لاہورمیں تین دن رہنے اور الیکشن کو براہ راست دیکھنے کے باوجود میرا اس کے نتائج پر لکھنے کا موڈ نہیں ہے۔ وجہ بعد میں بتائوں گا۔ اگرچہ لاہور میں تین راتیں بڑی اچھی گزریں اور اس میں سارا ہاتھ ہمارے ڈارلنگ ہما علی کا تھا۔ جس طرح لاہوری ہما علی نے روایتی کھانے کھلائے‘ اس کے بعد واقعی لگا کہ لاہوریوں کا ذائقہ میں مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ میں آج کل خوراک میں احتیاط برت رہا ہوں لیکن پھر بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ ہی گیا۔
لاہور الیکشن کے بعد میں اور عامر متین اسلام آباد کے لیے نکلے تو پتہ چلا ابھی گاڑی میں پٹرول بھی ڈلوانا ہے۔ لاہور کی ٹریفک، شور شرابہ اور ہنگام دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگایا۔ عامر متین جیسا لاہوری بولا:یار ہمارا نوے کی دہائی والا لاہور کب کا مر چکا۔ دائیں بائیں موٹرسائیکل‘ ہارن بجاتے گاڑی سوار۔ کسی کو احساس نہیں‘ سڑک پر کیسے چلنا ہے۔ جہاں سے کسی کو راستہ ملتا ہے‘ لے لیتاہے۔ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے بغیر دیکھے۔ ہر کسی کو گھر جانے کی جلدی ہے۔ عامر متین بولے؛ ایسا لگتا ہے یہ قوم پوری دنیاکو فتح کرنے کے لیے جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتی ہے۔ اس لیے سڑک پر ہر قسم کی خلاف ورزی، اشارے توڑنا، ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے چلنا ضروری سمجھتی ہے۔ جو نوجوان دس ٹریفک اشارے توڑ کر پانچ منٹ میں گھر پہنچتا ہے وہ جا کر آرام سے ٹی وی دیکھنے لگتا ہے ۔ یہ ہے اس قوم کی کہانی ۔
میں اور عامر متین اس ہنگام میں سے کیسے نکل کر موٹروے پر پہنچے یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ایک جگہ ہمارے پیچھے سے موٹرسائیکل نوجوان بائیں طرف سے آیا اور ہماری گاڑی کے آگے سے ہی ایک شارپ کٹ مار کر دائیں جانب جانے کی کوشش کی کیونکہ اس نے شاید کچھ دور آگے اشارے سے دائیں مڑنا تھا۔ وہ سلپ ہوا اور گاڑی سے ٹکرا کر سڑک پر گرا اور گھسٹتا چلا گیا ۔ ہم دونوں بھاگ کر اترے۔ شکر کیا بچت ہوگئی تھی ۔ ایک لاکھ روپے کی موٹرسائیکل ہو گی لیکن موصوف نے چند ہزار کا ہیلمٹ نہیں پہنا تھا ۔ میں نے عامر متین سے کہا: اب کوئی نہیں دیکھے گا یہ نوجوان کس طرح پیچھے سے تیز آیا اور بغیر سوچے سمجھے گاڑی کو کراس کیا اور ساری ذمہ داری ہم پر ڈال دی کہ اب ہم خود کو بھی بچائیں اور اسے بھی بچائیں۔ اگر نہ بچا سکیں تو پھر سارا قصور ہمارا۔ موقع پر کوئی موٹرسائیکل سوار کو غلط نہیں کہے گا۔ ہر بندہ جو گاڑی میں بیٹھا ہے وہی قصور وار ٹھہرتا ہے۔ اگلے دن خبر بنتی ہے کہ تیز رفتار کار نے موٹرسائیکل سوار کو ٹکر مار دی۔ اب بھلا ایک کار سوار اپنے پیچھے سے آنے والے کو کیسے ٹکر مار سکتا ہے۔ نوجوان اپنی موٹرسائیکل کو دیکھ رہا تھا جس کی پچھلی بتی ٹوٹ گئی تھی۔ میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ جتنی وہ خواہش کر رہا تھا اس سے زیادہ پوری کر دی ۔ میں خود بھی موٹرسائیکل سوار رہا ہوں۔ مجھے پتہ ہے میں بھی اس صورت حال میں اپنی غلطی نہ مانتا اور کار ڈرائیور کو ہی قصور وار ٹھہراتا۔ بحث کا فائدہ نہیں تھا۔ شکر کیا نوجوان کو کوئی چوٹ نہیں لگی تھی۔ہماری گاڑی نے اس کی گری ہوئی بائیک کے پچھلے حصے کو ہٹ ضرور کیا تھا ۔ تاہم رفتار بہت کم تھی لہٰذا اللہ کا شکر کیا کہ بچت ہو گئی تھی۔اسے کہا کہ تمہیں ہسپتال لے چلتے ہیں ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کپڑے جھاڑتے ہوئے بولا‘ میں ٹھیک ہوں۔
