سوچتا ہوں ہر قومی ٹریجڈی‘ ہماری بیوروکریسی کے لیے منافع بخش کاروبار کا درجہ کیوں اختیار کر لیتی ہے؟
اسلام آباد میں رپورٹنگ کرتے سترہ برس سے زائد ہوگئے ہیں۔ بڑے قریب سے دیکھا ہے کہ ہمارے بیوروکریٹس ہر ٹریجڈی سے اپنا فائدہ کیسے تلاش کر لیتے ہیں ۔
زیادہ پیچھے نہیں جائوں گا۔ مشرف دور میں بلوچستان، خیبر پختون خوا اور چولستان میں شدید خشک سالی آئی۔ ہزاروں جانورہلاک ہوئے۔ ہزاروں متاثرہ لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے‘ جانوروں تک کا چارہ نہ رہا۔ اس موقع پر سوچا گیا کہ ورلڈ بنک سے دس ارب روپے سے زائد کا قرضہ لیا جائے۔ نیا قرضہ لینے میں تاخیر کا خدشہ ہوا تو فیصلہ ہوا کہ جن منصوبوںکی پہلے سے منظوری ملی ہوئی تھی اور ان کے لیے ڈالرز جاری ہوچکے ہیں، ان سے پیسے خشک سالی کے لیے شفٹ کر دیے جائیں۔ یوں زیر تکمیل تمام منصوبے رک گئے اور ان پر سب پیسہ ضائع گیا ۔ پلاننگ ڈویژن میں خشک سالی کا دفتر قائم ہوا اور ساتھ ہی بیوروکریسی نے اپنا روایتی کھیل شروع کر دیا۔ سب سے پہلے اس بجٹ سے ایک بڑا سیل بنایا گیا، اسی قرضے کی رقم سے اس کی آرائش ہوئی، نئے نئے ایئر کنڈیشنر لگے۔ مہنگے موبائل فونز، اور پٹرول کارڈز تک خریدے گئے، جنہیں اپنے خاندانوں میں بانٹ دیا گیا۔ اگلا مرحلہ نئی گاڑیوں کا حصول یا خرید تھا، پہلے سوشل ایکشن پروگرام کی پندرہ گاڑیاں اس سیل کے حوالے کی گئیں‘پھر بارہ نئی گاڑیاں خریدی گئیں۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر لگانے کی بجائے آڈیٹر جنرل دفتر سے آئے ایک اکائونٹنٹ کو چارج دے دیا گیا ۔ جس نے زندگی بھر خشک سالی کا نام تک نہیں سنا تھا وہ دس برس تک اس پروجیکٹ کا سربراہ اس لیے رہا کہ اس نے ہر سیکرٹری پلاننگ کو نئی گاڑی لے کر دی ۔ ایک گاڑی سیکرٹری پلاننگ کی بیگم صاحبہ کو جی آر او ون لاہور بھیجی گئی تو ایک صاحب کو اسلام آباد میں دی گئی۔ پٹرول اور ڈرائیور اس کے علاوہ پیش کیا گیا۔ یوں ہر سیکرٹری پلاننگ اس اکاوئنٹنٹ کو پروجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر توسیع دیتا رہا۔ کسی نے نہ پوچھاکہ ایک اکاونٹنٹ کا بھلا خشک سالی کے منصوبے سے کیا کام ہے۔ ایک ڈپٹی چیئرمین پلاننگ آئے تو انہوں نے سب سے پہلے دفتر کی آرائش کا مطالبہ کیا؛ چنانچہ اس کام کے لیے خشک سالی کے قرضے والے پیسوں سے ٹائلیں خریدی گئیں۔ ایک راکنگ چیئر بھی خریدی گئی تاکہ جب صاحب تھک جائیں تو وہ اس پر بیٹھ کر جھولے لیں۔ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد سیل میں بھرتیوں کا کام شروع ہوا۔ سب افسروں نے اپنے اپنے بچے، بھانجے ‘بھتیجے بھرتی کر لیے۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ صرف اسلام آباد کے سیل میں نوے کے قریب ایسے لوگ کام کر رہے ہیں ،جنہیں خشک سالی کے قرضے لئے مختص قرضے کے بجٹ سے تنخواہیں مل رہی تھیں۔ اس پر بس نہ کی گئی بلکہ لاہور، کوئٹہ اور دیگر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر بنائے گئے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے اپنے لیے تین ہزار سی سی کی گاڑی لی۔ اپنے بچوں تک کو بھی یہ گاڑیاں دی گئیں، اور تو اور خشک سالی کے پیسوں سے کوئٹہ میں آئی جی پولیس کا دفتر بنایا گیا۔ جب گاڑیاں خریدی جارہی تھیں اور قرضے کی رقم اسلام آباد کے دفاتر پر اڑائی جارہی تھی انہی دنوں چولستان میں تیس کے قریب خواتین اور بچے خشک سالی کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت کے وزیر اسحاق خاکوانی نے مطالبہ کیا کہ جنہوں نے خشک سالی کے فنڈز چولستان کی بجائے اسلام آباد میں گاڑیوں اور دفاتر کی آرائش پر خرچ کئے ان پر ان تیس چولستانیوں کے قتل کی ایف آئی آر کاٹی جائے، جس پر شوکت عزیز خفا ہوگئے اور یوں ایک دن اسحاق خاکوانی کو استعفیٰ دینا پڑ گیا ۔
جب دس برس بعد اس پروجیکٹ ڈائریکٹر کی کارستانیوں کی کہانی پبلک اکائونٹ کمیٹی تک آڈٹ کی شکل میں پہنچی تو چیئرمین چوہدری نثار علی خان نے اس لیے سب کچھ معاف کر دیا کہ پروجیکٹ ڈائریکٹر کی سفارش ایک ایسے بڑے آدمی نے کی تھی جس کے چوہدری نثار کے حلقے میں کچھ ووٹ تھے، البتہ کارروائی ڈالنے کے لیے چند ہزار روپے کی ریکوری پلاننگ ڈویژن کے نائب قاصد اور چند نچلے درجے کے ملازمین پر ڈال دی گئی۔ یوں دس ارب روپے کے قرضے کا انجام اس طرح ہوا کہ سب کچھ کھایا گیا‘ لیکن کام کچھ نہ ہوا۔ وہ قرضہ اب تک واپس ہو رہا ہے۔
اکتوبر2005ء کے زلزلے کے بعد، امداد کے طور پرپانچ ارب ڈالر کی رقم ملی۔ جنرل مشرف نے راتوں رات ''ایرا‘‘ کھڑا کر دیا۔ ریٹائرڈ اورحاضر فوجی افسران کو وہاں بھیجا گیا۔ ان کی تنخواہیں دوسرے ملازمین سے زیادہ مقرر ہوئیں۔ لہٰذا ان دنوں میں بیوروکریسی نے ایک نیا کام ڈھونڈا‘سبھی لوگ کسی نہ کسی طرح''ایرا‘‘ میں تبادلہ کرانے کے چکر میں پڑ گئے،کیونکہ وہاں مال تگڑا تھا ۔ اب جب اس کا آڈٹ کرایا گیا تو پتہ چلا کہ اس محکمے میں چار سو سے زیادہ گاڑیاںزلزلہ زدگان کی امداد کے لیے دی گئی رقم سے خریدہوئیں ۔ اسلام آباد میں ہر افسر کو گاڑی مل گئی‘ سب اسلام آباد بیٹھے ہیں‘ ابھی تک مزے کر رہے ہیں۔ اگر آڈٹ رپورٹ پڑھ لیں تو پتہ چلے گا کہ زلزلہ زدگان کی مدد کے نام پر کیا کیا عیاشیاں کی گئیں۔ابھی ایرا کی عیاشیوں کی دھول نہیں بیٹھی تھی کہ نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ وہاں ایک دفعہ پھر بابوں نے اپنی تقرریاں کرائیں‘ وہاں پھر نئی گاڑیاں، نئی عیاشیاں، نئے بجٹ اور نئے الاوئنس۔اب اتھارٹی صرف یہ کر رہی ہے‘ کہ ہر سانحہ‘ یا واقعہ کے بعدشام کو دن بھرکی ٹی وی خبریں اکٹھی کرنے کے بعد پریس ریلیز جاری کر دیتی ہے۔ سانحہ میں کتنے ہلاک اور کتنے زخمی ہوئے۔ زیادہ تیر مارا تو فون کر کے صوبائی محکموں یا ضلعی انتظامیہ سے رپورٹ لے لی۔ اتنے سے کام کے بدلے‘ اتھارٹی کے لوگوں کی تنخواہوں اور الائونسوں پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں ۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ جنرل مشرف کے ابتدائی سالوں میں ہوا۔ وزیراعظم شوکت عزیز نے عام شہری کو بہتر انصاف فراہم کرنے کے لیے عدالتی اصلاحات کے نام پر ایشیائی ترقیاتی بنک سے 35ارب روپے قرض لیا، لیکن اس پیسے کو بھی زیادہ تر عمارتیں کھڑی کرنے‘ فرنیچر خریدنے سیمینار کرانے اور دیگر الائونسوں پر خرچ کر دیا گیا۔کیامقامی سطح پر انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکی ہے؟۔ کیا اتنا بڑا قرضہ ہمارے کسی کام آیا؟بلکہ اُلٹا ہم اس پر سود ادا کر رہے ہیں۔ کیا کسی نے اس قرضے کے نتائج پر کوئی بات کی ہے کیا کبھی بتایا گیا کہ یہ قرضہ کہاں خرچ ہوا اور عام انسان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ؟
