اپنے سکول سے لے کر کالج تک کے کلاس فیلو خالد دستی مرحوم کے بوڑھے باپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ایک زمانہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا ۔یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا ۔ اپنے دوست کے باپ سے اس کے بیٹے کی موت پر افسوس کرنا۔
یاد آیا جب میںکروڑ ہائی سکول میںپڑھتا تھا تو دو کلاس فیلوز فوت ہوئے تھے۔ ضیاء اور افتخار۔ دونوں ہمارے ساتھ دسویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ دونوں کی موت نے ہمیں دہلا کر رکھ دیا تھا ۔ضیاء گرمیوں کی چھٹیوں میں نہر پر دوستوں کے ساتھ نہانے گیا اور ڈوب گیا ۔ افتخار کے والد ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں افسر تھے۔ افتخار میرے ساتھ ہی بینچ پر بیٹھتا تھا ۔ شرارتوں سے بھرپور ایک پیارا دوست ۔ بڑی خوبصورت پنجابی بولتا اور میں اس سے پنجابی سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ کئی دنوں تک وہ سکول نہ آیا ۔ پتہ چلا کہ نشتر ہسپتال میں داخل ہے اور پھر خبر آئی کہ وہ فوت ہوگیا تھا۔ ہم سب پر ایک بم گرا۔میں اس کے اثرات آج تک محسوس کرتا ہوں۔ وہ آج بھی مجھے اپنے ساتھ سکول کے بینچ پر بیٹھا شرارتیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ تیس برس بعد بھی اس کی مسکراہٹ مجھے ہانٹ کرتی رہتی ہے۔ ہم سب کلاس فیلوز اس کے گائوں گئے۔ قبر پر گئے۔ ایک عجیب ڈپریشن اور اداسی طاری ہو گئی جس نے آج تک مجھے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
تیس برس بعدیعنی اب سے دو تین برس قبل ایک دن میرے فون پر کال آئی۔ دوسری طرف سے میرانام لیاگیا ۔بتایا ‘جی بول رہا ہوں۔ بولے‘ آپ کا کروڑ سکول میں ایک کلاس فیلو افتخار ہوا کرتا تھا۔ اس کا باپ بول رہا ہوں۔ آپ کو ٹی وی پر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے میرا اپنا بیٹا بات کر رہا ہے۔آپ کو دیکھ کر افتخار کو یاد کر لیتا ہوں۔
افتخار کے والدسے یہ جملے سننا ایک ایسا تجربہ تھا کہ میں ابھی تک اس کے اثرسے باہرنہ نکل سکا ۔تیس برس قبل اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو کھونا اور پھر ساری عمر کا روگ پالنا اور پھر اس کے کلاس فیلوز میں اپنے بیٹے کو تلاش کرتے رہنا...! پہلی بار اندازہ ہوا کہ ایک باپ کے لیے اس کے بیٹے کے کلاس فیلوز کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور اگر بیٹا نہ رہے تو پھر ان کلاس فیلوز کی ان کی زندگیوں میں اہمیت کتنی بڑھ جاتی ہے۔
اب ایک اور دوست کے والد کے سامنے بیٹھا انہیں صدمے سے روتا دیکھ رہا تھا۔مجھے یاد آیا کیسے افتخار کے باپ کو مجھ میں اپنا بیٹا نظر آتا تھا ۔خالد کے باپ کی بھی یہی حالت ہوگی۔
خالد سے پہلی ملاقات کوٹ سلطان میں ہوئی تھی جہاں ہم دونوں نے چھٹی جماعت میں داخلہ لیا۔ کئی دوست بنے، کچھ یاد رہے‘ کچھ بھول گئے۔ اگرچہ ہم ایک جماعت میں نہ تھے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی پیریڈ میں ملاقات ہوجاتی۔ میرے بڑے بھائی سلیم کلاسرا ان دنوں کروڑ لعل عیسن میں بینک میں نوکری کرتے تھے‘ لہٰذا انہوں نے مجھے نویں جماعت میں وہیں داخل کرادیا۔ ان کا خیال تھا کہ کروڑ سکول میں اچھی پڑھائی ہوتی تھی ۔ وہاں استاد چودھری حسن صاحب کا طوطی بولتا تھا۔ اور بھی کئی قابل استاد تھے۔ میں اپنے گائوں جیسل کلاسرامیں صبح چھ بجے اٹھتا ، منہ اندھیرے بس پکڑتا۔ پہلے لیہ شہر اور پھر تیس کلومیٹر دور کروڑ کے لیے ویگن پکڑتا اور ٹھیک نو بجے کلاس روم میں موجود ہوتا ۔ روزانہ آنے جانے کے لیے ایک سو اسی کلومیٹر طے کرتا ۔ سلیم بھائی روزانہ بیس روپے دیتے۔ سولہ روپے آنے جانے کا کرایہ اور چارروپے جیب خرچ۔ کروڑ میں کئی دوست بنائے اور شاندار وقت گزرا۔
