ملتان کے بارے میں لکھنے بیٹھا تو خود کو بے بس پایا۔ جس ملتان سے میں واقف ہوں، وہ تو اب شاید کتابوں میں بھی نہ ملے۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔ کئی دن سوچتا رہا کیا لکھوں۔ ملتان کی ہرگلی، ہر نکڑ اور ہر سڑک کی یادیں ہیں کہ سمٹنے میں نہیں آتیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک میری بیوی کہا کرتی تھی، چلو ملتان چل کر رہتے ہیں۔ اسے ملتان بہت پسند ہے۔ اس کا بچپن اپنی خالہ کے گھر گزرا تھا‘ جس سے اس کی یادیں وابستہ ہیں۔ طویل خاموشی کا وقفہ آتا، پھر مجھے مجبور کر نے کے لیے کہتی، تمہارے سارے اچھے دوست ملتان رہتے ہیں، اسلام آباد میں دو تین دوست ہی تو ہیں۔ ملتان تمہارے دوستوں سے بھرا ہوا ہے، ان میں شکیل انجم اور جمشید رضوانی سب سے اچھے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست نہ بن سکے۔
اس شہر میں جتنا کھویا اتنا ہی پایا۔ اس شہر میں اپنی ماں کو کھویا‘ تو اپنے بچوں کی ماں کو اسی شہر میں پایا۔ دوستوں نے بہت مدد کی، سب ملتانی تھے۔ مختار پارس، جمشید رضوانی، ذوالکفل بخاری، سعود نیاز، روشن ملک، عمران مرزا، علی شیخ، سجاد جہانیاں، انجم کاظمی، طاہر ندیم، فیاض، شکیل انجم، ظفر آہیر... ایک طویل فہرست جو شاید کبھی ختم نہ ہو۔ باقر شاہ صاحب اور چوہدری نیاز نے تو اپنے بچوں سے بھی زیادہ پیار دیا۔ اور پھر ایک طرف شاکر حسین شاکر کا کتاب نگر تو دوسرے کونے میں جبار صاحب کا بیکن بُکس!
رات گئے اسلام آباد میں یہ سب لکھنے بیٹھا ہوں‘ تو لگتا ہے یہ کسی اور جنم کی کہانی ہے‘ کسی اور کی داستان ہے۔ یہ سب بیتا کسی اور کے ساتھ ہے، میں تو صرف لکھ رہا ہوں۔ ذوالکفل بخاری کا گھر یاد آیا جو ایک دن ہمیں چھوڑ کر اگلے جہان ٹُر گیا۔ اس کے گھر کی یادیں تڑپاتی ہیں۔ بخاری کے گھر پارس لے گیا تھا۔ وعدہ لیا کہ بونگی نہیں مارنی، عطااللہ شاہ بخاریؒ کا نواسہ ہے، کوئی مذاق نہیں کرنا۔ پارس اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر مجھے سارا رستہ یہی سمجھاتا رہا۔ گھر پہنچ کر ذوالکفل سے تعارف کرایا۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا، مسکرائے، پارس کو ایک طرف دھکا دیا، گلے ملے اور دوستانہ گالیوں کا تبادلہ کیا۔ پارس بے ہوش کر گرنے والا تھا۔ پوچھا: ''پہلے سے جانتے ہو؟‘‘ ''نہیں، تم نے ابھی ملوایا ہے‘‘ میں نے جواب دیا۔ ''تو پھر پہلی ملاقات میں اتنی بے تکلفی اور وہ بھی ذوالکفل کے ساتھ؟ یہ سب کیسے؟‘‘ پارس نے حیرت سے پوچھا۔ میں نے کہا، ''چھوڑو پارس، تم نہیں سمجھو گے۔ یہ بوڑھی روحوں کا ملاپ ہے‘‘۔ ملاقاتیں بڑھیں۔ رات گئے ذوالکفل گھر والوں سے چھپ کر میرے اس وقت جاری رومانس کے لیے اپنا فون استعمال کراتا، کھانا کھلاتا، بہترین چائے پلاتا اور خوبصورت ادبی گفتگو کرتا۔ یہ سوچ کر دل ڈوب جاتا ہے کہ ذوالکفل بخاری دنیا میں نہیں رہا۔ ملتان اس کے بغیر ادھورے چاند کی طرح تنہا اور اداس لگتا ہے۔
