لیّہ شہر میں دو سال قبل قتل ہونے والے سولہ سالہ حمزہ کی آنسو بہاتی ماں کے گھر بیٹھے یاد آیا، نسرین کوثر کے والد مہر منظور کلاسرا ایک درازقد، مہذب اور سلجھے ہوئے انسان تھے، آج زندہ ہوتے تو بیٹی کے بے پناہ دکھ پر کتنے دکھی ہوتے۔
منظورکلاسرا لیّہ میں ایک دفتر میں بابو تھے۔ 1980ء کے ابتدائی برسوں میں لیّہ کے ضلع بننے سے پہلے وہ مظفرگڑھ میں تعینات تھے۔ ویک اینڈ پر مظفرگڑھ سے گھر آتے تو بس سٹاپ پر ان کے لیے گھوڑا تیار ہوتا، وہ اسی پر سوار ہوکر پانچ چھ کلو میٹر دور گھر جاتے۔ ان دنوںگھڑ سوار ایسے لگتا تھے جیسے آج کل کوئی پراڈو یا مرسیڈیز میں سوار ہوتا ہے۔ کوٹ پتلوں یا استری کی ہوئی صاف ستھری شلوار قمیض پہنتے،گرمیوں میں ان کی آنکھوں پر سن گلاسز ہوتے۔ برسوں ان کی یہی روٹین رہی۔ ہم اکثر شام کوکرکٹ کھیل رہے ہوتے، وہ ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم انہیں غور سے دیکھتے۔ ان کی شخصیت میں عجیب بات تھی، ایک رعب تھا حالانکہ وہ بات نرمی سے کرتے، محسوس ہوتا کہ آپ ایک اچھے انسان سے مخاطب ہیں۔ مہر منظورکا وہاں سے روزانہ گزرنا‘ اور ہمارا انہیں کرکٹ روک کر گزرتے دیکھنا معمول تھا۔ گائوں کے کسی شخص کا کوئی کام ہوتا تو ہرممکن مدد کرتے۔ بہت سوں کو نوکریاں دلوائیں۔ ان دنوں سرکاری دفتر میںکسی بھی عہدے پر فائز ہونا بہت بڑی بات تھی۔ ہر ایک کے لیے کچھ اچھا ہی کیا۔واقعتاً ایک شریف انسان تھے۔
میرے ماموںکا نام بھی منظورکلاسرا ایڈووکیٹ ہے۔ لیّہ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ ماموں نے بھی علاقے کے لوگوں کو اس وقت پاسکو میں نوکریاں دلوائیں‘جب لیہ میں گندم کی سرکاری خریداری شروع ہوئی۔ اللہ بھلا کرے لاہور کے میجر نواز ملک کا جو پاسکو میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے ہمارے علاقے کے غریبوں کا بہت خیال رکھا۔ آج ہمارے گائوں کے بہت سے گھرانوں میں چولہا انہی کی وجہ سے جلتا ہے اور بہت سے بچے اس لیے پڑھ لکھ گئے کہ میجر نواز ملک نے ان کے والدین کو تیس سال قبل نوکریاں دی تھیں۔ انہوں نے گائوں کے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ ماموں منظورکا بھی اس میں بڑا ہاتھ تھا۔ میجر نواز ملک کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ لوگوں کے کام کرتے مگر کبھی کسی کو جتاتے نہیں تھے۔ جوکیا لالچ یا ستائش کی تمنا کے بغیر کیا۔ یقیناً اللہ ہی انہیں اس کا اجر دے گا۔
میں پچھلے ویک اینڈ پر اپنے گائوں جیسل کلاسرا میں تھا۔ میرے کزن سمیع اللہ کلاسرا نے بتایا کہ مہر منظورکلاسرا مرحوم کی بیٹی پر آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ دو سال پہلے ان کا بیٹا قتل ہوگیا تھا۔ ایسی بات سن کر ہی بندہ دہل جاتا ہے۔ ہم ان کے گھر چلے گئے۔ ماں نے مقتول بیٹے کی تصویر سامنے رکھی تو میںکانپ گیا۔ سولہ سال کا نوجوان حمزہ! بہت کم بچے اتنے خوبصورت ہوتے ہیں۔ مجھے اس کی ڈیل ڈول اور شکل سے یوں لگا جیسے سلمان خان کو دیکھ رہا ہوں۔ حمزہ کو جم ماسٹر نے کسی چھوٹی سی بات پر قتل کر دیا تھا۔کتنا سنگدل انسان تھا!