چوبرجی سے ہما علی کو لینا تھا ۔ انہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا کیونکہ ڈرائیونگ میں جو مہارت وہ رکھتے ہیں وہ شاید ہم دونوں کے پاس نہ تھی۔اچانک مجھے یاد آیا کہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہم گاڑی میں پٹرول ڈلوانا بھول گئے تھے اور اتنی دیر میں پٹرول پمپ کو مس کر چکے تھے۔ میں نے کہا اگلے انٹرچینج سے نکل کر ڈلوا لیتے ہیں تاکہ راستے میں نہ رک جائیں۔ ہما علی ڈارلنگ بولے: فکر کی کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا ڈارلنگ بہتر ہوگا ابھی ڈلوالیتے ہیں۔ بولے‘ یار آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں، میں ہوں ناں۔ میں نے کہا ‘ایک پرانا لطیفہ سن لیں۔ ایک سردار کسی کے پاس ملازم تھا۔ مالک قیمتی گھوڑی خرید لایا اور کہا: سردار جی خیال رکھنا بہت قیمتی ہے۔ چوری نہ ہوئے جائے۔ سردار نے کہا بے فکر ہو کر سو جائو۔ چور کی کیا مجال۔ مالک نے دوبارہ اصرار کیا تو سردار بولا: تسی سو جائو‘ سردار جاگ رہا ہے۔ اگر گھوڑی چوری ہوگئی تو آپ مجھے جتنا مرضی برا بھلا کہنا۔۔رات کے دو بجے مالک کو اٹھا کر سردار بولا: آپ ٹھیک کہتے تھے۔ گھوڑی چوری ہوگئی ہے، آپ مجھے برا بھلا کہہ لیں ۔
جونہی لطیفہ ختم ہوا، ہما علی نے کالا شاہ کاکو سے ہی گاڑی موٹروے سے باہر نکال لی۔ میں نے کہا کیا ہوا۔کہتے ہیں سردار
کے لطیفے نے ڈرا دیا ہے۔ تاہم اس سے زیادہ میں اس وقت ڈر گیا جب عامر متین نے مجھے کالا شاہ کاکو میں دور دور تک زرعی زمینوں پر جاری ترقیاتی کاموں کی طرف متوجہ کیا اور بولے: اچھی بات ہے لاہور کی یونیورسٹیاں اب باہر منتقل ہورہی ہیں۔ میں نے کہا عامر بھائی: میں کسان ماں باپ کا بیٹا ہوں۔ یہاں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین جو پہلے سے کاشت ہورہی ہے انہیں ختم کر کے یہ عمارتیں کھڑی کی جارہی ہیں ۔ پہلے ہی ساہیوال جیسے زرعی علاقے میں بارہ سو ایکٹر جگہ کوئلے پلانٹ کو دی گئی۔ کوٹ ادو جیسے علاقے میں زرعی زمین ڈھونڈی جا رہی ہے۔ لاہور اب پھیل کر گوجرانوالہ اور اوکاڑہ تک پہنچ رہا ہے۔ دھرتی کے سینے میں فصلوں کے بیج کی بجائے سیمنٹ‘ سریا اور لوہا ٹھوکا جارہا ہے۔ ہم کیوں نہیں بلند و بالا عمارتوں کی طرف نہیں جاتے تاکہ ایک ایکٹر پر سینکڑوں فلیٹ بنا کر زمین بچائیں اور لوگوں کو گھر بھی فراہم ہوں۔ صرف اسلام آباد شہر میں ایک سو پانچ ہائوسنگ سوسائٹیاں بن گئی ہیں۔ کتنے ہزار ایکڑ زمین اس میں چلی گئی۔ ہمارا کیا بنے گا۔ ہماری نسلیں تو بھوکی مریں گی۔ کہاں سے لائیں گے کھیت جو ہماری نسلوں کا پیٹ بھریں گے۔یہ ہمارے حکمران اور پالیسی میکرز ترقی کے نام پر کیوں بربادی لارہے ہیں؟۔
