اگرچہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ تحریک انصاف اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں میں آئے بغیر ہی لوگوں کے دلوں سے اتر گئی؛ تاہم بلدیاتی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک آزاد امیدوار تحریک انصاف کے امیدواروں سے زیادہ ساکھ رکھتے اور ان کے لیے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ اگرچہ تحریک انصاف کے لیڈر فیس بک اور ٹوئٹر پر فرما رہے ہیں کہ کب کوئی حکمران جماعت بلدیاتی الیکشن میں ہاری ہے؟ ان کا خیال میں بلدیاتی الیکشن کی سیاست کچھ اور ہوتی ہے اور قومی سطح پر نتائج کچھ اور ہوتے ہیں۔
خرابی کہاں ہو رہی ہے؟ خان صاحب کی شادی کی بات کریں تو سب ناراض ہوجاتے ہیں کہ یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ طلاق پر بات کریں کہ غلط وقت پر یہ فیصلہ کیا تو بھی فرمایا جاتا ہے کہ ذاتی مسئلہ ہے۔ اس بات کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ ہمیں تو طلاق کا علم عمران خان کے ترجمان نعیم الحق کے اس پیغام سے ہوا جو انہوں نے ٹی وی چینلیز کو بھیجا۔ اگر یہ ذاتی معاملہ تھا تو اس کا برسرعام اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر کل کلاں یہ خبر نکل آتی تو کہہ دیتے کہ جناب یہ میرا ذاتی مسئلہ تھا، اس لیے میڈیا کو بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنی ذاتی زندگی کی کوئی بات ٹی وی چینلز کو لکھ کر بھیجوں کہ اسے چلا دو یا اپنے ٹوئٹر پر اس کا اعلان کروں اور پھر لوگوں سے توقع کروں کہ وہ اسے ذاتی سمجھ کر صرف پڑھ یا سن کر نظرانداز کر دیں اور میری ذاتی زندگی کا احترام کریں۔
پاکستانی لیڈر بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ بڑے آرام سے بڑے بڑے سکینڈلز پر ذاتی معاملے کی آڑ لے کر بچ جاتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں لیڈروں کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی۔ کوئی انہیں گھر سے بلا کر نہیں لاتا کہ آپ تشریف لائیں اور ہمارے وزیراعظم بنیں۔ یہ کوششں لوگ خود کرتے ہیں۔ اس کے لیے لاکھوں کروڑوں خرچ کرتے ہیں، جیلوں میں جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید بھگتتے ہیں۔ ہمارے ہاں کئی لیڈر ٹیکس چوری کرتے اور قرضے معاف کراتے ہیں تاکہ مال خرچ کرکے وزیراعظم یا مشہور سیاستدان بن سکیں۔ جب مشہور ہوجاتے ہیں تو پھر حکم صادر ہوتا ہے کہ اب ان کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں ہوگی۔ وہ جب چاہیں اپنی بیوی بچوں کو سیاست میں لے آئیں، یہ ان کے نزدیک غلط کام نہیں ہے۔ ہاں، کل کلاں اگر ان کے بچوں یا اہل خانہ سے بڑے بلنڈرز ہوجائیں تو فرماتے ہیں کہ یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔
یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی سیاستدان کی زندگی ذاتی ہو۔ ان کے کردار پر یقیناً بات ہوگی۔ لوگ اسے پرکھیں گے ۔ جب تک وہ اسے جانچیں گے نہیںاس پر اعتماد کیسے کریں گے؟ جس پر وہ اعتماد کر رہے ہیں‘ اسی نے کل ان کی زندگیوں اور آنے والی نسلوں کے فیصلے کرنے ہیں۔ یورپ میں لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک شخص اپنی ذاتی زندگی میں اچھا نہیں تو وہ پبلک لائف میں بھی اچھا نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ یا یورپ میں اگر کسی صدارتی امیدوار کے بارے میں یہ پتا چل جائے کہ اس نے سکول یا کالج کے دنوں میں چرس پی تھی تو اسے فوراً انتخابی دوڑ سے علیحدہ ہونا پڑتا ہے۔ جب بل کلنٹن کا سکینڈل سامنے آیا تو کسی نے اسے ان کا ذاتی معاملہ قرار نہیں دیا تھا۔ باقی چھوڑیں، ان کی اہلیہ ہلیری کلنٹن کی آٹو بائیوگرافی پڑھ لیں کہ کیسے اس نے بل کلنٹن کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ مونیکا ایشومعمولی بات ہے۔ مسز کلنٹن لکھتی ہیں، جس دن سکینڈل چھپنا تھا اس سے ایک رات پہلے بل کلنٹن نے اسے اعتماد میں لیا کہ کل صبح اخبار میں ان کے بارے ایک چھوٹی سی خبر چھپ رہی ہے۔ ہلیری نے پوچھا، کوئی پریشانی کی بات تو نہیں،کوئی سنگین خبر تو نہیں؟ بل کلنٹن نے کندھے اچکا کر کہا، نہیں کوئی سنجیدہ بات نہیں، معمولی سی بات ہے۔ ہلیری کلنٹن مطمئن ہو کر سو گئیں۔ اگلی صبح سکینڈل چھپا تو ہلیری کلنٹن پڑھ کر پاگل ہوگئی۔ وہ کلنٹن پر چلائی، تم کہتے تھے یہ معمولی سی خبر ہے۔کیا یہ معمولی خبر ہے؟ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ہے۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور گھر چھوڑکر چلی گئی۔ اس کے بعد ایک طویل کہانی ہے جو دنیا جانتی ہے۔ اس جھوٹ پر بل کلنٹن کا ٹرائل ہوا۔ اس نے کہیں یہ کور لینے کی کوشش نہیں کی کہ مونیکا گیٹ اس کا ذاتی معاملہ تھا۔ لیڈروں کے ذاتی معاملات قوموں پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس لیے ہر کوئی چاہتا ہے کہ بہتر انسان اس کا لیڈر بنے۔ اگر لیڈر بھی عام انسانوں جیسا نکل آئے تو لوگ اسے اپنے اوپر حق حکمرانی کیوں دیں؟ یہ تھا بل کلنٹن کے ٹرائل کا بنیادی نکتہ! اگر تم نے صدر ہوتے ہوئے بھی عام امریکن کی طرح جھوٹ بولنے ہیں تو پھر آپ واپس آئیں، ہمارے ساتھ بیٹھ کر گپیں ہانکیں، ہم آپ کو کچھ نہیںکہیں گے۔
یہ لوگ ہمیں درس دینا بند کریں جو فرماتے ہیں کہ یہ عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اگر ایسا ہی تھا تو نعیم الحق اور خود عمران خان اس پر ٹوئیٹ نہ کرتے۔ کسی نے اچھا کمنٹ کیا ہے: عمران خان شادی توڑتے تو اپنی اور بیوی کی باہمی انڈرسٹینڈنگ سے ہیں لیکن باہمی انڈرسٹیڈنگ سے گھریلو زندگی گزار نہیں سکتے۔ اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آنے سے پہلے ہی کیوں بحرانوں کا شکار ہو چکی ہے؟ اگر عمران خان بھٹو کی تاریخ سے سیکھتے تو انہیں پتا چلتا کہ جب بھٹو ایک فلسفہ لے کر اکیلا ایوب خان کے خلاف کھڑا ہوا تو لوگوں نے اس پر جانیں نچھاورکیں۔ خورشید
قصوری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1970ء کے الیکشن سے کچھ دن پہلے وہ بھٹو کے ساتھ لاہور ہوٹل میں بیٹھے تھے، بھٹو نے ان سے پوچھا کہ وہ الیکشن میں کتنی سیٹیں لیں گے؟ جب اندازے لگنے شروع ہوئے تو بھٹو خود بھی بیس پچیس سیٹوں سے زیادہ کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ اس پر ان کی شرط لگ گئی اور بھٹو یہ شرط ہار گئے۔ یہ ہوتی ہے لوگوں کی محبت، جب لیڈر ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر ایک دن بھٹو جیسے لیڈر کو پھانسی دے دی گئی اورکوئی باہر نہ نکلا۔ کچھ دل جلوں نے اپنے آپ کو آگ ضرور لگائی، جیلوں میں بھی گئے، لیکن کہاں گئے وہ لاکھوں لوگ جو بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے اور اس کی تقریریں سننے کے لیے دوڑے چلے آتے تھے۔ دراصل جب تک بھٹو اپنے نظریے پر جم کر عوام کے ساتھ کھڑا رہا، عوام نے اسے کندھوں پر اٹھایا، لیکن جب بھٹو ان طاقتوں کے ساتھ مل گیا جو عوام دشمن تھیں تو عوام پیچھے ہٹ گئے۔