کروڑ سے میٹرک کے بعد لیہ کالج میں داخلہ لیا۔ کوٹ سلطان سے آئے پرانے دوستوں سے بھی وہیں دو برس بعد ملاقات ہوئی۔ وہ اب پھر کلاس فیلو بن گئے تھے۔ خالد دستی بھی ان میں سے ایک تھا ۔خالد کو پڑھنے کا شوق تھا۔ استاد بھی اس کے شوق کی قدر کرتے۔ تاہم خالد اور میں اس وقت قریب آئے جب ہم دونوں نے ایف اے کے بعد بی اے میں داخلہ لیا ۔ مجھے ایک دن بھکر سے تعلق رکھنے والے قابل اور انتہائی مہربان استاد ظفر حسین ظفر نے بلا کر کہا کہ اس سال سے انگلش لٹریچر آپشنل مضمون کے طور پر کالج میں شروع ہورہا ہے۔ بہتر ہے تم داخلہ لے لو۔ میں نے سر جھکا کر عرض کیا جیسے آپ فرمائیں۔ لٹریچر کی کلاس شروع ہوئی تو دو درجن طالب علم تھے،جو کچھ دنوں بعد ایک ایک کر کے چھوڑنے لگے۔ میرا دوست، کلاس فیلو، اور روم میٹ ذوالفقار سرگانی روزانہ رات کو کمرے میں ضرور کہتا کہ چھوڑو یار کس چکر میں پڑ گئے ہو۔ یہ نیا مضمون ہے۔ استاد ہم پر تجربہ کریں گے۔ پہلے ہی انگریزی کا دوسو کالازمی پرچہ تیار نہیں ہوتا، بھلا دو سو کا انگریزی لٹریچر کا پیپرکیسے تیار کریںگے۔ وہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ہمارے ایک اور بہت پیارے دوست اور روم میٹ کبریا خان سرگانی کو بھی کہتا کہ اسے سمجھائو۔ کبریا ہنس کر کہتا ذوالفقار تمہیں کیا تکلیف ہے۔ امتحان اس نے دینا ہے، دینے دو۔میں اور کبریا دونوں ذوالفقار کو تنگ کرتے۔ میں تو ذوالفقار سرگانی کی لاجک سے قائل نہ ہوا لیکن وہ خود اپنی لاجک سے قائل ضرور ہوگیا اور لٹریچر کلاس چھوڑ گیا ۔ جب لٹریچر کا فائنل امتحان ہوا تو دو درجن میں سے صرف خالد اورمیں ہی بچ گئے تھے ‘جنہوں نے امتحان دیا ۔
غلام محمد، بہادر خان، شبیر نیر اور دیگر استادوں نے انتہائی محنت سے لٹریچر پڑھایا ‘چاہے ہم دو ہی طالب علم تھے۔ جولیس سیزر‘ جس طرح غلام محمد صاحب نے پڑھایا ‘وہ اپنی جگہ ایک ایسا تجربہ تھا کہ آج تک نہیں بھولا۔ شبیر نیر کا نفاست بھرا انداز اور ادب پر گہری نظر۔تاہم خالد ایک حوالے سے خوش قسمت نکلا کہ اسے استادوں کی زیادہ ہمدردی ملی ہوئی تھی۔ سب چاہتے تھے کہ وہ ٹاپ کرے۔ اسے یونیورسٹی میں داخلہ ملے۔یا شاید میں غلط محسوس کر رہا تھا ۔ دو دوستوں اور کلاس فیلوز کے درمیان ایک مقابلہ شروع ہوچکا تھا۔ اس مقابلے سے ہماری دوستی میں کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ روزانہ صبح میرے ہوسٹل کے کمرے میں آتا، ہم وہیں ناشتہ کرتے اور کالج کے لیے نکل جاتے۔ دوپہر کو کالج ختم ہونے کے بعد بھی میں اسے اپنے ساتھ ہوسٹل لے جاتا اور ہم دونوں میس سے کھانا کھاتے۔ کبھی کبھی وہ اپنے گھر سے دیسی چیزیں لے آتا اور ہم مل کر کھاتے۔
بی اے کا امتحان ہوا۔ خالد کے نمبر مجھ سے کچھ کم تھے۔ وہ اداس اور مایوس تھا۔ میں نے ڈیرہ غازی خان جا کر بیس دن تک این این سی کی تربیت بھی لے لی تھی کیونکہ اس کے داخلہ کے وقت بیس نمبر ملتے تھے۔ میری بی اے میں فرسٹ ڈویژن بنی۔ انگریزی ادب میں بانوے اور انگریزی میں ایک سو دس نمبر تھے۔ ملتان یونیورسٹی میںانگریزی ادب ماسٹرز مین داخلہ مل گیا ۔ خالد رہ گیا۔ اس کا افسوس مجھے بھی تھا کہ تعلق ٹوٹ گیا تھا۔