ذوالکفل کے گھر ہی خالد مسعود خان اور کالم نگار ہارون الرشید سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ذوالکفل کے گھر کا ناشتہ بہت مشہور تھا۔ برسوں بعد ذوالکفل اسلام آباد ملازمت کے سلسلے میں میرے گھر ایک ماہ رہا۔ ایک دن میں اور میری بیوی لڑ رہے تھے۔ بولا: ''کیا بات ہے؟‘‘ بیوی بولی: بھائی‘ میں چاہتی ہوں چھوٹے بیٹے کا نام میں رکھوں۔ یہ چاہتے ہیں اس کا نام اسد رئوف یا سرمد رئوف رکھیں‘‘۔ یہ نام میری بیوی نہیں مانتی تھی۔ ذوالکفل نے میری طرف دیکھا اور بولا: ''حضرت! کچھ شرم کرو، جس نے نو ماہ تکلیف اٹھائی ہے، اس کا بھی کچھ حق تسلیم کر لو‘‘۔ میں نے کہا: ''مولانا مان لیا‘‘۔ یہ علیحدہ بات کہ موصوفہ چھ ماہ تک بیٹے کا نام نہ ڈھونڈ سکی۔ میرے بچے ذوالکفل کو اس کی داڑھی کی وجہ سے ''قاری صاحب‘‘ کہتے تھے۔ روشن ملک کے خوبصورت گھر میں رات گئے جمنے والی محفلیں کون کافر بھلا سکے گا! کمال کی مہمان نوازی‘ وہ ظالم بھی اب امریکہ جا بسا ہے۔ روشن ملک ملتان نہ ہو تو بندہ سردیوں میں کس کے لان میں چار سُو پھیلی دھوپ میں بیٹھ کر چائے پیے؟
1991 ء میں لیہ سے بی اے پاس کر کے ملتان آیا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لوں۔ انگریزی ادب میں داخلے کے لیے فارم لیا۔ کسی نے کہا: دو تین مضامین کے لیے اپلائی کرو۔ میں نے کہا: 'نہیں، انگریزی ادب کے لیے ہی کروں گا‘ داخلہ مل گیا تو ٹھیک ورنہ گائوں لوٹ جائوں گا‘۔ یہ میری بیوقوفانہ ضد تھی۔ جس دن پہلی کلاس تھی، بس سے اترا تو مجھ جیسا لمبا تڑنگا دیہاتی ٹائپ ایک لڑکا بھی اسی بس سے اترا۔ یہ شعیب بٹھل تھا، یونیورسٹی میں میرا پہلا دوست۔ پھر دوستوں کی لائن لگ گئی... شاہد کاہلوں، کیپٹن زاہد اسلم، محمود بھٹی، جہانگیر بھٹہ، اعجاز نیازی، ناصر تھہیم، شفیق لغاری، بلال... ان دوستوں نے زندگی میں کئی رنگ بھر دیے۔
یونیورسٹی میں ہی تھا کہ پتا چلا اماں کو کینسر ہے۔ دن کو کلاس اٹینڈ کرتا، دوپہر کے وقت نشتر ہسپتال چلا جاتا۔ رات اماں اور نعیم بھائی کے پاس گزارتا۔ آٹھ ماہ یہی معمول چلتا رہا۔ آخر اماں چل بسی۔ یہ شہر دل سے اتر گیا۔ پھر یکدم اس شہر نے مجھ پر بہت محبت نچھاور کر دی۔