روزانہ ہم قرضے لے رہے ہیں۔اب تو بجٹ کی بڑی رقم سود کی مد میں ادا کی جارہی ہے۔ پاکستان کا ترقیاتی بجٹ پانچ سو ارب روپے ہے، تو سود کی رقم اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس طرح دفاع کے لیے جو بھی خریداری کی جارہی ہے وہ بھی زیادہ تر بیرونی قرضہ کی مدد سے۔ ظاہر ہے کہ اسے ادا بھی کرنا ہو گا۔ یوں ہم ہر سال پانچ ارب ڈالرز کے قریب قرض لے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں جمع کرائی رپورٹ کے مطابق پچھلے دس برس میں پچاس ارب ڈالرز کا قرضہ لیا گیا ۔ ابھی دیکھ لیں کہ یورو بانڈز کی مد میں کیا کھیل کھیلا گیا ۔ اسحاق ڈار نے پانچ سو ملین ڈالرز کے لیے جو ریٹ سرمایہ کاروں کو ادا کرنے کا معاہدہ کیا ہے اس کے مطابق دس برس بعد پاکستان ان کو پانچ سو ملین ڈالر پر چار سو دس ملین ڈالرز کا سود ادا کرے گا۔ اگر پاکستانی روپے میں بات کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پانچ سو ارب روپے پر چار سو دس ارب روپے سود ہوگا جو اکانوے فیصد بنتا ہے۔اب آپ بتائیں کہ کوئی اتنا مہنگا قرضہ لیتا ہے ؟ کیا نواز شریف یا اسحاق ڈار اپنے کاروبار کے لیے اتنا مہنگا قرضہ لیں گے؟ کوئی ان کے ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔ بندہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے پانچ سو ملین ڈالرز پر چار سو دس ملین ڈالرز کا سود۔ اصل زر پانچ سو ملین ڈالرز کی ادائیگی اس کے علاوہ ہوگی۔
امیدتھی کہ ہمارے سیاستدان ہماراکچھ خیال کریں گے‘ ہمارے لیے بھی ان کے دل میں درد ہوگا‘ ہمیںبیوروکریسی کے چنگل اور اس کی لوٹ مار سے چھڑائیں گے۔ اب پتہ چلا کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان تو بیوروکریسی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ بتائیں کون سا دنیا کا ملک یا اس کا وزیرخزانہ پانچ سو ملین ڈالرز قرضہ پر چار سو دس ملین ڈالرز کا سود دس سالوں میں ادا کرے گا ؟ دنیا کے بعض اور ممالک بھی یورو بانڈز بیچنا چاہتے تھے مگر اُنہوں نے نہیں بیچے کیونکہ مارکیٹ مہنگی تھی۔ اسحاق ڈار فرماتے ہیں وزیراعظم نواز شریف کا حکم تھا کہ یورو بانڈز کے ذریعے پاکستان کی عالمی ساکھ کو چیک کریں۔ یوں وزیراعظم کی خواہش کا احترام ہمیں چار سو دس ملین ڈالرز کے سود کی شکل میں پڑا ہے۔ ساکھ چیک چیک کرتے ہم دنیا کا مہنگا ترین قرضہ لے کر لوٹے ہیں اور شرمندگی تک نہیں بلکہ ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں۔
بیورو کریسی اور سیاستدانوں نے وطن عزیز کو تباہی اور اغیار کی غلامی کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیں تو چھوڑیں اب تو ہماری آئندہ نسلیں بھی گروی رکھی جا رہی ہیں۔ ہم بے بسی کی علامت بنے قوم کے مستقبل کو بکتا دیکھ رہے ہیں۔ غیر ملکی قرضوں کا جس بے دردی سے استعمال ہو رہا ہے یہ اس کی چند ایک کہانیاں ہیں۔!