اس مشکل سوال کا سامنا دو ہزار سال پہلے مشہور جنگجو اور فاتح سکندرکے استاد ارسطو اور اس دور کی یونانی نسل کو بھی کرنا پڑا تھا۔۔۔۔ کہ ہم کسی مشہور آدمی یا آسان زبان میں ایک ہیرو کی زندگی میں کیوں دلچسپی لیتے ہیں؟ کیا ہو جاتا ہے ایک عام انسان کو؟
جو بھی بڑا آدمی ہو یا ارسطو کی زبان میں ہیرو ہو، ہوتا تو ہماری طرح گوشت پوست کا ایک انسان ہی ہے۔ عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا ہے، شادیاں کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے، بیمار ہوتاہے اور ہمارے درمیان رہتا ہے، کبھی خوشی کبھی غم! لیکن ہم کیوں دوسروں کی نسبت اس کی زندگی کے نشیب و فراز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں؟ ہمیں اپنے دکھوں اور اذیت کا اتنا خیال نہیں رہتا جتنا ہیرو کی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کا۔ اس کی زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سے ہم کیوں اتنے متاثر ہوتے ہیں ؛ حالانکہ بعض دفعہ ہمیں علم ہوتا ہے اس کے ساتھ پیش آنے والی ٹریجڈی سے ہمارا براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ یونان میں سٹیج ڈراموں کا کلچر تھا۔ وہاں میلے ٹھیلے لگتے۔ سفرکلیز، یوری پیڈیز جیسے بڑے ڈرامہ نگاروں کے درمیان مقابلے ہوتے۔ میلے میں کامیاب ڈرامہ نگاروں کو انعامات ملتے‘ جن کے ڈراموںکو عوام نے زیادہ پسند کیا ہوتا۔ ان ڈراموں کے موضوعات پر غور کریں تو پتا چلے گا اکثر کا موضوع بادشاہوں، شہزادوں یا شہزادیوں کے قصے کہانیوں، ان کے عروج و زوال اور ٹریجڈی پر مبنی ہوتے تھے۔ اس دور میں طے تھا کہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے سامعین کی آنکھوں سے آنسو بہیں، مجمع میں بیٹھے انسان، ہیرو کے زوال اور تقدیر کے ہیر پھیر پر رو رہے ہوں۔ اسے کتھارسس کہا جاتا تھا۔ چونتیس کے قریب یونانی ڈرامے‘ جو اس وقت تک بچے ہوئے ہیں، پڑھیں، ان کے موضوعات پر غور کریں، تو اندازہ ہوگا کہ ٹریجڈی ہمیشہ انسانی مزاج کا حصہ رہی ہے، کامیڈی نہیں۔
ارسطو نے اس پر گہرا غوروفکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ عام انسان ایک ہیرو کی زندگی میں دلچسپی لے گا۔ ارسطو کے سامنے ایک اور بڑا سوال بھی تھا کہ ہیروکی تعریف کیا ہو، جس کی زندگی میں لوگ دلچسپی لیتے ہیں؟ ارسطو کا کہنا تھا کہ ہیروکے مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ٹریجڈی کا شکار ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر ہیرو کے ساتھ ٹریجڈی نہیں ہوگی تو لوگ ہمدردی اور دکھ کا اظہار نہیں کریںگے۔ ہیرو کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ اس کا Tragic flaw ہونا چاہیے جو اس کے زوال کا سبب بنے یعنی وہ ایسی بڑی غلطی کرے جو اس کے زوال کا سبب بنے اور سب اس کے انجام پر دکھی ہوں۔ وہ ایسی غلطی کا مرتکب ہوتا ہے جو اسے بربادی تک لے جاتی ہے۔