میری زندگی کے خوبصورت دن یونیورسٹی کے تھے جہاں اردو ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر انوار احمد، انگریزی میں مظہر سعید کاظمی اور مبینہ طلعت جیسے استاد ملے‘ وہیں ابن حنیف جیسے عظیم انسان سے بھی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ نگر نگر پھرا مگر ابن حنیف جیسا نفیس اور خوبصورت انسان اور کہیں نہ ملا۔ ہندوستان کی سرزمین چھوڑ کر ''سات دریائوں کی سرزمیں‘‘ کے خالق کو ملتان راس آیا۔ ملتان کے رنگ میں وہ رنگ گئے تھے۔ ان کے گھر پر گزری کئی شامیں آج بھی دل میں کسک پیدا کرتی ہیں۔ کبھی نہ سمجھ سکا، وہ میرے جیسے عام طالب علم پر کیونکر مہربان تھے۔ ان کی لائبریری میں صرف مجھے جانے کی اجازت تھی کہ کسی کتاب کو ہاتھ لگا لوں یا اٹھا لوں، بس اس شرط کے ساتھ کہ واپس وہیں رکھنا نہ بھولوں۔
یونیورسٹی سے فارغ ہوا‘ تو نعیم بھائی نے کہا: مظہر عارف کے پاس کام کرو۔ مظہر عارف ان دنوں فرنٹیٔر پوسٹ ملتان کے بیوروچیف تھے۔ وہ سرائیکی علاقوں میں بڑی عزت سے دیکھے جاتے تھے۔ انہوں نے ملتان میں انگریزی جرنلزم کو عروج تک پہنچایا تھا۔ ان کے پاس پہنچا تو بولے کیوں صحافی بننا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: کون بننا چاہتا ہے؟ بولے: تو پھر یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ میں نے کہا: نعیم بھائی نے کہا ہے کچھ دن آپ کے ساتھ کام کروں، ہاتھ کھل جائے گا۔ میری بات سن کر مایوس ہوئے۔ اپنے ٹائپ رائٹر پر انگلیاں چلاتے ہوئے بولے، جائو اس کرسی پر بیٹھ جائو۔
ایک دن ان سے ایک مہمان ملنے آئے۔ آفس بوائے چھٹی پر تھا۔ مجھ سے کہا: یار جا کر چائے کا کہہ آئو۔ چائے کا کھوکھا دور تھا، میں نے سوچا خود ٹرے لے جاتا ہوں۔ چائے کا ٹرے اٹھائے دفتر میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں، میری یونیورسٹی کی دوست لڑکیاں ملنے آئی ہوئی تھیں کہ دیکھ کر آئیں رئوف اتنے بڑے انگریزی اخبار کے دفتر میں کتنی اعلیٰ نوکری کرتا ہے۔ مظہر عارف کو احساس ہوا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔ وہ میری طرف دوڑے کہ اس کی دوست لڑکیاں کیا سوچیں گی۔ فوراً ٹرے میرے ہاتھ سے لیا اور ڈانٹ کر کہا: میں نے کب کہا تھا چائے تم نے لانی ہے، کہا تھا، صرف بول کر آ جائو۔ میں شرمندہ نہ ہوا اور بولا: سر! چائے کو دیر ہو جاتی۔ آپ کے مہمان جلدی میں تھے، اس لیے خود لے آیا۔ اپنی ان دوست لڑکیوں کے منہ پر چھائی وہ حیرت آج تک نہیں بھولتی کہ انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد رئوف دفتر میں چائے لانے کی نوکری کرتا ہے۔ مظہر عارف سے نہ ملا ہوتا تو میں صحافی نہ بن پاتا۔ بظاہر وہ سخت لگتے، لیکن اندر سے مہربان اور حساس انسان تھے۔