عمران خان بھول گئے کہ 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں جب عظیم الشان جلسہ ہوا تھا، اس وقت ایسے سیاستدان ساتھ نہیں کھڑے تھے جنہیں لے کر وہ آج جہازوں پر گھومتے ہیں یا جو ان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں۔ عمران خان بھول گئے کہ ان کا پیغام ان لیڈروں کے بغیر عوام تک پہنچ گیا تھا۔ عمران خان اپنے فین اورکرائوڈ کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ یہ ایک پڑھی لکھی کلاس ہے جو نون لیگ، ق لیگ اور پیپلز پارٹی سے بیزار ہوکر ان کے قریب جمع ہوگئی، ان کے خیال میں وہ ان سے بہتر ہے۔ عمران خان کب تک یہ نعرہ بیچیں گے کہ وہ مالی طور پر کرپٹ نہیں ہیں؟ کیا مالی لحاظ سے کرپٹ نہ ہونا کافی ہے؟ مان لیتے ہیں، آپ خود کرپٹ نہیں ہیں، لیکن آپ کے اردگرد وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے دور میں ڈٹ کے لوٹا۔ جب آپ کرپٹ کو گلے لگاتے ہیں تو پھر مان لیں کہ آپ اس کے جرائم کو نظرانداز کرتے ہیں اور یہ بھی مان لیں کہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں کوئی فرق نہیں۔
عمران خان یہ فرق نہ سمجھ سکے۔ لاہوریوں نے عمران خان کو کندھے پر بٹھا کر سرخرو کیا تھا، لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اللہ بھلا کرے شاہ محمود قریشی کا، اس نے عمران خان کو اقتدارکی نئی تھیوری سمجھائی کہ جو بھی سیاسی کچرا مال اور بھگوڑا پیپلز پارٹی سے ملتا ہے اٹھا لیں، جو ق لیگ میں مار دھاڑ کے بعد فارغ ہوگیا،اسے بھی گلے لگا لیں۔ یوں تحریک انصاف دھیرے دھیرے سیاسی سکریپ کی سب سے بڑی خریدار بن گئی۔
آپ تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کے لائے ہوئے پیپلز پارٹی کے سیاسی سکریپ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ تحریک انصاف کے کفن دفن کا انتظام تو پہلے ہی کر لیا گیا ہے۔ جس پارٹی کے لیے لاکھوں لوگ لاہور میں 30اکتوبرکونکلے تھے، اس کا سیاسی منظر بدل گیا ہے۔ جیسے کہا جا سکتا ہے کہ جس پیپلز پارٹی کو جنرل ضیا ختم نہ کر سکا اسے آصف زرداری نے ختم کر دیا، اسی طرح شاہ محمود قریشی کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا سکریپ عمران خان کو بیچ کر اس نے تحریک انصاف کے خاتمے کا بندوبست کر دیا ہے۔
مجھے یاد ہے، 2007ء میں شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر ہونے کے ناتے ق لیگ کے کوئی تیس ایم این ایز کے نام لے کر لندن میں بینظیر بھٹو کے پاس گئے تھے۔ بینظیر نے غصے سے وہ فائل پھینک دی کہ میں جنرل مشرف کا کچرا کیوں لوں! آج شاہ محمود نے اسی پیپلز پارٹی کا کچرا عمران خان کو سستے داموں بیچ دیا ہے۔ قریشی صاحب ملتان میں اپنے غربت اور ستم کے مارے سرائیکی اور سندھی مریدوں سے ان کی لہو پسینے کی کمائی سے نذرانے وصول فرما رہے ہیں۔ رہے نام اللہ کا!