اس سے پہلے کہ میں ارسطو کے ہیروکی نشانیاں بتانا شروع کروں، مجھے یاد آیا، انگریزی جریدے ٹائمز نے چند برس قبل خصوصی رپورٹ اس وقت شائع کی تھی جب فرانسیسی آئی ایم ایف کے سربراہ کا امریکہ میں ہوٹل ویٹرس کے ساتھ چھیڑخانی کا سکینڈل سامنے آیا تھا جس کے نتیجے انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ اس رپورٹ میں اس انسانی پہلو کا جائزہ لیا گیا تھا کہ آخر مشہور لوگ کیوں سکینڈلز میں پھنس جاتے ہیں۔ وہی کام جب عام انسان کرتے ہیں تو خبر نہیں بنتی لیکن ایک مشہور آدمی ویٹرس سے ہنس کر بھی بات کر لے تو سکینڈل بن جاتا ہے۔ مشہور لوگوں کے سکینڈلز کیوں بنتے ہیں؟ جہاں دیگر وجوہ بتائی گئیں وہاں یہ وجہ بھی سامنے آئی کہ مشہور یا کامیاب انسان ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی میں دوسروںکی نسبت زیادہ دولت اور شہرت کا حامل ہوتا ہے، لہٰذا سمجھتا ہے کہ وہ کبھی غلطی نہیں کر سکتا، وہ جو کر رہا ہے درست کر رہا ہے، اگر کچھ ہو بھی گیا تو سنبھال لے گا۔ اپنی ذات پر یہی ضرورت سے زیادہ اعتماد اسے لے بیٹھتا ہے۔ وہ ایسی غلطیوں کا مرتکب ہونے لگتا ہے جو اس کے نزدیک اہم نہیں ہوتیں،تاہم دوسروں کے لیے اس میں خاصا مواد ہوتا ہے، اس لیے مشہور آدمی کی غلطی فوراً پکڑی جاتی ہے۔ لیکن زوال کی سب سے بڑی وجہ مشہور انسان یا ہیروکا اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہوتاہے، وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس سے کوئی غلط کام نہیں ہو سکتا۔
اب دوبارہ لوٹتے ہیں ارسطو کے ٹریجک ہیروکی طرف۔ اس نے ایسے ہیرو کی یہ پانچ خصوصیات بتائی ہیں:
1۔ اس میں کوئی بڑی کمزوری ہو۔
2۔ اس کی قسمت پلٹ جائے اور قسمت میں تبدیلی کی وجہ اس کی اپنی صورت حال سمجھنے میں ناکامی ہو۔
3 ۔ ہیرو خود کسی مرحلے پر اس احساس سے گزرے کہ اس کی قسمت میں خرابی کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کے اپنے ایسے کام اور فیصلے تھے جن کی وجہ سے وہ ڈوب گیا۔
4 ۔ ہیرو میں فخر(pride)کوٹ کوٹ کربھرا ہو۔
5 ۔ اس کا انجام اس سے زیادہ ہو جتنا ہونا چاہیے تھا یعنی تقدیر اسے اس کی غلطی سے زیادہ سزا دے۔
ارسطو کے مطابق ٹریجک ہیرو ایک عام انسان سے نہ تو زیادہ بہتر ہو نہ زیادہ برا کیونکہ اس طرح وہ ٹریجک ہیروکے ساتھ اپنا موازنہ نہیںکر سکے گا۔ اگر ہیرو ہر لحاظ سے مکمل ہو تو ہمارے اندر اس کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوںگے۔ اسی طرح اگر ہیرو زیادہ برا انسان ہو تو بھی اس کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوںگے۔ ہم سمجھیں گے اس کے ساتھ جو ہوا اچھا ہوا، اس کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا۔ یوں وہ ہمارا ٹریجک ہیرو نہیں بن سکے گا۔ ٹریجک ہیرو کے کردار میں توازن ہونا ضروری ہے۔ ارسطو کا ٹریجک ہیرو ایسے انجام سے دوچار ہوتا ہے جس پر سب روتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں۔ وہ اونچائی سے گرتا ہے، ایسی غلطی کر بیٹھتا ہے جس کا وہ ازالہ نہیںکرسکتا۔ ہیروکو اپنے تباہ کن انجام کا بہادری سے سامنا کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کے دل میں جہاں اس کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں وہاں وہ اس کی زیادہ عزت بھی کریںکہ اس نے قسمت کا لکھا کس بہادری اور وقار کے ساتھ قبول کیا، عام انسان کی طرح رونے دھونے نہیں بیٹھ گیا۔
