میں یہ کالم نہیں لکھنا چاہتا تھا۔
آج کل پاکستان اور بھارت کے درمیان جس طرح کا ماحول بن چکا ہے اس کے بعد اس موضوع پر لکھنا بہت مشکل ہوچکا ہے‘ لیکن ایک ایسے سیانے بندے نے مجھے لکھنے کو کہا ہے جسے میں انکار نہیں کر سکتا ۔ ان کی کہی ہوئی کئی باتیں سچ ثابت ہو چکی ہیں۔ پہلے پہل تو میں کئی دنوں تک انکار کرتا رہا؛ تاہم کل انہوں نے مجھے سابق چیف کمشنر اسلام آباد طارق پیرزادہ کے گھر بلایا اور ان کی موجودگی میں شدید اصرار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میں نے نہ لکھا تو یہ اس وطن اور اس کے لوگوں سے انصاف نہیں ہوگا ۔ طارق پیرزادہ اس بات کے گواہ ہیں۔
میں نے کہا‘ سر کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی بھارتی ایجنسی 'را‘ کا ایجنٹ ٹھہرایا جائوں جو فیشن بن چکا ہے؟ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔ میرا پاکستان کو چھوڑ کر کہیں جانے کو دل نہیں کرتا۔ چھوڑنا ہوتا تو 2007ء میں لندن سے واپس ہی نہ آتا جہاں ایک پاکستانی انگریزی روزنامے کا تین سالہ ملازمت کا کنٹریکٹ میرا منتظر تھا ۔ اس ملک سے محبت ہے۔ پیار ہے اور اب تو اس دھرتی کے سینے میں اپنے کئی پیارے دفن ہیں اس لیے پیشکش ٹھکرا کر خطرات میں رہنے کے لیے لوٹ آیا۔
وہ بولے‘ آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں‘ وہی خطرات پاکستان کے سر پر منڈلا رہے ہیں جو کبھی 1971ء میں تھے بلکہ خدا نہ کرے اس سے بھی زیادہ سنگین حالات ہوں۔ طارق پیرزادہ پہلی دفعہ گفتگو میں شریک ہوئے اور بولے‘ ان صاحب کی کہی ہوئی کوئی اچھی بات پوری ہو یا نہ ہو لیکن بری بات ضرور پوری ہوتی ہے۔ وہ بولتے رہے۔ مستقبل کا منظر دکھاتے رہے۔ میں خوف کے مارے وہ سب چیزیں نہیں لکھ رہا کہ خدا کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ انسان ایک حد تک ہی حالات کا جائزہ لے سکتا ہے۔ وہ بولے‘ پاکستان بھارت جنگ کے امکانات بہت واضح ہیں اور پاکستان کو اس جنگ سے ہر حال میں بچنا ہوگا ورنہ بہت نقصان ہوگا ۔
میں نے کہا‘ سر پہلے ہی میں ٹوئیٹر یا کالموں میں جب پاک بھارت تعلقات کی بات کرتا ہوں تو زیادہ تر مرکزی پنجاب سے دوستوں کے طعنے ملتے ہیں کہ اگر آپ بھارت سے دوستی چاہتے ہیں تو بھارت چلے جائیں۔ سب جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ بھارت تیار ہے‘ ہم تیار ہیں تو پھر نقارخانے میں اس طوطی کی آواز کس نے سننی ہے۔
وہ پھر بھی مطمئن نہ ہوئے اور بولے‘ آپ لکھ دیں۔ اگلے دو سال تک پاکستان ہر قسم کی جنگ اور ہمسایوں سے دشمنی سے بچے۔ میں اب بھی کالم لکھنے پر تیار نہیں تھا کہ ہفتہ کے روز اخبارات میں ایک اہم خبر پڑھی ہے۔
بھارت نے ایک دفعہ پاکستان کو پھر وہی پیشکش کی ہے جو اس سے پہلے 1965ء کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدے کے وقت کی گئی تھی اور بھٹو صاحب نے انکار کر کے ایوب خان کے لیے مشکلات پیدا کر دی تھیں۔اب کی دفعہ یہ پیشکش پنجاب رینجرز کے ڈی جی جنرل عمر برکی کو بھارت کے وزیر داخلہ نے کی ہے۔ جنرل عمر اس وقت بھارت میں ہیں۔ بھارتی وزیرداخلہ نے جنرل عمر کو پیشکش کی ہے کہ بھارت آپ کے ساتھ اس معاہدے کے لیے تیار ہے کہ کوئی بھی بھارتی فوجی پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحد پر پہلی گولی نہیں چلائے گا ۔ رپورٹ کے مطابق جنرل برکی نے جواب دیا کہ وہ اس پیشکش کا اس لیے جواب نہیں دے سکتے کیونکہ اس کے لیے پاکستان کی اعلیٰ سیاسی اور فوجی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس پیشکش کو ہم روایتی انداز میں ایک چالاک دشمن کی سازش کہہ کر مسترد کر دیں گے جیسے ہم نے تاشقند میں بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی پیشکش بلکہ ضد کو مسترد کر دیا تھا کہ پاکستان ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرے تو وہ تاشقند معاہدے پر دستخط کرنے کوتیار ہیں؟ بھٹو صاحب اڑ گئے کہ اگر ہم نے بھارت کی اس پیشکش سے فائدہ اٹھایا تو پھر ہم کشمیر پر کبھی جنگ نہیں لڑ سکیں گے۔ جنگ کشمیر میں تو نہ لڑی گئی لیکن ہم 1971ء میں مشرقی پاکستان کھو بیٹھے۔ اگر پاکستان نے تاشقند میں وزیراعظم شاستری کی پیشکش قبول کر لی ہوتی تو بھارت کبھی عالمی معاہدے کے تحت مشرقی پاکستان میں فوجیں نہیں اتار سکتا تھا اور بھٹو صاحب بغیر سوچے سمجھے پولینڈ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر کی قرارداد کو پھاڑ کر واک آئوٹ نہ کرتے تو شاید پاکستان بچ جاتا۔
تاشقند معاہدے کی داستان کچھ عجیب ہے۔ کلدیپ نیّر وہ بھارتی صحافی ہیں جنہیں بھارت میں پاکستان کا بہت ہمدرد سمجھا جاتا ہے اور انہیں طعنے بھی ملتے رہتے ہیں۔ وہ تاشقند میں موجود تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب تاشقند معاہدہ ہونے لگا تو شاستری پر دبائو تھا کہ وہ مذاکرات میں پاکستان بھارت کشیدگی کا مستقل حل نکال کر لائیں۔ سیزفائر مسئلے کا حل نہیں تھا۔ ایک ہی چیز بھارتی عوام کو مطمئن کر سکتی تھی کہ شاستری تاشقند میں پاکستان کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کریں جس میں طے پائے کہ اب دونوں ملک کوئی جنگ نہیں کریں گے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوں گے۔ جنرل ایوب خان بھٹو سے پہلے سے ہی نالاں تھے کہ یہ جنگ شروع کرانے میں بھٹو کا ہاتھ تھا اور انہوں نے ہی غلط اعداد وشمار اور حالات کا غلط تجزیہ کر کے کشمیر میں پانچ ہزار فوجی بھجوانے کا فیصلہ کروایا تھا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کشمیر تو چھوڑیں لاہور سے ہاتھ دھونے والا تھا ۔ وہ تو بہادر پاکستانی فوجیوں کی قربانیوں نے عزت رکھ لی۔ اس لیے جنرل ایوب کو جب مذاکرات کے دوران یہ پیشکش ہوئی تو وہ فوراً تیار ہوگئے‘ لیکن بھٹو نے انکار کردیا اور بولے‘ وہ ایسے کسی معاہدے کی ڈٹ کر مخالفت کریں گے۔ اب ایوب خان کے لیے مسئلہ پیدا ہوگیا کہ وہ کیسے اس معاہدے پر دستخط کریں جس کی مخالفت ان کا وزیرخارجہ کر رہا تھا۔ یوں ایک ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا۔ جب میزبان روسی صدر کو پتہ چلا کہ دونوں ملکوں میں معاہدہ نہیں ہوپارہا تو انہوں نے شاستری اور ایوب خان کو بٹھایا اور پوچھا کیا معاملہ ہے۔ اس دوران ایک ڈرافٹ تیار ہوچکا تھا جس پر دونوں کے دستخط ہونے تھے۔ جب وہ معاہدہ دونوں کو دکھایا گیا تو ایوب خان تیار ہوگئے جب کہ شاستری نے انکار کر دیا۔ روسی صدر نے وجہ پوچھی تو شاستری بولے‘ جب تک اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان جنگ نہ کرنے کا نہیں لکھیں گے وہ دستخط نہیں کریں گے۔ اس پر روسی صدر نے ایوب خان کو دیکھا اور حیران ہوئے کہ اگر جنگ لڑنی ہے تو پھر یہاں تاشقند میں وہ کیا کر رہے تھے۔ نیا معاہدہ لکھوانے کی بجائے ایوب خان نے جیب سے پین نکالا اور ہاتھ سے اس پر لکھ دیا کہ بغیر لڑے جھگڑے وہ اپنے باہمی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ شاستری اس پر بھی راضی نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پورا معاہدہ لکھا جائے کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ نہیں ہوگی۔
یہ وہ راز تھا جو بھٹو نے چھپا کر رکھا ہوا تھا کہ وہ قوم کو بتائیں گے کہ ایوب خان نے تاشقند میں کشمیر کا سودا کیسے کیا تھا ۔ بھٹو کو اس راز کا پتہ چل گیا تھا کہ ایوب خان نے اپنے ہاتھ سے معاہدے پر لکھ دیا تھا کہ وہ بھارت سے لڑائی نہیں کریں گے۔ یوں بھٹو عوام کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ان کا فوجی جرنیل لڑائی کے لیے تیار نہیں تھا لیکن وہ بھارت سے ہزار سال تک لڑنے کے لیے تیار تھے؛ تاہم بھٹو سمجھدار نکلے اور انہوں نے یہ راز کبھی نہ بتایا۔ (یہ معاہدہ جس پر ایوب خان نے اپنے ہاتھ سے اضافہ کر دیا تھا‘ اس وقت بھارت کے فارن آفس کی آرکائیو میں موجود ہے جس کا کلدیپ نیّر نے اپنی کتاب میں عکس چھاپا ہے اور ایوب خان کے ہاتھ کی لکھائی واضح ہے)۔
کلدیپ نیّر لکھتے ہیں کہ شاستری نے جب معاہدے کے بعد گھر فون کیا تو اس کی بیوی نے بتایا کہ لوگ خوش نہیں ہیں۔ آپ نے اچھا معاہدہ نہیں کیا۔ مطلب یہ تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا مستقل معاہدہ کیوں نہ ہوسکا ۔ بھارتی سمجھتے تھے کہ شاستری مذاکرات کی میز پر وہ کامیابی نہ حاصل کر سکے جو ان کی فوج گرائونڈ پر حاصل کر چکی تھی۔ اسی دبائو میں اس رات شاستری کا انتقال ہوگیا۔ اور جب بھٹو کو رات کو جگایا گیا تو انہوں نے گالی دے کر پوچھا۔کون مر گیا؟ ایوب خان یا شاستری؟
ایوب خان بھٹو کو بھی خوش نہ کر سکے اور بھارت سے باقاعدہ جنگ نہ کرنے کے معاہدے کا موقع بھی ضائع کر دیا۔ اس کے دو نتائج نکلے۔ بھٹو نے واپسی پر ایوب خان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور پانچ سال بعد مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہمیں بھارتی وزیرداخلہ کی اس نئی پیشکش کو بھی اس طرح نظر انداز کر دینا چاہیے جیسے ہم نے تاشقند میں وزیراعظم شاستری کی کر دی تھی؟
میرا خیال ہے بھارت کی اس پیشکشں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اس پر ایک مشترکہ اجلاس بلا کر سب کی رائے لی جائے اور اس موقع کو ضائع نہ کیا جائے۔ ہم ہر وقت حالت جنگ میں نہیں رہ سکتے۔ ہمارا تمام ہمسایوں سے اختلاف ہے اور پھر اتنے اندورنی مسائل ہیں کہ ہم افورڈ ہی نہیں کرسکتے کہ ہمسایوں سے جنگیں لڑیں۔ کشمیر پر اپنا دبائو قائم رکھیں جیسے چین نے تائیوان اور بھارت پر اپنے اپنے علاقوں کے لیے رکھا ہوا ہے ۔ پاکستان کو بھارت سے یہ معاہدہ کرنا چاہیے کہ دونوں ممالک کے فوجی پہلی گولی نہیں چلائیں گے!