عامر متین بحث کے موڈ میں نہیں تھے۔ چپ رہے اور میں لاہور کے نواح میں اتنی خوبصورت، سرسبز اور زرخیز زرعی زمین کی تباہی دیکھ کر ڈپریس ہوتا رہا۔ میں نے خود کو تسلی دی کہ شاید میں ضرورت سے زیادہ حساسیت کا مظاہر کر رہا ہوں۔کوئی نہ کوئی بندوبست ہوہی جائے گا ۔ میری اپنے آپ کو دی گئی تسلی اس وقت ہوا ہوگئی جب میں نے چند خبریں پڑھیں۔ پہلی خبر تھی کہ آج سے ٹھیک پچاس برس بعد سندھ کے کئی شہر پانی میں ڈوب جائیں گے۔ دوسری خبر یہ کہتی ہے کہ دنیا بھر میں جو غذائی قلت بڑھ رہی ہے اس میں جن ممالک کو خطرہ ہے ان میں پاکستان گیارہویں نمبر پر ہے اور بھارت‘ افغانستان بھی اس میں شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس خطے میں ایک ارب لوگ غذائی قلت کا شکار ہونے والے ہیں۔ ان ممالک کے لوگ زیادہ متاثر ہوں گے جہاں جنگیں ہو چکی ہیں یا ہورہی ہیں۔ باون ممالک میں یا تو صورت حال پریشان کن ہے یا پھر تشویشناک ہے۔ چلیں افغانستان کی سمجھ آتی ہے وہاں اتنے بڑے پیمانے پر زرعی زمین نہیں ہے لیکن پاکستان کا کیا کریں گے۔ بھارت بھی ایک زرخیز ملک سمجھا جاتا ہے اور ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے۔
اب بتائیں ہم کس طرف جا چکے ہیں ۔ زرعی زمینیں ہم نے ہائوسنگ کالونی اور کوئلے کے پلانٹوں کے لیے رکھ چھوڑی ہیں اور وہی چینی پلانٹ لگا رہے ہیں جن کے بارے میں اکانومسٹ نے دسمبر 2014ء کے شمارے میں لکھا تھا کہ چین میں ہر سال پانچ لاکھ لوگ کوئلے پلانٹ کی آلودگی کی وجہ سے مرجاتے ہیں لہٰذا فیصلہ ہوا‘ نیا پلانٹ نہیں لگے گا بلکہ چین میں پہلے سے لگے پلانٹ بھی بند ہو رہے ہیں۔ ہماری زندگی کی کیا اہمیت ہے۔ آبادی کم کرنے کا یہی علاج ہے کہ کوئلے سے مارو۔
کیا آپ ابھی بھی چاہتے ہیں کہ میں لاہور کے الیکشن کی داستان سنائوں؟۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ ہماری نسلوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ ہماری نسلیں مستقبل میں غذائی قلت کا شکار ہونے والی ہیں؟ ہمارے دوردراز شہر پانی میں ڈوبنے والے ہیں؟
لاہور الیکشن کی کہانی نہ سہی ایک لطیفہ سن لیں۔ ایک جٹ میلے کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ کبھی ایک جوڑا اتارتا تو کبھی دوسرا پہن لیتا۔ کبھی آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے آپ کو دیکھتا رہتا تو کبھی مونچھوں کو تیل اور وٹ دیتا۔۔بات کہیں بن نہیں رہی تھی۔ وہ اپنی اس شان اور ٹھاٹھ اورباٹھ سے ابھی بھی مطمئن نہیں تھا ۔ اس کی بیوی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ بولی ‘میلے سے واپسی پر میرے لیے جلیبیاں تو لیتے آنا۔ جٹ بیوی پر برس پڑا اور بولا: مجھے میلے میں بن ٹھن کر جانے کی فکر پڑی ہوئی ہے، مونچھوں کو صحیح تائو نہیں آ رہا اور تم جلیبیوں کے لیے مری جا رہی ہو۔
مجھے بھی یہی لگ رہا ہے یہاں سب حکمرانوں کو میلے میں بن ٹھن کر جانے کی فکر زیادہ ہے اور ہم ان سے جلیبیاں منگوانا چاہتے ہیں ۔ خواجہ آصف فرماتے ہیں سیاستدان رنگ باز ہوتے ہیں۔ تھوڑی رنگ بازی کرنی پڑتی ہے اور وہ سب کرتے ہیں۔
میں شرمندہ ہورہا ہوں کہ یہاں بازی گر اور رنگ بازوں کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے اور میں کچھ عرصے بعد نئی نسلوں کو درپیش غذائی قلت اور سندھ کے چند شہروں کے ڈوبنے کی کہانیاں لے کر بیٹھ گیا ہوں ۔۔!