ٹریجک ہیروکی کچھ اور نشانیاں بھی بتائی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسے اپنے کیے سے زیادہ سزا ملے اور یہ کہ ہیرو شروع سے ہی تباہی کی طرف جا رہا ہو۔ وہ مزاجاً اچھا انسان ہو لیکن ہرگز ایسا کردار نہ ہو جو ہر لحاظ سے مکمل ہو کیونکہ اس صورت میں وہ ایک عام انسان کو آسمانی مخلوق محسوس ہوگا اور وہ اس کے ساتھ ہمدردی نہیں کریںگے، اس کے زوال پر آنسو نہیں بہائیںگے۔ ٹریجک ہیروکو خود احساس ہونا چاہیے وہ کہاں کہاں غلط فیصلے کرتا رہا، اس کے زوال میں کسی اور کا ہاتھ نہ ہو۔ ہیرو اپنے زوال کا ادراک کرے، اس حقیقت کو نہ بھولے کہ تقدیر نے اس کے ساتھ جوکھیل کھیلا اس میں اس کے اپنے فیصلوں کا ہاتھ تھا۔ ہیروکی کہانی پڑھتے یا دیکھتے ہوئے ہمارے اندر خوف اور ہمدردی کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے۔ ہیرو اپنے ذاتی تجربات کی وجہ سے ہی جسمانی اور روحانی طور شدید زخمی ہو، جو اسے تباہ کن انجام کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہیروکو ذہین شخص ہونا چاہیے تاکہ اپنی غلطیوںکو محسوس کرکے ان سے سیکھ سکھے۔ ہیرو میں سب سے بڑی کمزوری اس کا بے پناہ فخر ہوتا ہے۔ آخر میں ہیرو شدید کشمکش کا شکار ہوتا ہے یعنی اسے اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ وہ کیا کرے۔
چونکہ ہمارے ہاں انسانی معاملات کو اس طرح دیکھنے اور سمجھنے کی روایت نہیں ہے اس لیے ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے لگتے ہیں۔ عمران خان کا ایشو ہزاروں برس پہلے کے پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہر دور میں ہیرو ہوتے ہیں جو ٹریجک غلطیاں کرتے ہیں۔ فخر سے بھرے ہوتے ہیں۔ ایسے غلط فیصلے کرتے ہیں جو ان کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ منظر آج صرف پاکستان میں نظر نہیں آیا، انسانی تاریخ میں ہزاروں برس سے یہی ہوتا آ رہا ہے۔ لوگ ہیرو بناتے رہیں گے، وہ غلط فیصلے کریں گے جو ان کی بربادی کا سبب بنتے رہیںگے اور عام انسان اپنے ہیروکی زندگی میں رونما ہونے والے اثراث دیکھ کر دم بخود ہوتے رہیںگے۔
عمران خان کے مداحوں سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔ عوام کو سمجھانے سے صدیوں پرانی انسانی نفسیات تبدیل نہیں ہوگی، آپ لوگوں کو چاہے اخلاقیات اور ذاتی زندگی کو موضوع بنانے کے کتنے ہی درس کیوں نہ دیں۔ گالیاں یا طعنے دینے سے انسان کی فطرت تبدیل نہیں ہوگی۔ فخر سے لبریز ہمارے ہیرو کے اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے آنے والی تباہی رک نہیں سکے گی۔ عمران خان کی محبت میں ڈوبے ہم سب، انسانی مزاج کا یہ عجیب و غریب راز سمجھیں یا نہ سمجھیں، ارسطو جیسا یونانی دانشمند دو ہزار برس قبل یہی سمجھتا تھا! اگر ارسطو آج زندہ ہوتا اور عمران خان بارے میں اس سے سوال ہوتا تو وہ ایک فقرے میں ہی بات ختم کر دیتا: ''ریحام خان، عمران خان کا Tragic flaw ثابت ہوئی ہے!‘‘