدائوں سے ٹکرانے کا بھی شاید اپنا لطف ہے اور ڈاکٹر ظفرالطاف سے بہتر اس کام میں کوئی اور ماہر نہیں دیکھا۔ مجال ہے کبھی کوئی شکوہ،گلہ کیا ہو یا جبین شکن آلود ہوئی ہو!
حیران ہوتا ہوں،کہاں گئے شیربنگال جیسے لوگ جو بچوںکو برگدکے پیڑکے نیچے کھیلتے دیکھ کر ارادہ بدل دیں۔کہاں ملیںگے اسلم اظہر جو کیمرہ مین کی فائل پر لکھ دیں وہ جرائم پیشہ نہیں ضرورت مند تھا یا پھر ڈاکٹر ظفر الطاف جیسی روحیں جو اپنے بدترین مخالف کو بھی پوری طاقت ہوتے ہوئے نوکری سے برطرف نہ کریں کہ اس کے جرائم کی سزا اس کے بچوں کو نہیں دے سکتا۔ اپنے ہاں برگد کے درخت تو بہت ہیں لیکن برگد کے درخت کے نیچے کھیلتے بچے کسی کو نظر نہیں آتے۔ اب کہاں ملیں گے ایسے لوگ جن کے نزدیک انسانی حقوق ، خدا کے حقوق سے بھی بڑھ کر تھے!