میرے دوست صحافیوں کو پسند نہ کرتے تھے۔ سب کا خیال تھا بلیک میلر ہوتے ہیں۔ تنخواہ نہیں ملتی‘ پگڑیاں اچھالنے کا کام کرتے ہیں۔ چغل خوروں کی سی نوکری کرتے ہیں۔ ادھر ادھر کی سن کر چھاپ دیتے ہیں۔ یہ کیا نوکری ہوئی! میں سب سنتا رہتا۔ مجھے پتا تھا مظہر عارف ایسے صحافی نہیں ہیں۔ ملتان کی صحافت کا ایک اور بڑا نام خان رضوانی بھی ایسے نہ تھے؛ تو میں کیونکر ہوں گا؟ رہی سہی کسر نذر بلوچ کی محبت نے پوری کر دی‘ جس نے مجھے پریس کلب ملتان میں دھکے کھاتا دیکھا تو ایک دن گھنٹہ گھر چوک میں واقع ڈریم لینڈ سینما کے سامنے عمارت میں دوسرے فلور پر واقع اپنے دفتر کی چابی دی کہ سب چھوڑو، جائو مقابلے کے امتحان کی تیاری کرو۔ میں نے کہا: مجھے تو صحافی بننا ہے۔ بولے: بنتے رہنا، اس وقت جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔ گھنٹہ گھر چوک، دن ہو یا رات، اس کی اپنی رونق ہوتی۔ ڈیرے اڈے کے قریب جمشید اور طاہر ندیم کے دفتر میں گپ شپ کرنے کے بعد پیدل گھنٹہ گھر جاتا‘ یا کبھی طاہر ندیم اپنی بائیک پر ڈراپ کر آتا۔ پُرسکون اور تنہا سڑک۔ صبح سویرے گھنٹہ گھر چوک میں ناشتے کی آوازیں لگتیں۔ سری پائے، چنے اور نہاری... کبھی کبھار کوئی دوست آ جاتا تو یہی ناشتہ کرتے۔
ملتان پریس کلب میں ہی مسیح اللہ جام پوری، غضنفر شاہی، شوکت اشفاق، رئوف مان، اشفاق احمد، رائو شمیم جیسے صحافیوں کے ساتھ وقت گزارا۔ پھر ایک دن لاہور جا کر انگریزی اخبارات میں نوکری کی کوشش کی۔ ایک اخبار میں امتحان دیا۔ فیل ہوا۔ دوسرے میں ایڈیٹر طاہر مرزا نوکری دینے کو تیار نہ تھے۔ اللہ بھلا کرے ظفر اقبال مرزا کا، انہوں نے تین ماہ کا کنٹریکٹ لے کر دیا۔ خالد شیخ، عبدالستار قمر کے ساتھ ڈان ملتان میں کام شروع کیا۔ دو برس بعد کسی نے کہا: اسلام آباد چلے جائو۔ 1998ء میں ڈان کراچی کے ایڈیٹر احمد علی خان نے ملتان سے اسلام آباد جس طرح میرا تبادلہ کیا وہ اپنی جگہ ایک ایسی نیکی تھی‘ جس نے میری زندگی بدل دی۔ اسلام آباد میں بیوروچیف ضیاء الدین کا شکریہ جنہوں نے کام سکھایا اور بتایا کہ اسلام آباد اور ملتان کی خبروں میں کیا فرق ہوتا ہے۔
ملتان چھوڑنا آسان نہ تھا۔ کتنے دن ڈپریس رہا۔ کئی دفعہ سوچا نہ جائوں۔ زندگی ہی تو ہے، گزر جائے گی۔ آج بھی دل پر چھریاں سی چلتی محسوس ہوتی ہیں‘ جب یہ یاد کرتا ہوں کہ کیسے ملتانی دوست ملتان ریلوے سٹیشن پر پنڈی جانے والی ٹرین پر بٹھانے آئے تھے۔ ملتان ریلوے سٹیشن پر ڈھلتی اداس شام شاید کبھی نہ بھولے گی۔ ان لمحوں میں دوستوں کی آنکھوں میں تیرتی نمی، ریل گاڑیوں کے شور میں بھی ہر سُو چھایا سناٹا آج بھی دل کو چیرتا ہے۔ اپنے بڑے بھائی نعیم کلاسرا کے بعد ملتان کے دوستوں نے میری مدد نہ کی ہوتی تو شاید آج میں یہاں نہ ہوتا جہاں ہوں۔
ملتان چھوڑے سترہ برس گزر گئے۔ آج بھی اپنی سنگدلی اور خود غرضی پر حیران ہوتا ہوں کہ میرے اندر اتنی جرأت کیسے آ گئی تھی کہ میں ملتان اور اس سے جڑی آٹھ برس کی پرانی یادوں کے علاوہ خوبصورت دوستوں کو، ایک اجنبی دیس میں بسنے کے لیے کتنی آسانی سے چھوڑ آیا تھا...!