خالد نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے لیہ کالج میں اُسی سال شروع ہونے والی ایم اے انگلش کی کلاس میں داخلہ لے لیا اور دو برس بعد ہم دونوں نے ماسٹرز کر لیا۔ ملاقاتیں کم ہوگئیں ۔ رابطہ نہ رہا۔ پھر پتہ چلا کہ وہ لیہ کالج میں ہی لیکچرر لگ گیا۔ میرے گائوں کے لڑکے اس کے شاگرد تھے۔ میری وجہ سے ان کو زیادہ احترام اور توجہ دیتا۔
اس دوران میں ڈان اسلام آباد میں رپورٹنگ کر رہا تھا۔ ایک دن لیہ گیا تو اس سے اتفاق سے ملاقات ہوگئی۔ دونوں ایک ریسٹورنٹ میں جا بیٹھے۔ اس نے نئی نئی سوزوکی گاڑی لی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ۔ خوش اور مطمئن۔ اپنی کامیابیوں کی کہانیاں سناتا رہا۔ گاڑی خریدنے کا بتایا۔ اپنی اکیڈمی کھول لی تھی۔ مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔ بتایا اسلام آباد میں صحافت کرتا ہوں۔ بولا اس سے کیا ہوتا ہے، کرتے کیا ہو۔ طنزیہ پوچھا‘ ملازمت کیا ہے۔ میں نے کہا صحافت ہی ملازمت ہے۔ وہ مسکرا پڑا۔ اس کے نزدیک شاید میں راستے سے بھٹک گیا تھا۔ وہ ہنستا رہا۔ بولتا رہا۔ا پنی فتوحات کی کہانی سناتا رہا اور میں خاموشی سے اس کی خوشی میں شریک ہوتا رہا۔ یوں لگا جیسے خالد کے نزدیک زندگی کی دوڑ میں وہ بہت آگے نکل گیا تھا اور میں ایسی جاب کرتا تھا جس کی لیہ جیسے علاقوں میں کوئی اہمیت نہ تھی۔میں نے بھی وضاحت کی کوشش نہ کی کہ جنرلزم کس بلا کا نام ہے۔ بس اسے سنتا رہا ۔ ہم دونوں قہقہے لگاتے رہے۔ پرانے دوستوں کے قصے اور استادوں کو یاد کرتے رہے۔۔وقت گزر گیا تھا۔ہم دونوں بھی وقت کے ساتھ بدل گئے تھے۔
اسے اب لیہ میں سب جانتے تھے۔ اب وہ خالد دستی نہیں بلکہ پروفیسر خالد دستی تھا۔ سب اس کی عزت کرتے تھے۔ ہر جگہ اس کے شاگرد پھیلے ہوئے تھے۔ وہ جہاں جاتا سب اسے سلام کرتے۔خالد کی زندگی مکمل ہوگئی تھی ۔ اس کی عمر بھر کی کاوش، محنت اور بھاگ دوڑ کا صلہ اسے مل گیا تھا ۔ اگر یونیورسٹی میں داخلہ ملنے کی محرومی تھی تو بھی مجھ سے مل کر دور ہوگئی تھی۔ اسے لگا کہ جیسے وہ خواہ مخواہ برسوں اس بات پر کڑھتا رہا کہ اسے یونیورسٹی میںداخلہ نہ ملا ۔اب وہ ایک مطمئن انسان تھا۔ اور میں واقعی اس سے مل کر خوش ہوا ۔
میں جب بھی گائوں جاتا‘ میرے عزیز ضرور اس کا سلام دیتے کہ وہ اکثر آپ کا ذکر کلاس میں بھی کرتا ہے اور پرانے دنوں کے ہمارے قصے سناتا ہے۔میں مسکرا پڑتا کہ چلیں اس نے ہماری یادوں کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ اس کے اندر بھی کہیں ناسٹلجیاچھپا ہوا ہے۔ ماضی کو اس نے دفن نہیں ہونے دیا۔
اور پھر ایک صبح نیند سے جاگا توہمارے مشترکہ صحافی دوست زبیر قریشی کا پیغام آیا ہوا تھا کہ صبح سویرے ایک ایکسڈنٹ میں خالد دستی فوت ہوگیا۔
دل پر ایک گھونسا لگا۔یقین نہ آیا۔ کافی دیر بیٹھا اپنے اپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ ماضی کاایک باب بند ہوگیا تھا۔
خالد کے بوڑھے باپ کی آنکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ میں نے چلتے وقت انہیں زور سے سینے سے لگایا ۔ انہیں تسلّی دینے کی کوئی کوشش نہیں کی کیونکہ مجھے معلوم تھا تیس برس قبل کروڑ سکول کے کلاس فیلو افتخار کے والد کی طرح ، اب خالد کے زاروقطار روتے والد کی بھی اپنے مرحوم بیٹے کے برسوںپرانے دوست اور کلاس فیلو کو اپنے سامنے دیکھ کر کیا حالت ہورہی تھی۔!