نسرین کوثر اور ان کے خاوند ہاشم خان کے گھر بیٹھ کر یہ سب کچھ سننا آسان نہیں تھا۔ ہم سرائیکی لوگ ویسے بھی لامتناہی دکھ اور 'مُونجھ‘ کی کیفیت میں زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے دکھ ہی ایسے ہیں کہ بات بات پر آنسو ٹپک پڑتے ہیں۔ سرائیکی شاعری پڑھ کر دیکھیں۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ، اشو لال،سرور کربلائی‘ رفعت عباس، شاکر شجاع آبادی جیسے شاعروںکو پڑھ کر ہی آپ سمجھ پائیںگے کہ دکھ ، غم اور وچھوڑا کیا ہوتا ہے! یہ احساسات ہماری سرائیکی دھرتی میںکیسے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔
صدیوں سے دریائے سندھ، ستلج اور چناب کے کناروں پر آباد ان باسیوں کی روحوں پر بیرونی حملہ آوروں نے ایسے زخم لگائے جوابھی تک بھر نہیں پائے۔ ایک طرف دکھ ہے، دوسری طرف مُونجھ ! مائیں اپنے بچوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتیں۔ شاید صدیوں کا وہ خوف دل میں بیٹھا ہوا ہے کہ بیٹا گھر سے باہرگیا تو واپس نہیں آئے گا۔ دل میں کئی ہول اٹھتے ہوں گے۔۔۔۔ کسی افغانی یا وسط ایشیا سے آئے ہوئے لٹیرے کے ہتھے نہ چڑھ جائے، کسی جھتے کے ہاتھوں قتل نہ ہوجائے۔ اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ آئے روزکوئی نیا حملہ آور یہاں سے گزرتا‘ اور سندھ کے قریبی علاقوں کو تہس نہس کرتا جاتا۔ اسی خوف کے باعث آج بھی سرائیکی علاقوں کے لوگ پردیس نہیں جاتے۔ انہیں گھرکی مُونجھ ستاتی ہے۔ مُونجھ ایسا سرائیکی کا لفظ ہے جس کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ آپ مونجھ کو صرف محسوس کرسکتے ہیں، بیان کرنا ممکن نہیں۔
نسرین کوثرکے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ایک دوسرے مہمان نے اتنا کہہ دیا کہ حمزہ کے قاتل پکڑوانے میں لیّہ کے ایک سیاستدان نے بھی مدد کی تھی۔ یہ سننا تھا کہ نسرین کوثر پھٹ پڑیں۔ بولیں: کیا بات کرتے ہیں، آپ کو پتا ہے میں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو کیسے گرفتارکرایا تھا؟ میں اس حد تک چلی گئی تھی جہاں میری اپنی زندگی میرے لیے اہم نہیں رہی تھی۔ میں خاموشی سے سنتا رہا۔
بیٹے کی لاش دفنانے کے بعد ماں کو اسی سیاستدان کا فون آیا کہ آپ اپنے بیٹے کے قاتل کے ساتھ صلح کر لیں۔ ماںکو یوں لگا جیسے اس کے بیٹے کو دوبارہ قتل کر دیا گیا ہے۔ ماں نے جواب دیا: آپ عوامی نمائندے ہوتے ہوئے کیسے یہ بات کہہ سکتے ہیں۔ کل بیٹے کو
دفن کیا، آج قل ہوئے اور آپ کہتے ہیںکہ قاتل کومعاف کردوں، سولہ سالہ بیٹے کے قاتل کو! اس سے ماںکو اندازہ ہواکہ بیٹے کے قاتل کو گرفتارکرنا اتنا آسان نہیں ہوگا‘ کیونکہ جس نے فون کیا تھا وہ اثر ورسوخ رکھتا تھا۔ سیاسی لوگوں کے نزدیک کسی کا بیٹا مارا جانا عام سی بات ہے، قاتل بھی ان کی مدد مانگے تو وہ تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بھی عوامی خدمت ہے۔ ماں کا جواب سن کر سیاستدان بولا، آپ پانچ ہزار روپے کا بندوبست کریں، قاتل بھکر میں ہے، اسے گرفتارکرنے کے لیے پولیس بھیجی جائے گی۔ ماں کو شک گزراکہ ہو نہ ہو قاتل اسی سیاسی لیڈرکے پاس ہے، پہلے صلح کی سفارش بھی اسی نے کی تھی۔ اس پر ماں نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے میرے بیٹے کے قاتل کو حوالے نہ کیا تو وہ اس کے گھرکو آگ لگا دے گی۔ اس نے کہا: میں خود پر پٹرول چھڑک کر سب کچھ جلا دوںگی، تمہارے گھرکو آگ لگادوںگی۔ ماں کی آواز میں کچھ ایسا تھا کہ سیاسی لیڈر ڈرگیا۔ پولیس کو بلوا کر قاتل اس کے حوالے کر دیا۔ قاتل اسی سیاستدان کے گھر سے ہی برآمد ہوا۔
بیٹے کا قاتل تھانے میں بند ہوگیا ۔ ماں کو سلانے کے لیے بڑی مقدار میںخواب آورگولیاں دی گئیں مگر اسے نیند نہ آئی۔ ماں نے گھر میں رکھا پستول اٹھایا، پتا کیا کہ قاتل کس تھانے میں ہے۔ پستول اور گولیاں بیلٹ میں رکھیںاور تھانے کی طرف چل پڑیں۔ تھانے والوں کو پتا چل چکا تھا کہ وہ تھانے آرہی ہے۔ جونہی وہ تھانے میں داخل ہوئی، اسے کہا گیاکہ اسے تلاشی دینا ہوگی۔ اس نے کہاکہ وہ تلاشی نہیں دے گی۔ اس پر کہاگیا :تو پھر وہ تھانے کے اندر نہیں جاسکے گی۔ نسرین نے پستول نکال کر تان لیا کہ کوئی اس کے راستے میں نہ آئے۔ وہ اس وقت تک گھر نہیں جائے گی جب تک وہ اپنے بیٹے کے قاتل کومار نہیں لے گی۔ اس نے حوالات میں اپنے بیٹے کے قاتل کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔ پستول ہاتھ میں تھا۔ قاتل بھاگ کر ایک کونے میں چھپ گیا۔ اس وقت اس کی حالت کچھ ایسی ہوئی کہ بے ہوش ہو کر گرپڑی۔ اسے اٹھا کر ہسپتال لے جایا گیا۔
قتل کی یہ واردات دو برس پہلے ہوئی تھی۔ ماں ہر پیشی پر عدالت جاتی ہے، بیٹھی رہتی ہے، اگلی پیشی ملتی ہے تو مایوس ہو کر گھر آجاتی ہے۔ ابھی تک انصاف کی منتظر ہے۔ میں نے پوچھا، پولیس نے تعاون نہیں کیا؟ بولی، پولیس تعاون کر رہی ہے، ڈی پی او لیّہ صلاح الدین غازی کی تعریف کی۔ بتایا، وہ خود ان کے گھر آئے، ڈیرھ گھنٹہ بیٹھے رہے، دکھی رہے اورکہا، لگتا ہے جیسے ان کے اپنے بیٹے کے ساتھ حادثہ ہو گیا ہو۔ نسرین کوثر کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ماںکے آنسو مسلسل بہتے دیکھ کر سمجھ آئی کہ گائوں کے کسی گھرکوئی فوت ہوجائے توکیوں پورا گائوں رو رہا ہوتا ہے۔ دراصل ہرکسی کو اپنے اپنے فوت ہونے و الے پیارے یاد آجاتے ہیں، اس گھرکی میت تو ایک بہانہ ہوتی ہے آنسو بہانے کا۔ مجھے لگا کہ میں بھی اپنے کسی پیارے کو رو رہا ہوں۔
ٹالسٹائی کا عظیم ناول ''اینا کرینا‘‘ یاد آیا۔ سب سکھی گھر ایک جیسے ہوتے ہیں، لیکن ہر دکھی گھرکی اپنی کہانی ہوتی ہے۔ اس دکھی گھر کی بھی اپنی کہانی تھی۔
ہاشم خان جو اب تک چپ بیٹھے تھے بولے: بیٹا بھی قتل کرائو اور قاتل کو سزا دلوانے کے لیے خود بھی سزا بھگتو۔ وکیل تین لاکھ روپے فیس لیتا ہے، دو سال سے مقدمہ چل رہا ہے۔ میں نے اب تک خاموش بیٹھے باپ سے افسوس کرنے کی کوشش کی تو دکھی آواز میں بولے: اب تک پتا نہیں کتنے اور حمزے قتل ہوگئے ہیں۔ روزانہ سنتے اور پڑھتے ہیں،کس کس حمزہ کا رونا روئیں۔ کسی کے بھی بیٹے کے قتل کا سنتے ہیں تو اپنا سولہ سالہ لہولہان حمزہ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے اور ہم سب پھر رونا شروع کر دیتے ہیں!